پیوٹن کے یار غار کا دورہ تہران
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: توقع کی جا رہی ہے کہ تہران میں لاوروف کے اجلاسوں میں ایک اور اہم معاملہ یوکرین کی جنگ کے بارے میں ماسکو اور واشنگٹن کے براہ راست مذاکرات سے متعلق ہوگا، خاص طور پر سعودی عرب میں پوتن اور ٹرمپ کی ملاقات نے ایک نئی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ یوکرین میں جنگ کی صورتحال اور اسکے حل کے بارے میں ایران اور روس کے موآقف شروع سے ہی مکمل طور پر متضاد رہے ہیں اور تہران نے تنازعہ میں غیر جانبداری کا اعلان کرتے ہوئے مغرب کی مداخلت کے بغیر مذاکرات کو تنازعات کے حل کا بہترین طریقہ سمجھا ہے، اسکے باوجود روس تہران کو ایک اسٹریٹجک اتحادی سمجھتا ہے، جس نے مغرب کی طرف سے اس ملک پر عائد پابندیوں کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
تہران اور ماسکو کے مابین جاری سفارتی رابطوں کے سلسلے میں، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے منگل کو ایران کا دورہ کیا۔ ایران اور روس کے مابین اسٹریٹجک تعاون کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد اور روسی وزیر خارجہ کے ترکی کے حالیہ دورے نیز کچھ دیگر اہم علاقائی اور بین الاقوامی پیشرفتوں کے پیش نظر اس دورے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں روس میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر کاظم جلالی نے لکھا ہے کہ روسی وزیر خارجہ کا تہران کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون کو فروغ دینے کے راستے کو جاری رکھنے کے لئے ہے، جس میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر تعاون
حالیہ برسوں میں تہران اور ماسکو کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات نے تمام شعبوں میں تعاون اور سیاسی مشاورت کو بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مغربی ممالک کی پابندیوں کے نظام کے اثرات کو کم کرنے اور معاشی سفارت کاری کو دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل کرنا نہایت اہم ہے۔ اسی طرح روس کی طویل مدتی خارجہ پالیسی کے سکندر اور اس ملک کے سیاسی ڈھانچے میں پوتین کے قریب ترین شخصیت لاوروف کی تہران موجودگی کئی اہم پیغامات کی حامل ہے، اس سال دسمبر میں دونوں ممالک نے "جامع اسٹریٹجک شراکت داری معاہدے" پر دستخط کئیے ہیں۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر اقتصادی، سلامتی، توانائی، سیاسی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کو گہرا کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
20 سالہ معاہدے پر دستخط پڑوسیوں کے درمیان رشتوں کو مضبوط بنانے کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔ لاوروف ممکنہ طور پر اس معاہدے کے نفاذ کو آگے بڑھانے اور اس کے نفاذ کے راستے میں ممکنہ رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کے لئے آئے ہیں۔ لاوروف نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ آزاد اور خودمختار ممالک کے مابین تعلقات کے قیام کی ایک مثال ہے۔ اقتصادی اور توانائی کے شعبے میں ایران اور روس شراکت داری اور تکنیکی رابطوں کو بڑھانے اور تیل، گیس اور جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی میں تعاون کو فروغ دینے جیسے معاملات میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں اور ممکنہ طور پر یہ موضوعات مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ مشترکہ منصوبوں کی تکمیل نیز بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور اور متعلقہ انفراسٹرکچر کی ترقی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
ایران اور روس کے پاس کئی سو ملین ڈالر کی صارفین کی ایک بڑی مارکیٹ موجود ہے، جس سے ایک دوسرے کے معاشی کارکنوں کے لئے سرمایہ کاری اور سامان و خدمات کی برآمد و درآمد کے مواقع حاصل ہوسکتے ہیں، حالیہ برسوں میں تجارتی معاہدوں کی سہولت کے لئے کیے گئے اقدامات جیسے کہ مالی اور بینکاری معاہدے اور مقامی کرنسی کا استعمال، یا یوروشیا اقتصادی اتحاد میں مبصر رکن کی حیثیت سے ایران کی قبولیت اور بریکس اور شنگھائی جیسے بڑے اداروں میں مشترکہ رکنیت سے ان تعلقات کو مزید فروغ ملا ہے اور ماضی کی کمزور معیشتوں کو مضبوط معیشتوں میں تبدیل کرنے کے لئے زمین فراہم ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم مسئلہ شمالی جنوبی راہداری کی تکمیل اور اس کا استعمال ہے، جس سے روس کو بہت امیدیں ہیں اور اسے مستقبل میں ایران اور روس کے درمیان اقتصادی رابطے کے بنیادی ڈھانچے اور ستون کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی شمال جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) ایک اسٹریٹجک منصوبہ ہے، جو روس، ایران، بھارت اور دیگر کئی ممالک کو جوڑتا ہے۔ یہ راہداری بین الاقوامی تجارت کے متبادل راستے کے طور پر بہت اہمیت رکھتی ہے، خاص طور پر جب سے روس کے خلاف مغربی پابندیوں نے اس ملک کو برآمدی راستوں میں تنوع لانے کے لئے بحیرہ اسود کے راستے پر انحصار کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ روس متعدد معاشی، جغرافیائی سیاسی اور اسٹریٹجک وجوہات کی بناء پر اس راہداری سے بہت زیادہ امید رکھتا ہے۔ شمالی-جنوبی راہداری روس کو ایشیائی منڈیوں، خاص طور پر ہندوستان اور خلیجی ممالک تک براہ راست اور کم لاگت تک رسائی فراہم کرنے اور عالمی منڈیوں سے منسلک کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
یہ راہداری جنوبی روس کے تجارتی راستے کو کم اور زیادہ سستا بناتی ہے۔ یوکرین کی جنگ سے پہلے تک، روسی معیشت توانائی کے وسائل کی برآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی، جس کی وجہ سے توانائی کی پابندیوں سے ماسکو کی غیر ملکی آمدنی متاثر ہوئی ہے۔ لہذا، معیشت کو متنوع بنانا پوتن کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ یہ راہداری اس مقصد کے لئے معاون ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ اس سے غیر پٹرولیم تجارت کو فروغ دینے نیز صنعتی اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کے امکانات فراہم ہوتے ہیں۔ اس منصوبے کی کامیابی روس اور ایران کے مابین قریبی تعاون پر منحصر ہے۔
علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بات چیت
سب سے پہلے تو یہ اہم ہے کہ لاوروف کا ایران کا دورہ ترک حکام سے ملاقات کے فوراً بعد ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس کے سفارتی ایجنڈے میں خاص طور پر شام کے معاملے کی خصوصی اہمیت ہے۔ ایران اور روس شام کی سابقہ حکومت کے دو اہم اتحادی رہے ہیں، جو نئی حکومت کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ رابطے کے چینلز کے اعلان کے باوجود ابھی شام کے معاملے میں فعال نہیں ہیں۔ شام کی سیاسی اور سکیورٹی کی غیر مستحکم اور مبہم صورتحال کی وجہ سے اس ملک میں ہونے والی پیشرفتوں کے بارے میں دونوں ممالک تشویش کا شکار ہیں، تاہم ترکی شام میں نئی صورتحال کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر نئی حکمرانی کو قبول کرنے کی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس سلسلے میں ایران اور روس کے خدشات اور عدم اعتماد کو کم کرنے کے لئے مواصلاتی چینلز قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ تہران میں لاوروف کے اجلاسوں میں ایک اور اہم معاملہ یوکرین کی جنگ کے بارے میں ماسکو اور واشنگٹن کے براہ راست مذاکرات سے متعلق ہوگا، خاص طور پر سعودی عرب میں پوتن اور ٹرمپ کی ملاقات نے ایک نئی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ یوکرین میں جنگ کی صورتحال اور اس کے حل کے بارے میں ایران اور روس کے موآقف شروع سے ہی مکمل طور پر متضاد رہے ہیں اور تہران نے تنازعہ میں غیر جانبداری کا اعلان کرتے ہوئے مغرب کی مداخلت کے بغیر مذاکرات کو تنازعات کے حل کا بہترین طریقہ سمجھا ہے، اس کے باوجود روس تہران کو ایک اسٹریٹجک اتحادی سمجھتا ہے، جس نے مغرب کی طرف سے اس ملک پر عائد پابندیوں کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔ اس سلسلے میں، پوتین اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگرچہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم روس کے ساتھ تعلقات کو جنگ سے پہلے کی حالت میں واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن امریکی سیاسی ڈھانچے کی پیچیدگی اس راستے میں بہت طاقتور رکاوٹیں پیدا کرتی ہے، جن کو دور کرنا صدر کے اختیارات سے باہر ہے۔
