ملٹری ٹرائل کیس:پریکٹس پروسیجر فیصلے میں ماضی سے اپیل کا حق مل جاتا تو سن 73 سے اپیلیں آ جاتیں، جج آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے جج نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلے میں ماضی سے اپیل کا حق مل جاتا تو سن 73 سے اپیلیں آ جاتیں۔
نجی ٹی وی چینل جیونیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلین کے کورٹ مارشل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف 5 رکنی بینچ کا ایک نہیں، تین فیصلے ہیں، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے فیصلے لکھے، تمام ججز کا ایک دوسرے کے فیصلے سے اتفاق تھا، فیصلے یکساں اور وجوہات مختلف ہوں تو تمام وجوہات فیصلے کا حصہ تصور ہوتی ہیں۔
دودی خان نے راکھی ساونت کو انگوٹھی پہنا دی
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز نے اضافی نوٹ نہیں بلکہ فیصلے لکھے تھے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا تمام پانچ ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عذیر بھنڈاری نے انٹرا کورٹ اپیل کا دائرہ اختیار محدود ہونے کا مؤقف اپنایا، میں عذیر بھنڈاری کے مؤقف سے اتفاق نہیں کرتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عذیر بھنڈاری کا انحصار پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں جسٹس منصور کے نوٹ پر تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے میں ماضی سے اپیل کا حق مل جاتا تو سن 73 سے اپیلیں آ جاتیں، جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا اپیل کا دائرہ محدود کر دیا تو ہماری کئی اپیلیں بھی خارج ہو جائیں گی۔
گلوکار اسد عباس کے انتقال کے بعد اہل خانہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور
جسٹس امین الدین کا کہنا تھا فیصلہ دینے والا بینچ ہی نظرثانی اپیل سنتا ہے جبکہ انٹرا کورٹ اپیل لارجر بینچ سنتا ہے، لارجر بینچ مقدمہ پہلی بار سن رہا ہوتا ہے اس لیے پہلے فیصلےکا پابند نہیں ہوتا۔
وکیل سول سوسائٹی فیصل صدیقی کا کہنا تھا میرا آئینی بینچ پر مکمل اعتماد ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ اسی طرح دلائل دیتے رہے تو لگتا ہے آپ کو 3 ماہ سننا پڑے گا۔
فیصل صدیقی کا کہنا تھا آئینی بینچ آرمی ایکٹ کی شقیں کالعدم قرار دیے بغیر بھی سویلین کا ٹرائل کالعدم کر سکتا ہے، سیکشن 94 کے تحت کمانڈنگ افسر کو ملزمان کی حوالگی کا صوابدیدی اختیار درست نہیں۔
اروشی روٹیلا نے تامل فلموں کی کمائی میں عالیہ بھٹ کو پیچھے چھوڑ دیا
جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا پہلے دن سے پوچھ رہا ہوں اے ٹی سی جج کا ملزم حوالے کرنے کا کوئی باضابطہ حکمنامہ ہے؟ جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا حکم نامہ تو ہے لیکن اس میں وجوہات نہیں دی گئیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا عدالت کو خود دیکھنا ہوتا ہے کہ اسے اختیار سماعت ہے یا نہیں؟ کیا لازمی ہے کہ کوئی فریق ہی دائرہ اختیار کا اعتراض کرے؟ جس پر جسٹس امین الدین نے کہا عدالت کو خود اپنا دائرہ اختیار طے کرنا ہوتا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کوئی مزار قائد کا قبضہ مانگ لے تو کیا عدالت یہ کہےگی کسی نے دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کیا؟
مداح نے اچانک راستے میں اداکارہ عالیہ بھٹ کو پکