امن کا خواب اور ٹرمپ کی پالیسیاں
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس نے قیدیوں کے ساتویں تبادلے میں چھ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا۔ اس کے بدلے میں 620 فلسطینیوں کو رہا کرنے کی تیاریاں جاری رہیں، تاہم اسرائیلی وزیراعظم نے معاہدے کے دوسرے مرحلے میں سیکیورٹی مشاورت کی تکمیل تک فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو موخرکردیا ہے۔ ادھر سعودی دارالحکومت ریاض میں سات عرب رہنماؤں نے ملاقات کی ہے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے خلاف متبادل حکمت عملی پر غورکیا گیا۔
درحقیقت اسرائیلی اعلان کے بعد جنگ بندی کے مستقبل پر مزید شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ 620 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا عمل چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے بعد مکمل ہوجانا تھا۔ یہ غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں قیدیوں کی سب سے بڑی ایک روزہ رہائی ہونی تھی جب کہ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اس وقت تک مؤخرکی گئی ہے جب تک اگلے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور ان کے تبادلے کے دوران حماس کی جانب سے ’’ ذلت آمیز‘‘ تقاریب منعقد نہ کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی۔ امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ اعلان اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے کیا گیا۔ اس اعلان کا واضح مقصد یہ ہے کہ غزہ امن معاہدے کو سبوتاژ کردیا جائے۔
اس وقت عرب ممالک، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت اسرائیلی جارحیت سے تباہ غزہ کو ایک بین الاقوامی سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے اور فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں دوبارہ آباد کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق عرب رہنماؤں نے ریاض میں ایک غیر رسمی اجلاس کے دوران ’’ فلسطینی کاز‘‘ اور غزہ میں تعمیر نو کے لیے مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ درحقیقت ٹرمپ کے منصوبے نے عرب ریاستوں کو مخالفت میں متحد کردیا ہے۔
بلاشبہ فلسطینیوں کی تشویش اور تحفظات جوازکے حامل ہیں، اگر آج کی دنیا میں اقتصادی ترقی اور نشوونما کے لیے اراضی پیشگی بنیادی ضرورت ہے تو شاید ایک صدی قبل جب فلسطینی، اسرائیلی تنازع پہلی مرتبہ پیدا ہوا تھا تو اس وقت بھی یہی معاملہ تھا اور اس کے بعد آنے والے عشروں میں بھی یہی معاملہ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق فلسطینی ریاست کا کل رقبہ قریباً تین ہزار مربع کلومیٹر ہوگا اور اس کی آبادی 50 لاکھ نفوس کے لگ بھگ ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا فلسطینیوں کو اس ڈیل میں اظہارِ دلچسپی کرنا چاہیے؟ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو 50 ارب ڈالرکی معاشی امداد میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس سے فلسطینیوں کو تیز رفتار اقتصادی ترقی کا ایک عشرہ حاصل ہوسکتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے ملازمتوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کو اچھی آمدن اور خوش حالی حاصل ہوسکتی ہے، لیکن یہ سب کچھ خود مختاری اور اپنی زیادہ تر اراضی سے دستبرداری کی قیمت پر ہوگا۔دوسری جانب چند روز پیشتر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میامی میں ایف آئی آئی کی ترجیحات کے سربراہی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ’’ تیسری عالمی جنگ زیادہ دور نہیں‘‘ تاہم انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی قیادت میں امریکا اسے روک دے گا۔
اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیلنسکی نے امریکا کو 350 بلین ڈالر خرچ کرنے کے لیے ایک ایسی جنگ میں جانے کے لیے راضی کیا جو جیتی نہیں جا سکتی۔ اس ہفتے کے اوائل میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے شکایت کی تھی کہ ان کا ملک امریکی اور روسی حکام کے درمیان مذاکرات سے باہر رہ گیا ہے جس پر ٹرمپ نے تنقید کرتے ہوئے زیلنسکی کو ’’ انتخابات کے بغیر ڈکٹیٹر‘‘ قرار دیا تھا۔ دراصل ٹرمپ چاہتے ہیں کہ یوکرین امریکی کمپنیوں کو ان کے پیشرو جو بائیڈن کے دور میں فراہم کی جانے والی اربوں ڈالرکی امداد کے معاوضے کے طور پر اپنے وسیع قدرتی وسائل تک رسائی دے۔ امریکی صدر، جنھوں نے بار بار پوتن کی تعریف کی ہے، نے فروری 2022 کے حملے کے لیے ماسکو کو مورد الزام ٹھہرانے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ روسی رہنما نے حملہ کیا لیکن انھیں حملہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ پیوتن کو معاہدہ کرنے کے لیے کسی دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر، جو ممکنہ طور پر پیچیدہ بات چیت کے لیے آیندہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں آنے والے ہیں، پر ٹرمپ نے جنگ کے خاتمے کے لیے کچھ نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس تنازع پر امریکا کے نئے موقف نے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یوکرین کو جرمن چانسلر اولاف شولز کی طرف سے ایک بار پھر حمایت ملی ہے۔ شولز اور دیگر علاقائی رہنماؤں سے بات کرنے کے بعد زیلنسکی نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ یورپ کو یوکرین میں امن کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا اورکر سکتا ہے۔
