Express News:
2025-11-03@16:27:00 GMT

عالمی سیاسی بساط اور اک نیا معاشقہ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

ایک عرصے سے تعلقات میں سردمہری تھی۔ تناؤ کی سی کیفیت تھی۔ بسا اوقات تو بات دھمکیوں تک پہنچ گئی۔ لیکن اب حالات تبدیلی کی جانب گامزن ہیں اور رومانس کا ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے۔ عشق ایک نیا رخ پا رہا ہے۔ امریکا اور روس ایک دوسرے سے پیار کی پینگیں بڑھانے کی کوششوں میں ہیں۔ میں نہ مانوں، اور تم میرے کون، کی فضا میں خوشگوار پہلو شامل ہوچکا ہے جہاں چہروں پر مسکراہٹ ہے اور باتوں میں پرانے قصے نہ یاد کرنے کی باتیں۔ 

امریکا اور روس کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی عالمی سیاست کا اہم محور رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور قربت کے دورانیے نے نہ صرف عالمی سیاست کو متاثر کیا ہے بلکہ معیشت، تجارت، اور توانائی کے شعبوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ برسوں میں امریکی پالیسیوں کے تسلسل، بائیڈن انتظامیہ کے روس مخالف، یوکرین کو فوجی امداد کے بعد نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

یہ قربت نہ صرف سیاسی سطح پر اہم ہے بلکہ توانائی کے شعبے میں بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ ذہن نشین رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا فرسٹ کا نعرہ لگا چکے ہیں۔ تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ روس سے اس نئے معاشقے میں اپنے مفادات کا تحفظ مقدم رکھیں گے۔

امریکا اور روس کے تعلقات کا آغاز سرد جنگ کے دور سے ہوتا ہے، جب دونوں ممالک دو متضاد نظریاتی بلاکس کی قیادت کر رہے تھے۔ امریکا سرمایہ دارانہ نظام کا علمبردار تھا جبکہ روس کمیونزم کا مرکز تھا۔ سرد جنگ کے اختتام کے بعد، روسی فیڈریشن کے قیام کے ساتھ ہی تعلقات میں کچھ بہتری آئی، لیکن پھر بھی کشیدگی کے عناصر موجود رہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے حالیہ بیانات اور ان پر ماسکو کے مثبت ردعمل نے اتنا ضرور بتا دیا ہے کہ اک نیا معاشقہ پنپ رہا ہے۔

یوکرین بحران کے بعد روس اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوا۔ امریکا اور یورپی یونین نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں، جس کے جواب میں روس نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کیں۔ اور یورپی منڈیوں سے اپنا رخ ایشیائی منڈیوں کی طرف کیا، اسی لیے چین اور بھارت جیسی بڑی منڈیاں دستیاب ہوئیں۔ تاہم، ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد، امریکا اور روس کے درمیان تعلقات میں ایک نئی گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوٹن کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کو سمجھنے کےلیے دونوں رہنماؤں کی سیاسی اور اقتصادی ترجیحات کو سمجھنا ضروری ہے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکا کو ’’عظیم‘‘ بنانے کے وعدے کیے تھے، جس میں توانائی کے شعبے کو خود کفیل بنانا ایک اہم ہدف تھا۔ دوسری طرف، پوٹن روس کو ایک عالمی طاقت کے طور پر دوبارہ قائم کرنے کےلیے کوشاں ہیں، اور توانائی کی برآمدات روسی معیشت کا اہم ستون ہیں۔

ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان قربت کے پیچھے توانائی کی سیاست ایک اہم محرک ہے۔ امریکا اور روس دونوں ہی عالمی توانائی مارکیٹ میں اہم کھلاڑی ہیں۔ امریکا کی تونائی ضروریات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں، جبکہ روس دنیا کا سب سے بڑا تیل اور گیس برآمد کنندہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون توانائی کے شعبے میں ایک نئی عالمی ترتیب کو جنم دے سکتا ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کےلیے تیل اور گیس کی فراہمی اہم ہے۔ روس، جو دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ ہے، اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ روسی تیل کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ یورپ کو جاتا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں روس نے ایشیائی ممالک، خاص طور پر چین اور بھارت، کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔

امریکا، جو کبھی تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا، توانائی کے ذرائع کے حوالے سے اب خود کفیل ہونے کی راہ پر ہے۔ 2020 میں، امریکا دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن گیا، جس کی روزانہ پیداوار 13 ملین بیرل سے زیادہ تھی۔ تاہم، امریکا کو اب بھی مخصوص قسم کے تیل کی درآمد کی ضرورت ہوتی ہے، خاص طور پر ریفائنریز کے لیے۔ روس سے تیل کی درآمد امریکا کےلیے ایک معقول آپشن ہوسکتا ہے، خاص طور پر اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے۔ روسی تیل کی قیمتیں نسبتاً کم ہیں، اور اگر امریکا روس سے تیل درآمد کرے تو اس سے نہ صرف امریکی صارفین کو فائدہ ہوگا بلکہ عالمی تیل کی قیمتوں پر بھی دباؤ کم ہوگا۔ جب کہ دوسری جانب چین پہلے ہی روس سے پٹرولیم مصنوعات کی مد میں تجارتی حجم وسیع کرتا رہا ہے، یہ نقطہ بھی امریکا کو آسانی سے کبھی ہضم نہیں سکتا۔

یورپ روسی تیل اور گیس کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ 2021 میں، روس سے یورپ کو تیل کی ترسیل 2.

5 ملین بیرل روزانہ تھی، جو یورپ کی کل تیل درآمد کا تقریباً 30 فیصد ہے۔ روسی گیس یورپ کی توانائی کی ضروریات کا ایک اہم حصہ ہے، خاص طور پر جرمنی، فرانس، اور اٹلی جیسے ممالک کے لیے۔ تاہم، یوکرین بحران کے بعد، یورپ نے روس پر پابندیاں عائد کیں، جس کے جواب میں روس نے اپنی توانائی کی پالیسیوں میں تبدیلیاں کیں۔ روس نے ایشیائی ممالک، خاص طور پر چین اور بھارت، کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ اس کے باوجود، یورپ روسی توانائی پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس عمل میں وقت لگے گا۔

چین اور بھارت، جو دنیا کے بڑے توانائی صارفین ہیں، روسی تیل کے اہم درآمد کنندہ بن چکے ہیں۔ 2022 میں، چین نے روس سے تیل کی درآمد میں 20 فیصد اضافہ کیا، جو روزانہ 1.6 ملین بیرل تک پہنچ گئی۔ اور حالیہ یوکرین و روس جنگ کے بعد جب یورپی خریدار کم ہوگئے تو چین نے اپنی خریداری میں مزید اضافہ کیا ہے کیوں کہ روسی تیل سستے داموں دستیاب ہوا۔ اسی طرح، بھارت نے بھی روسی تیل کی درآمد میں اضافہ کیا ہے، خاص طور پر یوکرین جنگ کے بعد، جب روسی تیل کی قیمتیں کم ہو گئی تھیں۔ روس کے لیے چین اور بھارت اہم مارکیٹس ہیں، کیونکہ یہ ممالک نہ صرف بڑے پیمانے پر تیل درآمد کرتے ہیں بلکہ روس کو مغربی پابندیوں سے بچنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ روسی تیل کی ترسیل چین اور بھارت کےلیے بھی فائدہ مند ہے، کیونکہ اس سے انہیں سستے داموں پر توانائی کی فراہمی ہوتی ہے۔

روس نہ صرف تیل بلکہ پٹرولیم مصنوعات کی بھی ایک بڑی برآمد کنندہ ریاست ہے۔ روس کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی عالمی مارکیٹ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر روس اور امریکا کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی ہے، تو اس سے عالمی توانائی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اور سب سے بڑا فائدہ خود امریکا کو ہوگا۔ اور یہ خیال ہی قریں از قیاس ہے کہ انکل سام یوکرین کے معاملات میں یوکرین کی بے جا حمایت کرتے ہوئے روس کے ساتھ معاملات مزید خراب کریں گے۔ مستقبل کا منظرنامہ امریکی صدر، سیکریٹری خارجہ و دفاع کے حالیہ بیانات سے بھی واضح ہو رہا ہے۔ امریکا عالمی امدادی پروگرامز سے بھی خود کو نا صرف دور کر رہا ہے بلکہ نیٹو اتحاد بھی امریکا کے پیچھے ہٹنے سے پریشان ہے۔ وجہ یہی ہے کہ امریکا اپنی معیشت کو درپیش خطرات سے پریشان ہے۔

