Daily Ausaf:
2025-11-05@04:36:08 GMT

ڈیل میکر ٹرمپ اور بلاول بھٹو زرداری

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

بلاول بھٹو زرداری ایک نوجوان سیاستدان ہیں جنہوں نے عالمی امور میں اپنی بے مثال گرفت اور سیاسی بصیرت سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیر خارجہ کے طور پر شہباز شریف کے ساتھ کام کرتے ہوئے بلاول نے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ عالمی سیاست میں ایک نیا اثر و رسوخ قائم کیا۔ بلاول کی عالمی امور میں تربیت ان کے اپنے گھر سے ہوئی جہاں ان کی مرحوم والدہ بینظیر بھٹو نے انہیں سیاسی بصیرت سے آراستہ کیا اور اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرز پر بین الاقوامی تعلقات میں انہیں پختگی فراہم کی۔ حالیہ یورپ کے دورے کے دوران میونخ سکیورٹی کانفرنس میں بلاول کے بیانات نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو ایک نئے اور مثبت سمت میں استوار کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف پاکستان کی عالمی سیاست میں موجودگی کو مزید مستحکم کرے گا بلکہ اس کے عالمی کردار کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔دنیا بھر میں جہاں مختلف عالمی مسائل کی گونج سنائی دیتی ہے وہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے نہ صرف اپنی ملکی سیاست میں ڈیل میکر کے طور پر پہچان بنائی بلکہ عالمی سطح پر بھی متعدد ڈیلز کی بدولت امریکہ کی خارجہ پالیسی کو نئے رنگ دینے کی کوشش کی۔ تاہم ان کی خارجہ پالیسی کے اثرات دنیا بھر کی طرح پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کی حالیہ بات چیت نے اس بات کو مزید اجاگر کیا ہے کہ ٹرمپ کی پاکستان کے ساتھ انگیج منٹ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھا کا شکار رہے ہیں اور ان تعلقات کی پیچیدگیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ افغانستان میں جنگ، دہشت گردی کی کارروائیاں اور دیگر علاقائی مسائل نے دونوں ممالک کے تعلقات میں فاصلے پیدا کیے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان نے عالمی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلاول بھٹو کا یہ بیان کہ ’’پاکستان امریکی صدر کے ساتھ انگیج ہو سکتا ہے‘‘ ایک نئی راہ دکھا رہا ہے جس میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیاسی کیریئر کے دوران کئی ایسے معاہدے کیے ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر اثرات مرتب کیے۔ ان کی سب سے مشہور ڈیلز میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا حل اور شمالی کوریا کے سربراہ کے ساتھ مذاکرات شامل ہیں۔ ان معاملات میں ٹرمپ کی حکمت عملی کا مقصد امریکہ کے مفادات کو ترجیح دینا اور دنیا کے دیگر ممالک کو اپنی پالیسیوں کے مطابق ڈھالنا تھا۔
پاکستان کے حوالے سے بھی ٹرمپ کی پالیسی کچھ خاص نہیں رہی لیکن ان کی ’ ’ڈیل میکر‘‘ کی حیثیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات استوار کرنے کے خواہشمند ہوسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں جو بات کی ہے وہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو دوبارہ سے ایک مثبت سمت دی جا سکتی ہے۔
پاکستان ہمیشہ سے عالمی سطح پر ایک اہم پل کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ افغانستان میں امریکی جنگ کی حمایت کرنے کے باوجود پاکستان نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے اور عالمی سطح پر اپنے موقف کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے یہ بیان نہ صرف پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ یہ عالمی سیاست میں پاکستان کی ممکنہ حیثیت کو بھی واضح کرتا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ سے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ وہ عالمی تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کرے اور اس کے نتیجے میں بہت سے ممالک نے پاکستان کو ایک اہم پارٹنر کے طور پر دیکھا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی کشیدہ رہے ہیں اور دونوں ممالک کے مابین جنگ کا خطرہ کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔ بلاول بھٹو نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ بھارت کے ساتھ امن یا کم از کم تجارت یا انگیج منٹ کی جا سکتی ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات تقریبا ختم ہیں اور بھارت کی ہٹ دھرمی دیکھئیے کہ وہ کھیل کے شعبے میں بھی پاکستان کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور کم ظرفی کی انتہا دیکھئیے کہ بھارت اپنی کرکٹ ٹیم کو بھی پاکستان جا کر کھیلنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے کشمیریوں کے حقوق کے حوالے سے ایسے فیصلے کیے ہیں جو پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ کے ’’ڈیل میکر‘‘ ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی بھی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات اور بات چیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کو بھی انہوں نے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے علاوہ ان کی انتخابی مہم میں بھی جنگوں کی حوصلہ شکنی کی پالیسی شامل رہی۔ ان کے اس رویے کو پاکستان کے حق میں سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان بھی ہمیشہ امن کے قیام کی کوششوں میں مصروف رہا ہے۔ اگر امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے تو یہ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی امن کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے نئی حکمت عملی اپنائے۔ اگرچہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کئی اتار چڑھائو آ چکے ہیں لیکن ٹرمپ کی پالیسیوں کی بدولت پاکستان کو ایک نیا موقع مل سکتا ہے۔ بلاول بھٹو کا یہ کہنا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ انگیج ہو سکتا ہے ایک اہم پیشرفت ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اس وقت ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور بلاول بھٹو کے بیانات اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک نیا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر پاکستان اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ عالمی تعلقات میں توازن پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف پاکستان کو بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو فائدہ پہنچے گا۔
ٹرمپ کا ’’ڈیل میکر‘‘ ہونا عالمی سیاست میں ایک اہم پہلو ہے اور پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے بیانات اس بات کا غماز ہیں کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنا کردار دوبارہ سے مضبوط کر سکتا ہے اور ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر ایک نیا راستہ اختیار کرسکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے روایتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے نئے عالمی تعلقات استوار کرے اور دنیا بھر میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان اور امریکہ کے بلاول بھٹو زرداری کے درمیان تعلقات عالمی سیاست میں کی خارجہ پالیسی نہ صرف پاکستان دونوں ممالک کے عالمی سطح پر اپنے مفادات پاکستان کو بلکہ عالمی تعلقات میں کہ پاکستان پاکستان کی پاکستان کے تعلقات کو کے تعلقات ان تعلقات کا کردار کی ضرورت ہے کہ وہ کرنے کے ایک نیا سکتا ہے سکتی ہے ٹرمپ کی کرتا ہے ہیں اور کے ساتھ ایک اہم کیے ہیں کو بھی کے لیے کیا ہے ہے اور