مثال کے طور پر سی اے اے ٹی ایس اے کو ختم کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہے، جو کہ ریپبلکن اکثریت کے باوجود بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ 2026ء کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کی طرف سے کانگریس میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے سے ٹرمپ کی تمام تر صلاحیتیں ختم ہو جائیں گی۔ پیوتن ٹرمپ ملاقات کو زیادہ تر یوکرین کی جنگ کے خاتمے، مذاکرات کی پوزیشن کو بہتر کرنے، نیٹو اور مغرب کے درمیان اختلافات کو بڑھانے اور امریکہ کے ساتھ دشمنی کو ختم کرنے کے لیے مغرب کے دباؤ کی سیاست پر فتح حاصل کرنے کے موقع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علاقائی اور بین الاقوامی میں ایران اور روس کے یوکرین کی جنگ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے بارے میں کرنے کے لئے کو کم کرنے براہ راست کے باوجود کے درمیان کے طور پر کے مابین کرنے کی ہیں اور کا دورہ مغرب کی کے ساتھ اور اس اس ملک رہی ہے کی طرف
پڑھیں:
پی ایف یو جے کے وفد کا ایس این جے ہیڈکوارٹر پیرس کا دورہ
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کی صدر ڈومینیکا پراڈولی اور سیکرٹری جنرل انتھونی بلاگر نے پاکستان میں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ، پیکا ایکٹ کے تحت بنائے گئے مقدمات، میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ، ورکنگ جرنلسٹس کو اسٹیٹ ایکٹرز اور نان اسٹیٹ ایکٹرز دونوں کی جانب سے ہراساں کرنے، جبکہ میڈیا مالکان کی طرف سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور جبری برطرفیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نوشہرہ میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے صحافی قتل
انہوں نے صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اس سنگین صورتِ حال پر فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے، بصورتِ دیگر اقوامِ متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی جائے گی۔
اہم ملاقات اور مشترکہ اعلامیہ
سینڈیکیٹ نیشنل دی جرنلسٹس (ایس این جے) کے ہیڈکوارٹر واقع پیرس میں پاکستان کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے وفد، جس میں سیکرٹری جنرل شکیل احمد، راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یوجے) کے صدر طارق عثمانی، اور یونین کی فارن کمیٹی کے سربراہ وسیم شہزاد قادری شامل تھے، نے آئی ایف جے کی صدر ڈومینیکا پراڈولی اور سیکرٹری جنرل انتھونی بلاگر سے تفصیلی ملاقات کی۔
اس موقع پر مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ آر آئی یوجے پاکستان کی موجودہ میڈیا صورتِ حال کو باقاعدہ مانیٹر کر رہی ہے اور صحافیوں کے خلاف ہونے والے غیر قانونی اقدامات کی سخت مذمت کرتی ہے۔
مطالبات اور تجاویز
آئی ایف جے نے پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے، صحافیوں کے حقوق کے لیے مؤثر قانون سازی کرنے، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث عناصر کو گرفتار کرنے، اور میڈیا پر غیر آئینی و غیر جمہوری سنسرشپ فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں:خضدار: یوم صحافت پر صحافی قتل، کیا مولانا صدیق مینگل کو کوئی تھریٹ تھا؟
تنظیم نے میڈیا اداروں کی جانب سے جبری برطرفیوں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر بھی تشویش ظاہر کی اور وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ صحافیوں کے معاشی قتلِ عام کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھانے کا عزم
آئی ایف جے نے اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ وہ پی ایف یو جے کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی اور پاکستان میں صحافیوں کے حقوق و روزگار کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھائے گی۔ یہ معاملہ تنظیم کی آئندہ کانگریس کے اجلاس میں ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے گا۔
قتل کی دھمکیاں اور تحفظ کا مطالبہ
آئی ایف جے کی صدر اور سیکرٹری جنرل نے پی ایف یو جے کے صدر رانا محمد عظیم کو طالبان کی جانب سے دی جانے والی قتل کی دھمکیوں پر سخت ردِعمل ظاہر کیا اور وزیراعظم پاکستان و اعلیٰ تحقیقاتی اداروں سے مکمل چھان بین کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ملوث دہشتگردوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور سخت سزا دی جائے۔
یادگار کا دورہ اور عشائیہ
بعدازاں پی ایف یو جے کے وفد نے صحافیوں کی یادگار کا دورہ کیا، جس کے بعد آئی ایف جے کی صدر ڈومینیکا پراڈولی نے شکیل احمد، طارق عثمانی اور وسیم شہزاد قادری کے اعزاز میں پرتکلف عشائیہ دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں