Express News:
2025-09-18@13:27:51 GMT

باغبان

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

والدین کا رشتہ انمول ہے مگر کبھی کبھار یہی رشتہ بچے کی زندگی کو بے مول بنا کر رکھ دیتا ہے۔ سب والدین اولاد کو پالتے ہیں، بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن بہت کم ہیں جو ان کی پرورش کرتے ہیں۔

اس کی ایک مثال اس طرح ہے کہ جیسے باغبان پودوں کا خیال رکھتا ہے، وہ ہر پودے کو اس کے مزاج کے مطابق رکھتا ہے، کچھ پودے دھوپ میں پھلتے پھولتے ہیں تو کچھ چھاؤں میں زندہ رہتے ہیں جبکہ دھوپ میں مرجھا جاتے ہیں۔ جو پودا اپنے مزاج کے مطابق رکھا جائے وہی بہترین پھل بھی دے گا، ورنہ وہ جلا سڑا آپ کے آنگن میں پڑا تو رہے گا لیکن پھل نہ دے گا۔

بہت سے والدین ماں باپ تو بن جاتے ہیں اور بچے کی زندگی کی ظاہری ضروریات کو پورا بھی کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ اپنے منفی رویے سے ان کی شخصیت اور ذہنی صحت کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ ان سے بہت سی اُمیدیں بچپن سے ہی رکھتے ہیں، اس وجہ سے بے جا روک ٹوک، ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کرتے ہیں۔ اپنی مرضی کی تعلیم دلوا کر اپنی پسند کے شعبے سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ بچے کی پسند ناپسند ان کےلیے معنی ہی نہیں رکھتی اور جب وہ اچھے گریڈز نہیں لے پاتا تو اس کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں اور تمام تر ناکامی کی ذمے داری اُس پر ڈال دیتے ہیں۔

ماں باپ کی آپس کی نااتفاقی اور گھریلو لڑائی جھگڑے بھی بچوں پر منفی اثرات کا باعث بنتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت اور ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جبکہ کچھ والدین کی لاپرواہی سے بچہ نہ صرف نظر انداز ہوتا ہے بلکہ تمام عمر احساس محرومی کا شکار بھی رہتا ہے۔ وہ والدین کی نہ ملنے والی توجہ اور محبت دوسروں میں تلاش کرتا ہے جس کے نتائج بدتر بھی ہوسکتے ہیں۔

یونیسیف کی 11 جون 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 400 ملین چھوٹے بچے گھر میں تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

والدین کا بچوں کی غلط باتوں میں بھی ان کی حوصلہ افزائی کرنا ان میں جھوٹ، چوری، گالم گلوچ، مار کٹائی جیسی بری خصلتوں کی حوصلہ افزائی کرنا نہ صرف انہیں بری اولاد بناتا ہے بلکہ معاشرے کو ایک ناسور دے دیا جاتا ہے۔

ایسے والدین کی اولاد جب شادی کی عمر کو پہنچتی ہے تو یہاں بھی یہ لوگ اولاد کے ساتھ ناانصافی کرجاتے ہیں۔ کچھ لوگ بچوں کو ایک اے ٹی ایم کی طرح استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کےلیے اولاد کی خوشی اور ذہنی سکون ان کےلیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہاں اولاد سے محبت کے بجائے سراسر خود غرضی کا رشتہ رکھا جاتا ہے۔ والدین بس اپنی خوشی اور سکون کا سوچ کر اولاد کی زندگی تک برباد کر دیتے ہیں، اس خوف سے اس کی شادی میں بے جا تاخیر کی جاتی ہے کہ کہیں ان سے آسائشیں چھین نہ لی جائیں یا پھر ان کا لائف پارٹنر آ بھی جائے تو دونوں میاں بیوی کے درمیان اس قدر جھگڑے کرواتے ہیں کہ نوبت طلاق تک آجاتی ہے یا پھر فضول خرچ کرواتے ہیں  کہ وہ اپنے لائف پارٹنر یا بچوں کےلیے کوئی سیونگ یا ان کے مستقبل کےلیے کوئی منصوبہ بندی کر ہی نہیں پاتے۔

والدین کی بنیادی ضروریات پوری کرنا اولاد پر فرض ہے، ان کی خوشی کا خیال رکھنا لازم ہے۔ وہ ہمیں پالتے ہیں، اچھی تعلیم دلواتے ہیں، اپنی خواہشات کو قربان کرکے ہماری خواہشات پوری کرتے ہیں۔ مگر یہاں بات ہو رہی ہے ان والدین کی جو سازشیں کرتے ہیں، بہو سے حسد میں اولاد کو تباہ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ 

اسی طرح اکثر زمینداروں یا جائیداد رکھنے والے منفی سوچ کے والدین اپنی بیٹیوں کی زندگی تباہ کرتے ہیں۔ ذات پات کا بہانہ بنا کر یا سوشل اسٹیٹس کا ایشو بنا کر اس کے بالوں میں چاندی اُترنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ ان کی بیٹی کے حصے کی جائیداد بیٹوں کے ہاتھ میں ہی رہے۔ جبکہ شادی شدہ بہنوں کا حصہ بھی بھائی کھا جاتے ہیں۔ اس میں بھی وہ والدین قصوروار ہیں جو زندگی میں اپنی اولاد میں انصاف سے سب تقسیم کرکے نہیں جاتے ہیں۔

اولاد کی شادی میں پسند اور ناپسند کو مد نظر رکھنا بھی ایک اہم جز ہے۔ جبکہ اس میں بھی چند والدین ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ تو اپنی زندگی میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ ان کو اپنی اولاد کی ڈھلتی عمر کی فکر ہی نہیں ہوتی ہے یا انہیں بڑھاپے کا سہارا بنانے کےلیے استعمال کیے جارہے ہوتے ہیں، یا پھر ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کردی جاتی ہے۔

