Daily Ausaf:
2025-11-04@04:51:13 GMT

شاخِ نازک پہ آشیانہ

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

مغربی تہذیب سرمایہ داری اور سیکولر ازم کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ دنیا کے امن و امان اور سلامتی کو آج جتنے بھی چیلنجز کا سامنا ہے وہ یکطرفہ طور پر اسی مغربی تہذیب کے بلاشرکت غیرے پروان چڑھنے کی وجہ سے ہیں۔ روس کی کمیونزم کو سرمایہ داری نظام ہڑپ کر گیا ہے۔ اب روس اور چین جیسے خالص سوشلسٹ ممالک میں بھی کاروبار کی ترقی کو صرف اور صرف کیپیٹل ازم کا سہارا حاصل ہے کہ مصنوعات تیار کر کے اور انہیں عالمی منڈی میں بیچ کر آپ جتنا مرضی سرمایہ یعنی اربوں کھربوں ڈالرز قانونا جمع کر سکتے ہیں! خاص طور پر چین ہی کی مثال لے لیں اب وہ مکمل طور پر کمیونسٹ ملک ہے اور نہ ہی سوشلسٹ ریاست ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسی کی دہائی تک جن مصنوعات پر ’’میڈ ان چائنا‘‘لکھا ہوتا تھا اسے امرا اور متوسط طبقے کے لوگ دھتکار دیتے تھے۔ روس کے ’’سرخ انقلاب‘‘اور مزدوروں کو ’’مساوی حقوق‘‘کے المبردار چائنا کو بہت جلد احساس ہو گیا کہ مزدور کو صنعت و حرفت میں کھپا کر ہی دنیا میں ترقی کی جا سکتی ہے ناکہ ان کو امرا کے برابر مراعات کا خواب دیکھا کر کوئی حقیقی صنعتی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ تب تک چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا جہاں دیگر دنیا کے مقابلے میں غرباء کی اکثریت تھی اور جہاں سستے مزدور وافر مقدار میں موجود تھے۔ جب چینی رہنماوں کو مزدور کی اہمیت کا احساس ہوا تو انہوں نے سوشلسٹ کمیونزم کا نعرہ ترک کر کے صنعتی ترقی کا الم بلند کیا۔
1962 ء میں جب صدر ایوب خان پاکستان کے حکمران تھے تو چینی صدر چون لائی لاہور کی فیکٹریوں کو دیکھنے آئے تھے۔ اگلی دو دہائیوں میں لاہور اور پنڈی کی مارکیٹوں میں چائنا کی بنی چیزوں کی سستی مصنوعات کی بھرمار تھی مگر ان پر صرف غریب عوام کی نظر پڑتی تھی۔ پاکستان ہی نہیں نوے کی آخری دہائی میں دیکھا گیا کہ انگلینڈ جیسے صنعتی ملک میں بھی چینی مصنوعات کی آمد شروع ہو چکی تھی۔میں نے 1999 ء میں لندن ایڈمنٹن گرین میں پہلی بار دیکھا کہ ایک گورا ’’ڈو سوپ‘‘ زمین پر ڈھیر لگا کر بیچ رہا تھا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ صابن چائنا سے تیار ہو کر آیا ہے جہاں لیبر بہت سستی پڑتی ہے اور اس کی کوالٹی بھی برابر ہے۔ اس کے بعد میں لندن کی بہت ساری ’’ون پونڈ شاپس‘‘ پر گیا تو پتہ چلا کہ اس میں موجود 90 فیصد سے زیادہ تیار شدہ مال چین کا بنا ہوا تھا اور کسی بھی چیز پر ’’میڈ ان انگلینڈ‘‘ یا ’’میڈ ان جرمنی‘‘ وغیرہ نہیں لکھا تھا۔ آج چین کی صنعتی ترقی کا یہ عالم ہے کہ یورپ اور خود امریکی مارکیٹوں میں چینی مصنوعات کی اتنی بہتات ہے کہ جسے دیکھتے ہوئے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان پر ٹیرف بڑھانے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ایک وقت تھا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر چائنا کی انٹری تھی یا اس کا ویزہ لینا تمام دوسرے ممالک سے زیادہ آسان تھا۔ لیکن اس وقت اسی چائنا کا ویزہ لینے کے لئے پاکستانی مارے مارے پھرتے ہیں مگر اس کا ویزہ لینا امریکہ، جرمنی اور جاپان سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ چند ماہ قبل میرا ایک دوست استعمال شدہ موبائل فونز کا کاروبار شروع کرنے کے لئے چائنا سے ہو کر آیا جس نے دو سال کی تگ و دو کے بعد چائنا کا ویزہ لگوایا۔ اب دبئی سے بھی چائنا کا ویزہ لگوانا ہو تو چین سے بارکوڈ والا انویٹیشن منگوانا پڑتا ہے۔ حالانکہ میرا یہ دوست چائنا جانے سے پہلے یورپ اور جاپان وغیرہ سے بھی ہو کر آیا تھا مگر چین نے پھر بھی سادہ انویٹیشن پر اسے ویزہ نہیں دیا تھا۔ چین کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں صنعتیں ہیں اور وہاں دنیا بھر کی چیزیں تیار کی جا رہی ہیں۔
امیر ممالک کے صنعت کار اپنے ملک میں مہنگی لیبر کے ساتھ فیکٹری لگانے کی بجائے اور زیادہ منافع کمانے کی خاطر اپنی برانڈز چین سے کم خرچ پر تیار کروا لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میرے ایک برٹش پاکستانی کے ساتھ ایک لطیفہ یہ پیش آیا کہ وہ برٹش پاسپورٹ پر ہانگ کانگ میں ایک کاروباری کانفرنس اٹینڈ کرنے گئے جس کے بعد انہوں نے سوچا کہ وہ ساتھ میں چائنا کا بھی چکر لگا لیتے ہیں اور جب وہ شنگھائی ایئرپورٹ سے اتر کر امیگریشن گئے تو چینی عملہ نے اسے ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔اب چائنا میں بھی آپ اسی طرح کمپنی بنا کر وزٹ ویزہ کے لیئے سپانسر جاری کر سکتے ہیں جس طرح عرب ممالک میں ایل ایل سی یا اسٹیبلشمنٹ کمپنیاں بنا کر وزٹ اور ایمپلائمنٹ ویزے لگوائے جا سکتے ہیں۔چین کی یہ ترقی آنکھوں کو چندھیا دینے والی سرمایہ داری نظام کی بدولت ممکن ہوئی ہے اور تیزی سے مزید ہو رہی ہے جس کے پیچھے سرمایہ داری کی آزاد منڈی کھڑی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی سرمایہ داری اور سیکولر ازم کے سامنے دنیا کا کونسا معاشی اور سیاسی نظام یا ملک بند باندھے گا؟ دنیا میں تہذیبیں صرف ترقی یافتہ اقوام کی پنپتی ہیں۔ اسلامی تہذیب قرآن و سنت میں تو موجود ہے مگر دنیا کے کسی مسلمان ملک میں ’’اسلامی نظام‘‘مکمل طور پر رائج نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان جیسے ’’اٹامک پاور‘‘ملک میں بھی اسلام نافذ نہیں ہے بلکہ وہ معاشی بدحالی کا شکار ہے اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ سرمایہ داری کی تعریف یہ ہے کہ آپ کاروبار، نوکری یا کسی بھی دوسرے آمدن کے ذریعے سے ٹیکس دے کر جنتا چاہیں سرمایہ جمع کر سکتے ہیں جس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ساڑھے آٹھ ارب آبادی کے پاس جتنا پیسہ اور ذرائع ہیں ان سے زیادہ پیسہ اور سرمایہ دنیا کے صرف 300یا اس سے کچھ زیادہ امیر ترین افراد اپنے پاس قانونا اکٹھا کر سکتے ہیں۔ اس پر قہر یہ ہے کہ ’’سیکولر ازم‘‘ایسا نظام فکر ہے جو انسان کا انفرادی معاملہ ہے کہ وہ جیسی چاہے اور جس عقیدے کے مطابق چاہے وہ زندگی گزار سکتا ہے اس سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ آزادی کے نام پر اس کا ’’پرائیویٹ‘‘ معاملہ ہے یعنی ریاست یا خدا جیسی کسی عظیم ہستی کے سامنے دنیا کا کوئی انسان جواب دہ نہیں ہے، اور یہی آج کی ترقی یافتہ ترین ’’مغربی تہذیب‘‘کا لب لباب ہے، بقول علامہ اقبالؒ:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سرمایہ داری کر سکتے ہیں چائنا کا یہ ہے کہ دنیا کے میں بھی ملک میں کا ویزہ نہیں ہے ہے اور

