بچے کے اغوا اور قتل کا مقدمہ، سپریم کورٹ نے 15 سال بعد ملزمان کو بری کردیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
سپریم کورٹ نے 17 سال قبل درج کیے گئے اغوا اور قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے ملزمان کو مقدمے سے بری کردیا ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 17 سال قبل درج ہونے والے اغوا اور قتل کیس کی سماعت کی، ملزمان امتیاز اور نعیم پر 4 سالہ بچے کو تاوان کے لیے اغوا اور پھر اسے قتل کرنے کا الزام تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سارہ شریف قتل کیس میں اہم موڑ، والد نے اعتراف جرم کرلیا
اغوا ہونے والے بچے کے والد کی جانب سے تاوان کی رقم نہ ملنے پر ملزمان پر بچے کو قتل کرنے کا الزام تھا، ملزمان کے خلاف چارسدہ میں 2008 میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ملزمان کو 2010 میں دہشتگردی کی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھا ، ہائیکورٹ نے ملزمان کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا تاہم ملزمان نے عمر قید کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: رینجرز اہلکار قتل کیس، گرفتار ملزم کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت
ملزمان کے وکیل ارشد حسین یوسفزئی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ملزمان کے خلاف کوئی شواہد نہیں، ملزمان سے نہ موبائل فون ریکور کیا گیا نہ کوئی گواہی ہے
سپریم کورٹ نے مذکورہ ملزمان کو عدم شواہد پر مقدمے سے باعزت بری کردیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اغوا انسداد دہشتگردی عدالت چارسدہ سپریم کورٹ قتل کیس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اغوا انسداد دہشتگردی عدالت چارسدہ سپریم کورٹ قتل کیس سپریم کورٹ ملزمان کو اغوا اور کورٹ نے قتل کیس کے خلاف کی سزا
پڑھیں:
خواتین کے بانجھ پن اور نان نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ جاری
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے خواتین کے بانجھ پن اور نان نفقہ سے متعلق کیس میں اہم فیصلہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے تحریری فیصلہ جاری کردیا، جس میں عدالت نے خواتین کے بانجھ پن پر مہر یا نان نفقہ سے انکار کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ عدالت نے نان نفقہ کیخلاف درخواست مسترد کر دی۔
عدالت میں مقدمے میں شوہر کے رویے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے درخواست گزار صالح محمد پر 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔ واضح رہے کہ مقدمے میں شوہر نے بیوی پر بانجھ پن اور عورت نہ ہونے کا الزام لگایا تھا ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بانجھ پن حق مہر یا نان نفقہ روکنے کی وجہ نہیں۔ خواتین پر ذاتی حملے عدالت میں برداشت نہیں ہوں گے۔ شوہر نے بیوی کو والدین کے گھر چھوڑ کر دوسری شادی کر لی۔ پہلی بیوی کے حق مہر اور نان نفقہ سے انکار کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عورت کی عزت نفس ہر حال میں محفوظ ہونی چاہیے۔ خواتین کی تضحیک معاشرتی تعصب کو فروغ دیتی ہے۔ مقدمے میں بیوی کی میڈیکل رپورٹس نے شوہر کے تمام الزامات رد کیے ہیں۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس کیس میں 10 سال تک خاتون کو اذیت اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ جھوٹے الزامات اور وقت ضائع کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ عدالت نے مقدمے میں ماتحت عدالتوں کے فیصلے برقرار رکھے۔