تمام عمر انہیں احساسات دبانے کو باعث ثواب قرار دیا جاتا ہے۔ اور جو ہمسفر آپ کےلیے پسند کیا جائے وہ بدکردار ہو یا نفسیاتی مسائل کا شکار، اسے بھی اپنا نصیب سمجھ کر برداشت کرنے کا درس دیا جائے گا۔

یہ سب بیٹا بیٹی دونوں کےلیے ہی تکلیف دہ ہوتا ہے مگر خاص کر بیٹی کےلیے بہت اذیت کا باعث ہے۔ کیونکہ بیٹا تو شاید ہمسفر کا دماغ یا کردار ٹھیک نہ ہونے پر اس سے جان چھڑوا لے مگر بیٹی کہاں جائے؟ وہ شادی سے پہلے بھی اذیت میں رہی اور شادی کے بعد بھی سسرال میں میکے جیسا ماحول برداشت کرتی ہے۔ نہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ واپسی کا سوچ سکتی ہے۔

جبکہ والدین کے بگاڑے بچے دوسروں کی زندگیاں بگاڑ دیتے ہیں۔ ہھر چاہے وہ نشے کی لت میں مبتلا ہوں یا اپنی کاہلی کی وجہ سے بے روزگاری کا شکار ہوں، اس کی وجہ بھی ان کے بیوی کا نصیب ہی سمجھا جائے گا۔

لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی اس قسم کے والدین بچوں کو ایک جہنم جیسی زندگی دے کر اپنے بڑھاپے میں یہی طعنہ دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہماری خدمت نہیں کرتے یا نافرمان اولاد ہے وغیرہ وغیرہ۔

جس اولاد کو چھاؤں میں رکھنا تھا اسے دھوپ میں جلا دیا اور جس کو دھوپ چاہیے تھی اسے روشنی سے محروم کرکے کس پھل کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ تو پہلے ہی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں انہیں آپ کیوں ایک نئی جنگ میں دھکیل رہے ہیں؟

بلاشبہ والدین عزت، محبت، دولت، دوستی اور اولاد کے وقت کے حقدار ہیں، مگر کیا اولاد ان تمام چیزوں کی حقدار نہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: والدین کی دیتے ہیں جاتے ہیں کرتے ہیں ہوتے ہیں کی زندگی کا شکار

پڑھیں:

کیا بھارت آپریشن سندور جیت گیا تھا؟ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر برس پڑے

بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی،  بی جے پی اور اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا ہم نے آپریشن سندور جیت لیا تھا، جو پاکستانی کرکٹرز سے ہاتھ نہیں ملائے؟

بھگونت سنگھ مان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی پالیسی پاکستان کے خلاف ہے یا لوگوں کے خلاف ہے۔ بی جے پی اور اس کی ٹرول آرمی جسے چاہے غدار قرار دیتی ہے۔ پاکستان سے کسی فنکار کو فلم میں کام کرنے کے لیے لیا گیا جو پہلگام واقعے سے پہلے کی شوٹنگ ہے تو کہا گیا وہ فلم ریلیز نہیں ہونے دیں گے ورنہ اس کو ملک کاغدار کہیں گے کیونکہ پاکستان سے ہم نے کوئی تعلق نہیں رکھنا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو کل میچ ہوا، اس کا پروڈیوسر امیت شاہ کا بیٹا ہے اور بھارتی میڈیا کہہ رہا ہے کہ پاکستانی کرکٹرز سے ہاتھ نہیں ملائے، کیا ہم نے آپریشن سندور جیت لیا تھا۔

بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان کے ساتھ کھیلے تو ہیں، کیچ تو پکڑے ہیں، چھکے انہوں نے بھی مارے آپ نے بھی مارے۔ یاتو ایسے ہوا ہو کہ آپ نے کہا ہو ہم اس گیند کو ہاتھ نہیں لگاتے اس کو پاکستان کا بلا لگا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر پاکستان نے ایشیا کپ کا بائیکاٹ کیا تو ایونٹ کو مالی طور پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آتا میچ کرانے کی کیا مجبوری تھی، میچ کھیلنے کا حصہ تو پاکستان کو بھی جائےگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کرتارپور راہداری کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ سرداروں سے کیا قصور ہو گیا  ہے کہ انہیں عبادت کے لیے پاکستان نہیں جانے دیتے؟ اگر میچ کھیل سکتے ہیں تو کرتار پور عبادت کے لیے جانے دینے میں کیا حرج ہے؟ کیا سارا کچھ آپ کی مرضی سے چلے گا؟

مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھگونت مان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں آفت آئی تو ایک منٹ میں پیسہ پہنچ گیا حالنکہ وہ ہمیں لوٹنے آتے رہے، پنجاب میں آفت آئی کروڑوں روپے کا اعلان کیا گیا مگر ابھی تک ایک پیسہ نہیں آیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امیت شاہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگوانت سنگھ مان بھگوانت سنگھ مان پاک بھارت میچز پاکستانی کرکٹ

متعلقہ مضامین

  • یوزویندر سے طلاق کے بعد انڈسٹری کی ’سلمان خان‘ بننا چاہتی ہوں، دھناشری
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • واٹس ایپ صارفین کےلیے تھریڈز ریپلائی فیچر کی آزمائش
  • جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • کیا بھارت آپریشن سندور جیت گیا تھا؟ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر برس پڑے
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • بچے کی پیدائش پر اسکی شناخت نہ کروانا بچے کے ساتھ حق تلفی ہے، ترجمان نادرا
  • والدین بیٹیوں کو کینسر سے بچاؤ کی ویکسین ضرور لگوائیں: آصفہ بھٹو 
  • ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!