پڑھیں:

چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی وفد نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقات کی تاکہ امریکی صنعت کے لیے محفوظ اور شفاف معدنی سپلائی چینز قائم کرنے کے امکانات پر بات کی جاسکے، کیونکہ واشنگٹن کی عالمی نایاب معدنیات پر چین کی بالادستی کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی وفد کی سربراہی رابرٹ لوئس اسٹریئر دوم کر رہے تھے، جو امریکی حکومت کے تعاون سے قائم کردہ کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کے صدر ہیں۔

سرکاری بیان کے مطابق ملاقات میں معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں تعاون کے امکانات، سپلائی چین کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور پاکستان کے کریٹیکل منرلز کے شعبے میں ذمہ دار اور پائیدار سرمایہ کاری کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے جب امریکا اور بھارت نے دفاعی تعاون کے لیے 10 سالہ فریم ورک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔

کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کی توجہ اسٹریٹجک خطرے پر مرکوز ہے، جو بیجنگ کے ان وسائل پر کنٹرول سے پیدا ہوا ہے، اسٹریئر نے سی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپنے واحد مضمون میں لکھا کہ ’چین کا کریٹیکل منرل سپلائی چینز پر غلبہ امریکی قومی سلامتی، اقتصادی مسابقت اور طویل المدتی اسٹریٹجک مقاصد کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے‘۔

اسٹریئر نے پاکستان کو بتایا کہ سی ایم ایف دنیا بھر، خصوصاً ابھرتی ہوئی منڈیوں میں امریکی صنعت کے لیے قابلِ اعتماد سپلائی چینز کے قیام پر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فورم کی توجہ نایاب اور مخصوص دھاتوں پر مرکوز ہے جن میں تانبا اور اینٹیمونی شامل ہیں اور اس کا مقصد مالی اور سلامتی کے نقطہ نظر سے سرمایہ کاری کے خطرات کو کم کرنا ہے۔

انہوں نے ٹیکنالوجی کی منتقلی، دانشورانہ املاک کے تحفظ اور امریکی نجی سرمایہ کاروں کے اعتماد کے فروغ کے لیے تعاون کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

بیان کے مطابق اسٹریئر نے اعتراف کیا کہ امریکا، پاکستان کے سائنس، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں موجود ٹیلنٹ کو ایک مسابقتی برتری سمجھتا ہے اور پاکستان کو مستقبل میں کریٹیکل منرلز کی ترقی کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

وفد کے ہمراہ موجودہ اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ پاکستان میں امریکی تجارتی مصروفیات کی حمایت کرتا ہے اور معدنیات کے شعبے میں مضبوط سرمایہ کار اعتماد اور مؤثر ریگولیٹری فریم ورک کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

جواب میں وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان اہم قانونی و ضابطہ جاتی اصلاحات پر کام کر رہا ہے اور منظم تجاویز کا خیرمقدم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ تعاون کے لیے ایک تفصیلی فریم ورک کے ساتھ واپس آئیں، پاکستان اسے ذمہ دار سرمایہ کاری اور باہمی مفاد کو یقینی بنانے کے تناظر میں جانچے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں توازن قائم کر رہا ہے اور اپنی مضبوط شراکت داریوں کو اجاگر کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آج عالمی تعلقات کے ایک تعمیری موڑ پر کھڑا ہے، پاکستان۔امریکا تعلقات میں نئی جان، چین کے ساتھ آزمودہ تعلقات اور سعودی عرب کے ساتھ تعاون اس کی مثال ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کا معدنی شعبہ ایک انقلابی موقع فراہم کرتا ہے، جو معیشت کو ’کھپت پر مبنی چکروں سے برآمدات پر مبنی ترقی‘ کی طرف منتقل کر سکتا ہے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ایک مضبوط معدنیات پالیسی فریم ورک پاکستان کو بار بار آنے والے مالیاتی خسارے کے دباؤ سے نکالنے اور مستقبل میں کثیرالجہتی اداروں پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا۔

وفاقی وزیر نے وفد کو بتایا کہ انہوں نے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران کئی عالمی مالیاتی اداروں، بشمول دیولپمنٹ فنانس کارپوریشن (ڈی ایف سی) اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) سے ملاقات کی، جنہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

امریکی فریق نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ چین عالمی کریٹیکل منرلز پر اپنا کنٹرول تیزی سے بڑھا رہا ہے۔

رابرٹ لوئس اسٹریئر نے کہا کہ چین کی بالادستی، خاص طور پر معدنیات کی پراسیسنگ میں سرکاری سبسڈی، عمودی انضمام اور کمزور ماحولیاتی ضوابط کی بدولت ہے، جو توانائی اور تعمیل پر مبنی شعبہ ہے، اس کے برعکس امریکا نے اس میدان میں کم سرمایہ کاری کی ہے۔

امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ کے مطابق، کریٹیکل منرلز جدید معیشت اور ریاستی طاقت کی بنیاد ہیں، توانائی، دفاع اور تجارتی ٹیکنالوجیز کے لیے ناگزیر ہیں، یہ مواد لڑاکا طیاروں کے لیے مقناطیسی پرزوں سے لے کر برقی گاڑیوں کی بیٹریوں تک استعمال ہوتے ہیں۔

کونسل نے خبردار کیا کہ ان سپلائی چینز میں ’نہایت نازکیت‘ پیدا ہو چکی ہے، جو چند ممالک تک محدود ہیں، زیادہ تر چین میں ریفائن ہوتی ہیں اور شدید موسمیاتی خطرات سے دوچار ہیں۔

مزید کہا گیا کہ چین نے اپنی بالادستی کو ’ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی آمادگی‘ دکھائی ہے، جیسا کہ اس نے امریکا کے تجارتی کنٹرول کے جواب میں گریفائٹ اور اینٹیمونی جیسے مواد پر برآمدی پابندیاں سخت کر دی ہیں۔

تاہم رابرٹ لوئس اسٹریئر نے تسلیم کیا کہ امریکی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پیداواری لاگت اور معدنی قیمتوں میں غیر معمولی و غیر یقینی صورتحال ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ غیر یقینی صورتحال ’منفعت کے خواہشمند سرمایہ کاروں کے لیے ایک سرد اثر ‘ رکھتی ہے، کیونکہ سرمایہ کار ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں جن میں خطرے کے مقابلے میں متوقع منافع زیادہ ہو۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
  • ملک میں توانائی، آئی ٹی اور معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع ہیں: احسن اقبال
  • وزارت صحت کا سیفٹی میڈیسن تقریب کا انعقاد، ادویات کا نظام بہتر کرنے کا عزم
  • سونے سے بنا فن یا سرمایہ داری پر طنز؟ دنیا کا مہنگا ترین ٹوائلٹ نیلامی کے لیے تیار
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب
  • نئی نجی ایئرلائن کا شاندار آغاز