عالمی سیاسی بساط اور اک نیا معاشقہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
ایک عرصے سے تعلقات میں سردمہری تھی۔ تناؤ کی سی کیفیت تھی۔ بسا اوقات تو بات دھمکیوں تک پہنچ گئی۔ لیکن اب حالات تبدیلی کی جانب گامزن ہیں اور رومانس کا ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے۔ عشق ایک نیا رخ پا رہا ہے۔ امریکا اور روس ایک دوسرے سے پیار کی پینگیں بڑھانے کی کوششوں میں ہیں۔ میں نہ مانوں، اور تم میرے کون، کی فضا میں خوشگوار پہلو شامل ہوچکا ہے جہاں چہروں پر مسکراہٹ ہے اور باتوں میں پرانے قصے نہ یاد کرنے کی باتیں۔
امریکا اور روس کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی عالمی سیاست کا اہم محور رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور قربت کے دورانیے نے نہ صرف عالمی سیاست کو متاثر کیا ہے بلکہ معیشت، تجارت، اور توانائی کے شعبوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ برسوں میں امریکی پالیسیوں کے تسلسل، بائیڈن انتظامیہ کے روس مخالف، یوکرین کو فوجی امداد کے بعد نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
یہ قربت نہ صرف سیاسی سطح پر اہم ہے بلکہ توانائی کے شعبے میں بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ ذہن نشین رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا فرسٹ کا نعرہ لگا چکے ہیں۔ تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ روس سے اس نئے معاشقے میں اپنے مفادات کا تحفظ مقدم رکھیں گے۔
امریکا اور روس کے تعلقات کا آغاز سرد جنگ کے دور سے ہوتا ہے، جب دونوں ممالک دو متضاد نظریاتی بلاکس کی قیادت کر رہے تھے۔ امریکا سرمایہ دارانہ نظام کا علمبردار تھا جبکہ روس کمیونزم کا مرکز تھا۔ سرد جنگ کے اختتام کے بعد، روسی فیڈریشن کے قیام کے ساتھ ہی تعلقات میں کچھ بہتری آئی، لیکن پھر بھی کشیدگی کے عناصر موجود رہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے حالیہ بیانات اور ان پر ماسکو کے مثبت ردعمل نے اتنا ضرور بتا دیا ہے کہ اک نیا معاشقہ پنپ رہا ہے۔
یوکرین بحران کے بعد روس اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوا۔ امریکا اور یورپی یونین نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں، جس کے جواب میں روس نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کیں۔ اور یورپی منڈیوں سے اپنا رخ ایشیائی منڈیوں کی طرف کیا، اسی لیے چین اور بھارت جیسی بڑی منڈیاں دستیاب ہوئیں۔ تاہم، ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد، امریکا اور روس کے درمیان تعلقات میں ایک نئی گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوٹن کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کو سمجھنے کےلیے دونوں رہنماؤں کی سیاسی اور اقتصادی ترجیحات کو سمجھنا ضروری ہے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکا کو ’’عظیم‘‘ بنانے کے وعدے کیے تھے، جس میں توانائی کے شعبے کو خود کفیل بنانا ایک اہم ہدف تھا۔ دوسری طرف، پوٹن روس کو ایک عالمی طاقت کے طور پر دوبارہ قائم کرنے کےلیے کوشاں ہیں، اور توانائی کی برآمدات روسی معیشت کا اہم ستون ہیں۔
ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان قربت کے پیچھے توانائی کی سیاست ایک اہم محرک ہے۔ امریکا اور روس دونوں ہی عالمی توانائی مارکیٹ میں اہم کھلاڑی ہیں۔ امریکا کی تونائی ضروریات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں، جبکہ روس دنیا کا سب سے بڑا تیل اور گیس برآمد کنندہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون توانائی کے شعبے میں ایک نئی عالمی ترتیب کو جنم دے سکتا ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کےلیے تیل اور گیس کی فراہمی اہم ہے۔ روس، جو دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ ہے، اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ روسی تیل کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ یورپ کو جاتا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں روس نے ایشیائی ممالک، خاص طور پر چین اور بھارت، کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔
