فوجی عدالتوں میں ملٹری ٹرائل: آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آ جائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے، جسٹس جمال مندوخیل WhatsAppFacebookTwitter 0 24 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے آض بھی فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل پر انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آ جائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

تفصیلات کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے آج بھی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کالعدم ہوگیا تو بھی انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے۔ ایک سے زائد فورمز موجود ہوں تو دیکھنا ہوگا کہ ملزم کی بنیادی حقوق کا تحفظ کہاں یقینی ہوگا۔ آئین کا آرٹیکل 245 فوج کو عدالتی اختیارات نہیں دیتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کورٹ مارشل عدالتی کارروائی نہیں ہوتا؟ عذیر بھنڈاری نے کہا کہ کورٹ مارشل عدالتی اختیار ہوتا ہے لیکن صرف فوجی اہلکاروں کے لیے سویلنز کے لیے نہیں۔ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سویلنز کے ایک کیٹیگری بھی آرمی ایکٹ کے زمرے میں آتی ہے، یہ تفریق کیسے ہوگی کہ کونسا سویلن آرمی ایکٹ میں آتا ہے اور کون نہیں، آرٹیکل 245 کا حوالہ تو اس کیس میں غیر متعلقہ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین میں فوج کو دو طرح کے اختیارات دیے گئے ہیں، ایک اختیار دفاع کا ہے اور دوسرا سول حکومت کی مدد کرنے کا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آرٹیکل 245 والی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کرے گی؟ جی ایچ کیو پر حملہ ہو تو کیا آرٹیکل 245 کے نوٹیفیکیشن کا انتظار کیا جائے گا؟

وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ کوئی گولیاں چلا رہا ہو تو دفاع کے لیے کسی کی اجازت نہیں لینی پڑتی، جب حملہ ہو تو پولیس اور فوج سمیت تمام ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ سپریم کورٹ ماضی میں لیاقت حسین کیس میں یہ نکتہ طے کر چکی ہے، عدالت قرار دے چکی فوج اگر کسی حملہ آور کو گرفتار کرے گی تو سول حکام کے حوالے کیا جائے گا۔

عذیر بھنڈاری نے کہا کہ فوج پکڑے گئے بندے کے حوالے سے سول حکام کی معاونت ضرور کر سکتی ہے، ہر ادارے کو اختیارات آئین سے ہی ملتے ہیں۔

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ اگر فوجی اور سویلن مل کر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ایسی صورت میں ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہی ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آ جائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا، آئین میں اس کو واضح لکھا ہے کہ آرمڈ فورسز سے متعلقہ قانون۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کراچی میں کرفیو لگنے پر فوج آتی تھی تو لوگ پھول پھینکتے تھے۔ ایک ہی دن میں جی ایچ کیو سمیت مختلف مقامات پر حملے ہوئے۔ آپ سابق وزیراعظم اور ایک پارٹی لیڈر کے وکیل ہیں، کیا سابق وزیراعظم نے 9 مئی واقعات کی مذمت کی ہے کہ یہ غلط ہوا؟ کیا عدالت میں اپنے تحریری جواب میں مذمت کی گئی ہے؟

عذیر بھنڈاری نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی متفرق درخواست عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے 9 مئی کی مذمت اپنی تحریری معروضات میں کی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے جو ذمہ دار ہیں انہیں سزا دی جائے، لیکن مذمت کرنے کا بھی مطلب نہیں کہ بانی پی ٹی آئی سرکاری مؤقف تسلیم کرتے ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ مذمت کرنا اچھی بات ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کوئی وزیراعظم اپنی مقررہ مدت سے زیادہ عہدے پر رہ سکتا ہے؟ عذیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ پانچ سال کے لیے آنے والا وزیراعظم چھ سال نہیں رہ سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر آپ فوجیوں کی حد تک کورٹ مارشل کو درست مانتے ہیں تو بات آرٹیکل 175 کے دائرے سے باہر نکل گئی، ذاتی طور پر جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہر وکیل کے دلائل مختلف ہیں سب کو اکٹھا کرنے کے ساتھ عدالتی فیصلہ بھی دیکھنا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں سب مل کر ملبہ ہمارے گلے ڈالیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرا خیال ہے بینچ وکلا کے دلائل کو مکس کر رہا ہے۔ سلمان اکرم راجا نے بھارت میں کورٹ مارشل کے لیے الگ فورم کی بات کی تھی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میری نظر میں سلمان اکرم راجا کا مؤقف مختلف تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت دلائل کی پابند نہیں آئین کے مطابق خود بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔

عذیر بھنڈاری نے کہا کہ فوج آرٹیکل 245 کے علاوہ سویلنز کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی، اگر کوئی خفیہ اختیار فوج کو ہے تو دکھا دیں ہم مان لیں گے۔ سویلین حکام ہر صورت میں فوج سے بالاتر ہوتے ہیں۔ کمانڈنگ افسر کا ملزمان کی حوالگی لینا فوج کی سویلن پر بالادستی کے مترادف ہے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عذیر بھنڈاری نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان بانی پی ٹی آئی نے کورٹ مارشل آرٹیکل 245 جائے گا کے لیے

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین

25 سے 30 اکتوبر پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے مابین استنبول میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے مایوس کُن خبریں بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیاں بنتی رہیں اور ان کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا رہا اور دونوں ممالک کے درمیان ایک جنگی ماحول بنا دیا گیا جبکہ غلط معلومات کا ایک سیلاب عام لوگوں کے ذہنوں میں کافی خدشات پیدا کرتا رہا۔

تاہم گزشتہ روز جنگ بندی معاہدے میں توسیع اور 6 نومبر کو مذاکرات کے اگلے دور کا اعلان کیا گیا جس سے افواہوں کا شور کسی قدر تھم گیا۔ ترکیہ کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے’ تمام فریقین ایک نگرانی اور ویری فکیشن نظام قائم کرنے پر متفق ہو گئے ہیں، جو جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے گا۔‘ یقیناً اسے مذاکرات کی کامیابی کی دلیل مانا جا سکتا ہے۔

6 نومبر  کو استنبول میں اعلیٰ سطحی مذاکرات شیڈول ہیں، جو ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہوں گے۔ یہ حالیہ استنبول مذاکرات کا فالو اپ ہے، جہاں 30 اکتوبر کو فائر بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ

12/11 اکتوبر سرحدی جھڑپوں، افغان سائیڈ سے دراندازی کی کوششوں اور پاکستانی فضائی حملوں کی وجہ سے کشیدگی عروج پر پہنچی۔ اس کے بعد دوحہ اور استنبول مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان رجیم سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحد پار سے ٹی ٹی پی دہشتگردوں کے حملے روکیں، ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی اور دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو محفوظ بنایا جائے۔

پاکستان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ افغان طالبان رجیم ٹی ٹی پی کی پشت پناہی ترک کر دے۔ استنبول مذاکرات میں پاکستان کے جانب سے ثالثوں کی موجودگی میں پاکستان نے افغانستان کی جانب سے دراندازی کے ثبوت بھی دِکھائے لیکن افغانستان کی ہٹ دھرمی کے باعث دراندازی کی مانیٹرنگ کے حوالے سے مجوّزہ میکنزم طے نہیں ہو پایا۔

واشنگٹن میں امریکی تِھنک ٹینک وِلسن سینٹر سے وابستہ جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کوئی حیران کُن خبر نہیں لیکن اِس کی کوئی ایک وجہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ طالبان کے نقطہ نظر سے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات مُشکل ہیں لیکن یہ چیز پاکستان کو مزید فضائی حملے کرنے کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور فضائی حملے افغان طالبان کو افغان عوام میں مزید طاقت مہیّا کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے طالبان مخالف دھڑوں کی حمایت شروع کر دی تو طالبان کے لیے اقتدار میں رہنا مُشکل ہو جائے گا۔

مانیٹرنگ میکنزم بن گیا تو خلاف ورزی پر جُرمانہ عائد کیا جائے گا، بریگیڈئر حارث نواز

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئر حارث نواز نے وی نیوز سے خصوص گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال عارضی طور پر جنگ بندی ہو چُکی ہے اور 6 نومبر تک جو 7 دن ہیں اُن میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ افغان طالبان رجیم قیامِ امن کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔ اگر اِن 6، 7 دِنوں میں ٹی ٹی پی کے دہشتگرد سرحد پار کر کے پاکستان نہیں آتے اور یہاں پر دہشتگرد کارروائیاں نہیں کرتے تو پھر 6 نومبر کو مذاکرات کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات میں مثبت پیشرفت، فریقین کا جنگ بندی پر اتفاق،آئندہ اجلاس 6 نومبر کو ہوگا

افغانستان کو یہ یقین دہانی کرنی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو جس کے لیے ترکیے اور قطر کی ثالثی میں میکنزم طے کیا جا رہا ہے جس میں ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر ہونے والی میٹنگز میں اگر سرحد پار دہشتگردی ہوتی ہے تو اُس کی رپورٹس شیئر کی جائیں گی۔