پڑھیں:

وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست

پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس کی قیادت وزیراعظم شہباز شریف نے کی، نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات کی اور مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پی پی پی کی حمایت کی درخواست کی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملاقات کی تفصیلات اپنے سرکاری ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر شیئر کیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وفد نے آئینی ترمیم سے متعلق تجاویز پیش کیں، جن میں کئی اہم اور حساس نکات شامل ہیں۔

بلاول بھٹو کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کا وفد صدر آصف علی زرداری اور مجھ سے ملا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں تعاون کی درخواست کی۔ مجوزہ ترمیم میں درج تجاویز کے مطابق:

آئینی عدالت (Constitutional Court) کا قیام،

ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی،

ججوں کے تبادلے کا اختیار،

این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ،

آرٹیکل 243 میں ترمیم،

تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے معاملات وفاق کو واپس دینا،

اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی تقرری پر جاری ڈیڈ لاک ختم کرنا شامل ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ ان تجاویز پر غور کے لیے پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ (CEC) کا اجلاس 6 نومبر کو طلب کیا گیا ہے، جو صدر آصف علی زرداری کے دوحہ سے واپسی پر منعقد ہوگا۔ اجلاس میں پارٹی کی حتمی پالیسی طے کی جائے گی۔

PMLN delegation headed by PM @CMShehbaz called on @AAliZardari & myself. Requested PPPs support in passing 27th amendment. Proposal includes; setting up Constitutional court, executive magistrates, transfer of judges, removal of protection of provincial share in NFC, amending…

— Bilawal Bhutto Zardari (@BBhuttoZardari) November 3, 2025

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں آئینی اصلاحات اور ادارہ جاتی اختیارات کے موضوع پر ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔

یاد رہے کہ 31 اکتوبر کو اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے نے کہا تھا کہ اگر 27 ویں آئینی ترمیم کی ضرورت ہو تو فوراً کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام پر کھل کر بات ہونی چاہیے اور انہیں آئینی تحفظ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات مقررہ مدت میں لازمی ہوں۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ منگل کے روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں مقامی حکومتوں کے قیام سے متعلق متفقہ قرارداد منظور کی گئی، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی کاکس میں 80 سے زائد اراکین شامل ہیں، جن میں سے 35 اپوزیشن کے ہیں، جبکہ احمد اقبال چوہدری، رانا محمد ارشد اور علی حیدر گیلانی نے اہم کردار ادا کیا۔