یوکرینی رہنما نے واشنگٹن پر روسی صدر ولادیمیر پوتن کی بین الاقوامی تنہائی کو ختم کرنے میں مدد کرنے کا الزام بھی لگایا اورکہا کہ وہ کیف کے اتحادیوں سے حفاظتی ضمانتیں چاہتے ہیں جو اس سال جنگ کو ختم کرنے کے قابل بنا سکیں۔’’بدقسمتی سے، صدر ٹرمپ، جن کا ہم امریکی عوام کے رہنما کے طور پر بہت احترام کرتے ہیں جب کہ وہ غلط معلومات کی اسپیس میں رہتے ہیں‘‘ زیلنسکی نے ماسکو پر ٹرمپ کو گمراہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کیف میں صحافیوں کو یہ بات بتائی۔ روس کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی عالمی مارکیٹ میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اگر روس اور امریکا کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی ہے، تو اس سے عالمی توانائی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور سب سے بڑا فائدہ خود امریکا کو ہوگا ۔ مستقبل کا منظرنامہ امریکی صدر، سیکریٹری خارجہ و دفاع کے حالیہ بیانات سے بھی واضح ہو رہا ہے۔
امریکا عالمی امدادی پروگرامز سے بھی خود کو نہ صرف دورکر رہا ہے بلکہ نیٹو اتحاد بھی امریکا کے پیچھے ہٹنے سے پریشان ہے۔ وجہ یہی ہے کہ امریکا اپنی معیشت کو درپیش خطرات سے پریشان ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کے مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینا ضروری ہے، اگر دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھتا ہے، تو اس سے نہ صرف توانائی کے شعبے میں بلکہ عالمی سیاست اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
تاہم، اس کے ساتھ ساتھ چیلنجز بھی ہیں۔ مغربی ممالک، خاص طور پر یورپ، روس پر پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ، چین اور بھارت جیسے ممالک روسی توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہے ہیں، جو امریکا کے لیے ایک چیلنج ہوسکتا ہے۔امریکا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، عالمی سیاست اور معیشت کے لیے اہم ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوٹن کی قربت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ توانائی کی ضروریات، تیل کی ترسیل، اور پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون عالمی توانائی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کو حل کرنا ہوگا۔ امریکا اور روس کے درمیان تعلقات کا مستقبل نہ صرف ان دو ممالک کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے۔ توانائی کی سیاست، تجارت، اور عالمی امن کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون ایک نئی عالمی ترتیب کو جنم دے سکتا ہے۔
اگر اقوامِ متحدہ کا مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے پُر عزم یا موثرکردار کا جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ اقوامِ متحدہ موثر یا پُرعزم ہے، ابھی تک جتنی بھی قراردادیں فلسطین کے لیے پاس کی گئی ہیں وہ قراردادیں سب کی سب کسی الماری (Shelf) کی زینت ہیں۔ بدقسمتی سے اقوامِ متحدہ بہت محدود حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اپنے طور پرکرے بھی توکیا کرے؟ اس کا حال بھی او آئی سی جیسا ہے یہ دونوں ’’چیرٹی آرگنائزیشن‘‘ بن کے رِہ گئی ہیں۔ بدقسمتی سے امریکا ہی ایک طاقتور ملک ہے اور صرف وہی ایک ملک ہے، جو اسرائیل کے اوپر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ اسرائیل نے نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ساری دنیا کی مشترکہ ذمے داری ہے کیونکہ اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، اگر اسرائیل کی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو فلسطین کے بعد اردگرد کے دوسرے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ دنیا کی بڑی اور اثر و رسوخ رکھنے والی حکومتوں کا اس وقت اسرائیل پر دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غزہ میں مستقل طور پر جنگ بندی کرے اور وہاں موجود شہریوں کے لیے آنے والی بیرونی امداد کا راستہ نہ روکے، اگر فلسطینیوں کی جاری نسل کشی نہ روکی جاسکی تو یہ انسانیت کی ناکامی ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینیوں کو زیلنسکی نے امریکا کے قیدیوں کی کرتے ہوئے کے درمیان ممالک کے کی رہائی کے لیے ا ٹرمپ کے کرنے کی کرنے کے اور روس کے بعد کہا کہ رہا ہے
پڑھیں:
لاس اینجلس میں مظاہرے و گرفتاریاں، گورنر و میئر ٹرمپ پر بھڑک اٹھے
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں امیگریشن حکام کے چھاپوں، وفاقی دستوں کی جانب سے مظاہرین کی گرفتاریوں پر گورنر کیلیفورنیا اور لاس اینجلس کی میئر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر کڑی تنقید کی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق مظاہرین کا احتجاج تیسرے دن بھی جاری ہے جہاں بدامنی میں شدت کے ساتھ ساتھ گاڑیاں نذر آتش کیے جانے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ اس دوران پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: لاس اینجلس فسادات: نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے بعد مظاہروں کی شدت میں اضافہ
