افغانستان کے صوبہ بامیان میں پیٹر رینالڈز، عمر 79 اور ان کی اہلیہ، باربی، عمر 75 کو یکم فروری کو اپنی رہائش گاہ پر واپس آتے ہوئے حراست میں لے لیا گیا۔ یہ جوڑا 18 سال سے افغانستان کے اندر مختلف تعلیمی منصوبوں میں مصروف ہے اور 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد انہوں نے ملک میں رہنے کا انتخاب کیا۔

اگرچہ طالبان نے خواتین کی ملازمت پر پابندی عائد کر دی ہے اور پرائمری سطح سے آگے خواتین کی تعلیم کو محدود کر دیا ہے، تاہم اس خاص منصوبے کو مبینہ طور پر بامیان میں مقامی حکام کی جانب سے حمایت حاصل تھی۔

اپنی گرفتاری کے بعد ابتدائی تین دنوں تک، جوڑے نے اپنے بچوں کے ساتھ ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے رابطہ قائم رکھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں وزارت داخلہ کی طرف سے رکھا گیا ہے اور انہیں ان کی خیریت کا یقین دلایا جا رہا ہے تاہم، بعد میں بات چیت بند ہوگئی اور ان کے بچوں نے اس وقت سے ان سے کچھ نہیں سنا۔

نائیک میں رینالڈس کی رہائش گاہ کی تلاشی لی گئی ہے اور ان کے عملے سے جوڑے کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی ہے، خاص طور پر مذہب پرستی کے کسی بھی الزامات سے متعلق، جس کی تمام ملازمین نے تردید کی ہے۔

سنڈے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کی بیٹی، سارہ اینٹ وِسٹل، جو ڈیوینٹری، نارتھمپٹن شائر سے ہے، نے کہا ہے کہ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ان کی والدہ کی عمر 75 سال ہے اور والد، جن کی عمر 80 کے قریب ہے، کو منی اسٹروک کا سامنا کرنے کے بعد دل کی دوائیوں کی ضرورت ہے۔ وہ محض ایک ایسے ملک کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کا انہیں بہت خیال ہے۔ یہ تصور کہ انہیں ماؤں کو تعلیم دینے کے لیے رکھا جا رہا ہے، بہت پریشان کن ہے۔

انہوں نے اپنے تین بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر طالبان قیادت کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں ان کے والدین کی رہائی کی درخواست کی گئی ہے۔

دی گارڈین کے مطابق، پیٹر اور باربی رینالڈس کی ملاقات یونیورسٹی آف باتھ میں ہوئی اور افغانستان سے گہری محبت پیدا کرنے کے بعد 1970 میں کابل میں شادی کی تھی۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ باربی کو طالبان کی طرف سے ایک خاتون کو دیا جانے والا پہلا تعریفی سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا تھا اپنے خط میں، Entwistle اور اس کے بھائیوں نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ ان کے والدین کو آزاد کریں، اور انہیں تعلیم کے لیے اپنا گراں قدر تعاون جاری رکھنے کی اجازت دیں۔

انہوں نے اپنے والدین کی دوہری شہریت کی حیثیت پر روشنی ڈالی اور لکھا ہے کہ ہمارے والدین نے مسلسل افغانستان کے ساتھ وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بامیان میں اپنے پروجیکٹ کے علاوہ، یہ جوڑا کابل کے پانچ اسکولوں میں پروگراموں پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ طالبان کی قیادت نے ان اقدامات کی تعریف کی تھی جو ان کے والدین فراہم کر رہے تھے۔

Entwistle نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والدین نے ہمیشہ مطلوبہ اجازت کے ساتھ کام کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بار بار ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ان کے والدین انہوں نے کے ساتھ کے بعد اور ان ہے اور

پڑھیں:

غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ

کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔

طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔

ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔

25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔

میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔

طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔

سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔

23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔

طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔

اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔

نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔

یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔

چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔

انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔

لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔

نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔

نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔

روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • طالبان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ
  • غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
  • طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا
  • طالبان نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی
  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  • ایک شخص نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پی ٹی آئی کو کرش کیا، عدلیہ کو اپنے ساتھ ملالیا، عمران خان
  • فنگر پرنٹس کے مسئلے سے دوچار معمر افراد کیلئے فیس ریکگنیشن لارہے ہیں: ترجمان نادرا
  • بچے کی پیدائش پر اسکی شناخت نہ کروانا بچے کے ساتھ حق تلفی ہے، ترجمان نادرا