ملک احمد خان نے کہا کہ قرارداد میں سفارش کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 140-اے میں مقامی حکومتوں کے قیام کے وقت کا تعین کرے، اور مقامی حکومتوں کو مالی و انتظامی اختیارات دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ 25 کروڑ لوگوں کا ملک 15 سو نمائندوں سے نہیں چل سکتا، اگر عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل نہ ہوئے تو جمہوریت پر عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔

اسپیکر نے کہا کہ ملکی تاریخ کے 77 برس میں قریباً 50 سال مقامی حکومتیں موجود ہی نہیں رہیں، جس سے عوامی مسائل حل ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر صفائی، قبرستان اور پانی جیسے مسائل حل نہ ہوں تو عوام کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتا ہے۔

ملک محمد احمد خان نے توقع ظاہر کی کہ پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی بھی آرٹیکل 140-اے کی اہمیت کو سمجھیں گی۔

مقامی حکومتوں سے متعلق متفقہ منظور کی گئی قرارداد کے اہم نکات؟

پنجاب اسمبلی نے مقامی حکومتوں کو آئینی قرار دینے کے لیے قرارداد وفاق کو ارسال کر دی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے آئین میں نیا باب شامل کیا جائے۔

مزید پڑھیں:الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا

پنجاب اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور ہوئی قرارداد سیکریٹری قومی اسمبلی اور سیکرہٹری سینیٹ کو ارسال کی گئی، قرارداد احمد اقبال اور علی حیدر گیلانی نے متفقہ طور پر پیش کی تھی، صوبائی ایوان نے آئین کے آرٹیکل 140 A – میں ترمیم کی تجویز دے دی۔

قرار داد کے متن کے مطابق آئین میں ایک نیا باب مقامی حکومتوں کے نام سے شامل کیا جائے، مقامی حکومتوں کی مدت اور ذمہ داریوں کی آئینی وضاحت کی سفارش کی گئی، مقامی حکومتوں کے انتخابات 90 روز میں کرانے کی شرط تجویز کی گئی۔

متن کے مطابق منتخب نمائندوں کو 21 دن میں اجلاس منعقد کرنے کا پابند کیا جائے، اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب میں منتخب بلدیاتی ادارے صرف دو سال چل سکے، با اختیار، با وسائل بلدیاتی نظام کا قیام ناگزیر ہے، بروقت بلدیاتی انتخابات اور مؤثر سروس ڈیلیوری ضروری ہے۔

قرارداد میں وفاق سے آرٹیکل 140A-  میں فوری ترمیم کی درخواست کی گئی، سپریم کورٹ نے مقامی حکومتوں کو جمہوریت کا بنیادی حصہ قرار دیا، پاکستان میں بلدیاتی نظام کا تسلسل نہیں ہے، بلدیاتی قوانین میں بار بار تبدیلیاں اداروں کی کمزوری کا سبب ہیں۔

متن میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کی مثالیں موجود ہیں، چارٹر سی پی اے نے بھی مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانا لازم قرار دیا تھا، الیکشن کمیشن نے دسمبر 2022 میں آرٹیکل 140-A میں ترمیم کی سفارش کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرانا مشکل ہوگا، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے یہ براہِ راست سیاسی رابطہ کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • پاکستان قابل اعتماد عالمی شراکت دار کے طور پر آبھر : خواجہ آصف : بھارت سازشوں میں مصروف : عطاء تارڑ 
  • وزیراعظم کی پی پی سے 27 ویں ترمیم کی حمایت کی درخواست، بلاول نے تفصیلات جاری کردیں
  • 27ویں آئینی ترمیم کے باضابطہ ڈرافٹ پر اب تک کوئی کام شروع نہیں ہوا: وزیر مملکت برائے قانون
  • وزیراعظم نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کےلئے حمایت مانگی، بلاول بھٹو نے تفصیلات جاری کردیں
  • وزیرِاعظم نے پیپلز پارٹی سے 27ویں ترمیم کی حمایت کی درخواست کی ہے: بلاول بھٹو زرداری
  • وزیراعظم کی زیرصدارت لیگی وفد نے 27 ویں آئینی ترمیم کیلیے تعاون مانگا، بلاول بھٹو کا انکشاف
  • وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست
  • وزیراعظم نے 27ویں آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست کی، بلاول بھٹو زرداری کا انکشاف
  • وزیراعظم نے27 ویں ترمیم کی منظوری کیلئے پیپلزپارٹی کی حمایت مانگی ہے، بلاول بھٹو
  • چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول  بھٹو نے لیگی وفد سے ملاقات کی اندرونی کہانی  بتا دی