شہر کے بعض علاقوں میں گاڑیوں کو جلا دیے جانے کے واقعات بھی پیش آئے جبکہ قانون نافذ کرنے والے حکام کے زیر استعمال گاڑیوں پر پتھراؤ کے بعض واقعات بھی پیش آئے۔ حکام نے شہر کی بعض اہم شاہراہوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایل اے پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین ڈاؤن ٹاؤن ایریا تک پہنچ گئے تھے، جہاں سے اب وہ باہر نکل گئے ہیں۔
واضح رہے کہ جمعے کے روز امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے وفاقی ایجنٹوں کے جانب سے متعدد چھاپوں کے دوران درجنوں افراد کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
گرفتاریاںامیگریشن حکام کے چھاپوں کے بعد علاقے کے ہزاروں افراد ان کارروائیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
محکمہ پولیس کا کہنا ہے کہ لاس اینجلس میں بدامنی کے دوران اب تک کم از کم 39 افراد کو گرفتار کیا گیا اور پولیس نے متنبہ کیا ہے کہ مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی۔ مقامی پولیس نے اس احتجاج کو روکنے کے لیے ’غیر قانونی اجتماع‘ پر پابندی کا بھی اعلان کیا ہے۔
پولیس چیف جم میکڈونل نے بتایا کہ کم از کم تین پولیس افسران کو معمولی چوٹیں آئیں۔
صدر ٹرمپ کی مسلح دستے تعینات کرنے کی ہدایتامریکی صدر ٹرمپ نے اس دوران اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اس احتجاج پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن پر زور دیا۔
ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے لکھا کہ ایل اے پولیس کے سربراہ جم میکڈونل نے کہا کہ وہ ایل اے میں مسلح دستے لانے کے بارے میں صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔ انہیں چاہیے، ابھی ان ٹھگوں کو اس سے بھاگنے نہ دیں۔ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں۔
انہوں نے اپنی ایک اور پوسٹ میں لکھا کہ لاس اینجلس میں واقعی سب کچھ برا دکھائی دے رہا ہے، مسلح دستے بلائیے!۔
اپنی ایک اور پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا کہ چہروں پر ماسک پہنے لوگوں کو ابھی فوراً گرفتار کرو۔
کیلیفورنیا کے گورنر کی صدر ٹرمپ پر سخت تنقیدریاست کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم کا کہنا ہے کہ صورتحال مزید شدت اختیار کر سکتی ہے اور میرینز کی تعیناتی کا خدشہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے لاس اینجلس میں ہونے والے مظاہروں کے دوران میرینز کی تعینات کرنے کی دھمکی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے جبکہ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے خبردار کیا ہے کہ پینٹاگون قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں کی مدد کے لیے لاس اینجلس میں فعال ڈیوٹی میرینز بھیجنے کے لیے تیار ہے۔
عام طور پر گورنر کی درخواست پر ہی ریاست کی نیشنل گارڈ فورس کو تعینات کیا جاتا ہے۔ تاہم ایکس پر ایک پوسٹ میں نیوزوم نے کہا کہ مظاہروں کے خلاف کارروائی کا نظم و نسق مقامی پولیس نے سنبھال رکھا تھا اس کے باوجود ٹرمپ نے اس طرح کا اقدام کیا ہے۔
واضح رہے کہ کیلیفورنیا کے گورنر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی فعل قرار دیتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ حالات پیدا کیے ہیں جو آج رات آپ اپنے ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے حالات
کو مزید خراب کر دیا ہے وہ اس آگ میں ایندھن ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔
ریاستی گورنر نے صدر ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کو ایک غیر آئینی عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم کل اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بارے میں غور کرنے والے ہیں۔
لاس اینجلس کی میئر کا بھی ٹرمپ پر الزاملاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے بھی ٹرمپ انتظامیہ پر الزام عائد اور کہا کہ وائٹ ہاؤس ہی شہر میں کشیدگی میں اضافے کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ پرامن رہیں اور ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے میئر کیرن نے کہا کہ ایل اے میں منظر عام پر آنے والی افراتفری (ٹرمپ) انتظامیہ کی جانب سے اکسائے جانے کا نتیجہ ہے۔
مزید پڑھیے: لاس اینجلس آتشزدگی کے پیچھے قدرتی عوامل یا انسانی ہاتھ؟
واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس نے نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر بدامنی جاری رہی تو وہاں میرینز کو بھی بھیج دیا جائے گا۔
کیرن نے کہا کہ جب آپ ہوم ڈپو اور کام کی جگہوں پر چھاپے مارتے ہیں، جب آپ والدین اور بچوں کو جدا کرتے ہیں اور جب آپ ہماری سڑکوں پر بکتر بند دستوں کے قافلے لاتے ہیں تو آپ خوف و ہراس کا باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اور وفاقی دستوں کی تعیناتی تو خطرناک قسم کی کشیدگی میں اضافہ ہی کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
کیلیفورنیا گورنر کیلیفورنیا کی ٹرمپ پر تنقید لاس اینجلس میئر لاس اینجلس کی ٹرمپ پر تنقید