امریکا، جو کبھی تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا، توانائی کے ذرائع کے حوالے سے اب خود کفیل ہونے کی راہ پر ہے۔ 2020 میں، امریکا دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن گیا، جس کی روزانہ پیداوار 13 ملین بیرل سے زیادہ تھی۔ تاہم، امریکا کو اب بھی مخصوص قسم کے تیل کی درآمد کی ضرورت ہوتی ہے، خاص طور پر ریفائنریز کے لیے۔ روس سے تیل کی درآمد امریکا کےلیے ایک معقول آپشن ہوسکتا ہے، خاص طور پر اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے۔ روسی تیل کی قیمتیں نسبتاً کم ہیں، اور اگر امریکا روس سے تیل درآمد کرے تو اس سے نہ صرف امریکی صارفین کو فائدہ ہوگا بلکہ عالمی تیل کی قیمتوں پر بھی دباؤ کم ہوگا۔ جب کہ دوسری جانب چین پہلے ہی روس سے پٹرولیم مصنوعات کی مد میں تجارتی حجم وسیع کرتا رہا ہے، یہ نقطہ بھی امریکا کو آسانی سے کبھی ہضم نہیں سکتا۔
یورپ روسی تیل اور گیس کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ 2021 میں، روس سے یورپ کو تیل کی ترسیل 2.
چین اور بھارت، جو دنیا کے بڑے توانائی صارفین ہیں، روسی تیل کے اہم درآمد کنندہ بن چکے ہیں۔ 2022 میں، چین نے روس سے تیل کی درآمد میں 20 فیصد اضافہ کیا، جو روزانہ 1.6 ملین بیرل تک پہنچ گئی۔ اور حالیہ یوکرین و روس جنگ کے بعد جب یورپی خریدار کم ہوگئے تو چین نے اپنی خریداری میں مزید اضافہ کیا ہے کیوں کہ روسی تیل سستے داموں دستیاب ہوا۔ اسی طرح، بھارت نے بھی روسی تیل کی درآمد میں اضافہ کیا ہے، خاص طور پر یوکرین جنگ کے بعد، جب روسی تیل کی قیمتیں کم ہو گئی تھیں۔ روس کے لیے چین اور بھارت اہم مارکیٹس ہیں، کیونکہ یہ ممالک نہ صرف بڑے پیمانے پر تیل درآمد کرتے ہیں بلکہ روس کو مغربی پابندیوں سے بچنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ روسی تیل کی ترسیل چین اور بھارت کےلیے بھی فائدہ مند ہے، کیونکہ اس سے انہیں سستے داموں پر توانائی کی فراہمی ہوتی ہے۔
روس نہ صرف تیل بلکہ پٹرولیم مصنوعات کی بھی ایک بڑی برآمد کنندہ ریاست ہے۔ روس کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی عالمی مارکیٹ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر روس اور امریکا کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی ہے، تو اس سے عالمی توانائی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اور سب سے بڑا فائدہ خود امریکا کو ہوگا۔ اور یہ خیال ہی قریں از قیاس ہے کہ انکل سام یوکرین کے معاملات میں یوکرین کی بے جا حمایت کرتے ہوئے روس کے ساتھ معاملات مزید خراب کریں گے۔ مستقبل کا منظرنامہ امریکی صدر، سیکریٹری خارجہ و دفاع کے حالیہ بیانات سے بھی واضح ہو رہا ہے۔ امریکا عالمی امدادی پروگرامز سے بھی خود کو نا صرف دور کر رہا ہے بلکہ نیٹو اتحاد بھی امریکا کے پیچھے ہٹنے سے پریشان ہے۔ وجہ یہی ہے کہ امریکا اپنی معیشت کو درپیش خطرات سے پریشان ہے۔
امریکا اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کے مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھتا ہے، تو اس سے نہ صرف توانائی کے شعبے میں بلکہ عالمی سیاست اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ چیلنجز بھی ہیں۔ مغربی ممالک، خاص طور پر یورپ، روس پر پابندیوں کو ختم کرنے کےلیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ، چین اور بھارت جیسے ممالک روسی توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہے ہیں، جو امریکا کےلیے ایک چیلنج ہوسکتا ہے۔
امریکا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، عالمی سیاست اور معیشت کےلیے اہم ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوٹن کی قربت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ توانائی کی ضروریات، تیل کی ترسیل، اور پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون عالمی توانائی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس کےلیے سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کو حل کرنا ہوگا۔ امریکا اور روس کے درمیان تعلقات کا مستقبل نہ صرف ان دو ممالک کے لیے بلکہ پوری دنیا کےلیے اہم ہے۔ توانائی کی سیاست، تجارت، اور عالمی امن کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون ایک نئی عالمی ترتیب کو جنم دے سکتا ہے۔
یہ نیا معاشقہ اس وقت ابتدائی مراحل میں ہے۔ گلے شکوے پرانے معاملات پر بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ بات اب گلے شکوؤں سے زیادہ نئے تعلقات کی نئی بلندیاں پانے کی ہے۔ محبت پروان چڑھتے ہوئے بہت اتار چڑھاؤ دیکھتی ہے۔ اسی طرح یہ محبت یوکرین اور یورپی یونین کی قربانی مانگ رہی ہے۔ اب دیکھیے انکل سام ایسا کر پاتے ہیں یا پھر یا منافقت تیرا ہی آسرا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان تعاون امریکا اور روس کے درمیان کے درمیان تعلقات میں توانائی کے شعبے میں پٹرولیم مصنوعات کی چین اور بھارت تیل کی درآمد کا سب سے بڑا عالمی سیاست روسی تیل کی ڈونلڈ ٹرمپ بڑھتی ہوئی توانائی کی تیل درآمد امریکا کو کی فراہمی امریکا کے ٹرمپ اور رہے ہیں نے اپنی کے ساتھ ایک نئی کو جنم رہا ہے کیا ہے پر بھی کے بعد کے دور کے لیے جنگ کے کہ روس
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ معطل: پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے اور اس کا دفاع کریں گے، وزیر توانائی
وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے اور اس کا دفاع بھی کریں گے۔
وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے پر بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی طرف سے جلد بازی اور اسکے نتائج کی پرواہ کے بغیر معطل کرنا آبی جنگ کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت یہ اقدام اور غیر قانونی ہے۔ وزیر توانائی نے کہا کہ پانی کے ہر قطرے پر ہمارا حق ہے، اور ہم قانونی، سیاسی اور عالمی سطح پر پوری طاقت سے اس کا دفاع کریں گے۔"
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے 1960ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جسے سندھ طاس معاہدے کا نام دیا گیا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے دریاؤں کا پانی منصفانہ تقسیم ہونا تھا۔ اس معاہدے میں ورلڈ بینک بطور ضامن ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت پنجاب میں بہنے والے تین دریاؤں راوی ستلج اور بیاس پر بھارت کا کنٹرول زیادہ ہوگا۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا جس کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کو حق دیا گیا ہے۔
دونوں ممالک کو دریاؤں کے پانی سے بجلی بنانے کا حق تو حاصل ہے تاہم پانی ذخیرہ کرنے یا بہاؤ کو کم کرنے کا حق حاصل نہیں۔
بھارتی اقدام سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی
دوسری جانب ذرائع کے مطابق بھارت کا یہ مذموم فیصلہ 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کیونکہ معاہدے کی شق نمبر12۔ (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جبکہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔
سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian , lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ جس میں عالمی بینک بھی بطور ثالت شامل ہے۔
معاہدے کی روح سے بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل نہیں کر سکتا جبکہ انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