اگر افغان طالبان رجیم یہ سرحد پار دہشتگردی روکنے میں بار بار ناکام ہوتا ہے تو پھر پاکستان کو حق ہے کہ وہ فضائی حملے کر سکے یا ڈرون حملوں کے ذریعے سے دہشتگردوں کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنا سکے۔ پاکستان میں حالیہ دہشتگرد حملے جیسا کہ گزشتہ روز کُرّم میں 6 پاک فوج اہلکاروں کی شہادت اور آج لکی مروت میں حملہ کے بارے میں بریگیڈئر حارث نواز نے کہا کہ یہ اُن دہشتگردوں کی کارروائی ہو سکتی ہے جو پہلے سے سرحد پار کر کے کُرّم اور شمالی وزیرستان آ چُکے ہیں۔

پاکستان اِن دہشتگردوں کو 2 سے 3 مہینے کی کارروائیوں میں ختم کر دے گا لیکن اصل چیز یہ ہے کہ مزید دہشتگرد پاکستان نہ آئیں۔ ثالثوں کی موجودگی میں جو بھی میکنزم طے ہو گا اُس کے مطابق سرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے جُرمانے عائد کئے جائیں گے جو ادا کرنا ہوں گے۔

موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے، طاہر خان

افغان اُمور کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے جس میں جنگ بندی پر اِتّفاق کیا گیا ہے اور اگلے مذاکرات کی تاریخ دی گئی ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ مذاکرات میں تعطّل نہیں آیا جو میری نظر میں ایک اچھا اقدام ہے گو کہ سیز فائر ایک مبہم سی اصطلاح ہے۔

طاہر خان نے کہا کہ جِس طریقے سے ماحول بنایا گیا تھا اور کُچھ عناصر دونوں مُلکوں کے درمیان جنگ بندی کے عمل کو سبوتاژ کرنے پر تیار نظر آتے تھے۔ جس طرح پاکستانی وزیروں اور کچھ میڈیا نے دھمکیاں دیں اور ویسی ہی دھمکیاں افغانستان کی طرف سے بھی آئیں۔ میڈیا کے بعض حِصّے یہ کہتے پائے گئے کہ بس پاکستانی جنگی طیارے افغانستان پر حملے کے لیے تیار کھڑے ہیں اور دوسری طرف سے کہا گیا کہ جی! افغانستان سے ٹینک بھی تیار ہیں۔ ایک جنگ جیسے ماحول میں یہ جنگ بندی معاہدہ درست قدم ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغان سرزمین سے دہشتگرد حملوں کی اجازت نہیں دیں گے، فیلڈ مارشل عاصم منیر

ٹی ٹی پی کے حالیہ حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے طاہر خان نے کہا کہ ٹی ٹی پی آج کا مسئلہ تو نہیں یہ برسوں پُرانا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ رہے گا کیونکہ ٹی ٹی پی تو مذاکرات کا حصّہ نہیں تھی۔ پاکستان کا بُنیادی مطالبہ تو ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہی ہے۔ مذاکرات جاری رہے تو کچھ نہ کچھ تو میکنزم طے ہو گا۔ اور یہ جنگ بندی معاہدہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ بات تو طے ہوئی ہے۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ میکنزم طے ہو جائے تو اُس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟ جیسا کہ فروری 2020 دوحہ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ افغان طالبان اپنی سرزمین القاعدہ کاروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن 31 جولائی 2022 کو القاعدہ لیڈر ایمن الظواہری حملے میں مارا گیا تو اِس سے ثابت ہوا کہ افغان سرزمین القاعدہ دہشتگردوں کو پناہ دئیے ہوئے تھی۔ تو یہ کہنا کہ تحریری معاہدے کے بعد دہشتگردی رُک جائے گی، ایسا بظاہر مُشکل نظر آتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاک افغان معاہدہ ٹی ٹی پی طالبان

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کا پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت
  • عمران خان کیخلاف مقدمات انسداد دہشتگردی عدالت منتقل
  • پنجاب میں کسی بھی جماعت، فرد یا کاروبار میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر سخت کارروائی کا فیصلہ
  • یہ تاثر درست نہیں کہ وظیفہ دے کر حکومت مسلط ہوجائے گی، طاہر اشرفی
  • وزیراعظم کا چترال میں یونیورسٹی اور اسپتال بنانے کا اعلان
  • پنجاب حکومت کابانی پی ٹی آئی کے 11مقدمات اے ٹی سی راولپنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ
  • 9 مئی کے مقدمات: عمران خان کے ٹرائل کا نیا شیڈول جاری
  • عمران خان کیخلاف 9 مئی کے 11 مقدمات کے ٹرائل کا نیا نوٹیفکیشن جاری
  • پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین