تمام قیدیوں کا تبادلہ کرلیا جائے، یوکرین کے صدر کی روس کو پیشکش
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی نے جنگ ختم کرنے کے لیے روس کو پیشکش کی ہے کہ دونوں ممالک تمام جنگی قیدیوں کو رہا کردیں۔ ایک انٹرویو میں صدر زیلنسکی نے کہا کہ تمام جنگی قیدیوں کی رہائی سے یہ بات ثابت ہوگی کہ دونوں ممالک جنگ کو ختم کرنے کے مُوڈ میں ہیں اور اس حوالے سے پیش رفت پر یقین رکھتے ہیں۔
یوکرین جنگ کے تین سال مکمل ہونے پر دارالحکومت کئیف میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر زیلنسکی نے کہا کہ ہم تمام روسی جنگی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
روس اور یوکرین نے اکتوبر میں متحدہ عرب امارات کی ثالثی کے تحت 95 جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا تھا۔ یوکرین کی پارلیمنٹ کے کمشنر برائے انسانی حقوق دمترو لیوبینیز نے بتایا ہے کہ فروری 2022 میں جنگ کے شروع ہونے کے سے اب تک روس اور یوکرین نے 58 بار جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا ہے۔ یوکرین جنگ ختم کرانے کے حوالے سے امریکا بھی سرگرم ہے اور یورپی یونین بھی اس میدان میں اتر آئی ہے۔ یوکرین جنگ کے جاری رہنے سے یورپ کو بھی تشویش لاحق ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جنگ جلد از جلد ختم ہو اور اُسے دفاع کے معاملے میں زیادہ پریشان نہ ہونا پڑے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ پر واضح کردیا ہے کہ اُسے اپنے دفاع کی ذمہ داری خود قبول کرنا ہوگی اور اس حوالے سے امریکا سے کسی غیر معمولی کردار کی توقع نہ رکھی جائے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے روس سے مذاکرات کا ڈول ڈال کر اور دفاع کے حوالے سے اُلٹی سیدھی باتیں کرکے ایک طرف یوکرین اور دوسری طرف یورپی یونین کو ڈرانے کی کوشش کی ہے۔ یوکرین اِس خیال سے خوفزدہ ہے کہ امریکا نے امداد روک لی تو روس اُسے ڈکار جائے گا اور دوسری طرف یورپ ڈرا ہوا ہے کہ اگر یوکرین کا دفاع ناکام ہوگیا تو روس کے ہاتھوں اُس کی باری آتے دیر نہیں لگے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنگی قیدیوں حوالے سے ہے کہ ا
پڑھیں:
یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز
یوکرین کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ اس کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان آئندہ چند ہفتوں میں براہِ راست مذاکرات کیے جائیں۔
دوسری جانب روس نے استنبول میں ہونے والے تازہ مذاکرات میں کسی بڑی پیشرفت کی امیدوں کو کمزور کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پیٹریاٹ میزائل کیا ہیں، اور یوکرین کو ان کی اتنی اشد ضرورت کیوں ہے؟
روسی میڈیا کے مطابق روسی مذاکرات کار نے کہا کہ ماسکو نے قیدیوں کے تبادلے کے ایک اور مرحلے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے اور جنگی محاذوں پر ہلاک و زخمی فوجیوں کی بازیابی کے لیے مختصر جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔
میزبان ملک ترکی نے پائیدار جنگ بندی اور امن معاہدے کی طرف پیشرفت پر زور دیا، تاہم کریملن نے 3 سال سے زائد عرصے پر محیط جنگ کے بعد کسی فوری بریک تھرو کی توقعات کو کم قرار دیا۔
یوکرین کے مرکزی مذاکرات کار رستم عمراؤف نے مذاکرات کے بعد صحافیوں کو بتایا ’ہماری اولین ترجیح دونوں صدور کی ملاقات کا انعقاد ہے‘۔
ان کے مطابق یوکرین نے تجویز دی ہے کہ یہ ملاقات اگست کے اختتام تک ہو، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردوان بھی شریک ہوں۔
روسی مذاکرات کار ولادیمیر میدینسکی نے بتایا کہ دونوں فریقوں کے درمیان طویل گفت و شنید ہوئی، مگر انہوں نے اعتراف کیا کہ فریقین کے مؤقف ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔ ہم نے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرین جنگ پر معاہدہ نہ ہوا تو روس پر سخت ٹیرف نافذ کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
ان کے مطابق دونوں ممالک نے 12 سع قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا، اور روس نے یوکرین کو 3 ہزار ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشیں واپس دینے کی پیش کش کی۔
انہوں نے مزید کہا ہم نے ایک بار پھر یوکرینی فریق کو تجویز دی ہے کہ رابطہ لائن پر 24 سے 48 گھنٹوں کی مختصر جنگ بندی کی جائے تاکہ طبی ٹیمیں زخمیوں کو اٹھا سکیں اور کمانڈر اپنے فوجیوں کی لاشیں لے جا سکیں۔
گزشتہ ماہ صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ روس اور یوکرین کے امن مطالبات ’بالکل متضاد‘ ہیں، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کا مقصد ان اختلافات کو کم کرنا ہے۔
گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے روس کو 50 دن کی مہلت دی تھی کہ وہ جنگ ختم کرے، ورنہ اسے پابندیوں کا سامنا ہو گا، لیکن کریملن نے کسی مصالحت کی نیت ظاہر نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرین کا اپنی خفیہ ایجنسی کے افسر کو قتل کرنے والے روسی ایجنٹس کو ہلاک کرنے کا دعویٰ
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے قبل ازیں کہا تھا کہ کسی بڑی پیشرفت کی توقع رکھنا ’غلط فہمی‘ ہو گی، کیونکہ مذاکرات میں کئی پیچیدہ عوامل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
پیسکوف نے مزید کہا کہ کوئی بھی آسان مذاکرات کی توقع نہیں کر رہا۔ یہ فطری طور پر ایک نہایت مشکل گفتگو ہو گی، کیونکہ دونوں فریقوں کی تجاویز ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔
دوسری جانب صدر زیلنسکی نے ایک بار پھر پیوٹن سے براہِ راست ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے، لیکن کریملن کا کہنا ہے کہ زیلنسکی کی جانب سے 2022 میں جاری کردہ ایک صدارتی فرمان کے تحت ان کا پیوٹن سے براہِ راست مذاکرات کرنا قانونی طور پر ممنوع ہے۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرینی میزائل حملے میں روس کی ایلیٹ میرین یونٹ کا کمانڈر ہلاک
یاد رہے کہ روس اور یوکرین اس سال 2 مرتبہ براہِ راست امن مذاکرات کر چکے ہیں، پہلی بار 16 مئی اور دوسری بار 2 جون کو۔
اگرچہ ان بات چیت کے نتیجے میں قیدیوں کے تبادلے کی پیش رفت ہوئی، لیکن وسیع جنگ بندی یا مکمل جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول امریکا پیوتن پیوٹن ترکیہ جنگ بندی زیلنسکی صدر ٹرمپ یوکرین