امریکا اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کے مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھتا ہے، تو اس سے نہ صرف توانائی کے شعبے میں بلکہ عالمی سیاست اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ چیلنجز بھی ہیں۔ مغربی ممالک، خاص طور پر یورپ، روس پر پابندیوں کو ختم کرنے کےلیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ، چین اور بھارت جیسے ممالک روسی توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہے ہیں، جو امریکا کےلیے ایک چیلنج ہوسکتا ہے۔

امریکا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، عالمی سیاست اور معیشت کےلیے اہم ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوٹن کی قربت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ توانائی کی ضروریات، تیل کی ترسیل، اور پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون عالمی توانائی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس کےلیے سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کو حل کرنا ہوگا۔ امریکا اور روس کے درمیان تعلقات کا مستقبل نہ صرف ان دو ممالک کے لیے بلکہ پوری دنیا کےلیے اہم ہے۔ توانائی کی سیاست، تجارت، اور عالمی امن کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون ایک نئی عالمی ترتیب کو جنم دے سکتا ہے۔

یہ نیا معاشقہ اس وقت ابتدائی مراحل میں ہے۔ گلے شکوے پرانے معاملات پر بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ بات اب گلے شکوؤں سے زیادہ نئے تعلقات کی نئی بلندیاں پانے کی ہے۔ محبت پروان چڑھتے ہوئے بہت اتار چڑھاؤ دیکھتی ہے۔ اسی طرح یہ محبت یوکرین اور یورپی یونین کی قربانی مانگ رہی ہے۔ اب دیکھیے انکل سام ایسا کر پاتے ہیں یا پھر یا منافقت تیرا ہی آسرا۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان تعاون امریکا اور روس کے درمیان کے درمیان تعلقات میں توانائی کے شعبے میں پٹرولیم مصنوعات کی چین اور بھارت تیل کی درآمد کا سب سے بڑا عالمی سیاست روسی تیل کی ڈونلڈ ٹرمپ بڑھتی ہوئی توانائی کی تیل درآمد امریکا کو کی فراہمی امریکا کے ٹرمپ اور رہے ہیں نے اپنی کے ساتھ ایک نئی کو جنم رہا ہے کیا ہے پر بھی کے بعد کے دور کے لیے جنگ کے کہ روس

پڑھیں:

پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-5

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں توانائی کا بحران ہمیشہ ایک بنیادی چیلنج رہا ہے۔ صنعتی ترقی، زرعی پیداوار، نقل و حمل، حتیٰ کہ روزمرہ زندگی کے معمولات تک، توانائی کی دستیابی پر منحصر ہیں۔ اس پس منظر میں یہ خبر کہ پاکستان کو دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف ملکی معیشت کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ یہ پاکستان کے توانائی خود کفالت کے خواب کی نئی تعبیر بھی ہے۔ پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کا آغاز 1950ء کی دہائی میں ہوا، جب سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ابتدائی ذخائر دریافت ہوئے۔ بعد ازاں سوئی گیس فیلڈ نے ملک کی صنعتی اور گھریلو ضروریات کو طویل عرصے تک سہارا دیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب میں اضافہ اور نئے ذخائر کی تلاش میں کمی نے بحران کی شدت کو بڑھایا۔ درآمدی تیل پر انحصار نے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو متاثر کیا بلکہ مالیاتی خسارے کو بھی بڑھایا۔ گزشتہ بیس برسوں میں توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہائیڈرو، سولر اور وِنڈ انرجی پر توجہ ضرور دی گئی، لیکن تیل و گیس کی مقامی دریافت میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ 2025ء میں موصول ہونے والی حالیہ بولیوں کو ایک تاریخی پیش رفت کہا جا رہا ہے۔

وزارتِ توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے مطابق، پاکستان نے اٹھارہ سال کے طویل وقفے کے بعد رواں برس جنوری میں آف شور تیل و گیس کی تلاش کے لیے لائسنسز جاری کرنے کا عمل شروع کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستانی سمندری حدود میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے۔ اب اس عمل کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، جس میں 23 آف شور بلاکس کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ یہ بلاکس تقریباً 53,510 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر مشتمل ہیں جو توانائی کے نئے دور کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق، لائسنس کے پہلے فیز میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جو بعد ازاں ڈرلنگ کے مراحل میں بڑھ کر ایک ارب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ مقامی صنعتوں کے لیے بھی روزگار اور تکنیکی تربیت کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک توانائی کے بڑھتے ہوئے درامدی بل، ڈالر کے دباؤ، اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس تناظر میں اگر سمندری حدود میں موجود ذخائر کی دریافت کامیاب رہتی ہے تو پاکستان کے لیے توانائی کی خود کفالت کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس بڈنگ رائونڈ میں حصہ لینے والی کمپنیوں میں پاکستان کی معروف توانائی کمپنیاں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، اور پرائم انرجی نمایاں ہیں۔ ان کے ساتھ بین الاقوامی اور نجی شعبے کی کئی بڑی کمپنیاں بطور شراکت دار شامل ہیں، جن میں تکنیکی مہارت، جدید آلات، اور عالمی تجربہ موجود ہے۔ یہ شراکت داری دراصل ایک ایسے معاشی ماڈل کی علامت ہے جس میں مقامی و غیر ملکی سرمایہ کار باہمی تعاون سے وسائل کی تلاش، پیداوار اور تقسیم کے عمل کو مستحکم کر سکتے ہیں۔

حکومت وقت کے وژن کے مطابق، پاکستان کی انرجی سیکورٹی پالیسی کا بنیادی مقصد بیرونی انحصار میں کمی اور مقامی وسائل کے بھرپور استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ اس وژن کے تحت حکومت نے انڈس اور مکران بیسن میں بیک وقت ایکسپلوریشن کی حکمت ِ عملی اپنائی، جو عملی طور پر کامیاب ثابت ہوئی۔ یہ اقدام نہ صرف معاشی لحاظ سے اہم ہے بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ مکران کوسٹ اور انڈس بیسن دونوں خطے عالمی توانائی نقشے پر نمایاں جغرافیائی امکانات رکھتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے برازیل، میکسیکو، ناروے، اور سعودی عرب نے اپنی توانائی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سمندری ذخائر سے استفادہ کیا۔ اب پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہونے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اگر ان دریافتوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں تو پاکستان نہ صرف توانائی کے بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی برآمد کرنے والا ملک بننے کی جانب بھی پیش رفت کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ پیش رفت غیر معمولی ہے، تاہم اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہیں۔ سمندری ڈرلنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ ماحولیاتی خطرات، جیسے آئل اسپِل یا سمندری آلودگی، ایک سنجیدہ معاملہ ہیں۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے شفاف پالیسی فریم ورک ضروری ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود، اگر حکومت نے پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا، صوبائی حکومتوں کو شراکت دار کے طور پر شامل رکھا، اور شفافیت کو یقینی بنایا تو پاکستان کی توانائی تاریخ میں یہ باب ایک انقلاب کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

دو دہائیوں بعد پاکستان کے لیے یہ ایک بڑی خوشخبری ہے کہ بحرِ عرب کی لہروں میں چھپے توانائی کے خزانوں کی تلاش کا عمل عملی طور پر شروع ہو چکا ہے۔ کامیاب بولیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اگر یہ منصوبے اپنے متوقع نتائج دیتے ہیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی معیشت میں استحکام، زرمبادلہ کی بچت، صنعتی ترقی، اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’یہ صرف سمندر میں تیل و گیس کی تلاش نہیں، بلکہ پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کی نئی صبح کی نوید ہے‘‘۔

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • سیاسی منظرنامے میں ہلچل! سلمان اکرم راجہ کی شاہ محمود قریشی سے اہم ملاقات، پی ٹی آئی قیادت کے درمیان سیاسی رابطے تیز
  • گووندا کا مراٹھی اداکارہ سے مبینہ معاشقہ، اہلیہ سنیتا آہوجا کا ردعمل سامنے آگیا
  • امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان معدنیات کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
  • ہماری کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک مؤثر رابطے کا کردار ادا کیا جائے، محمود مولوی کا شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد بیان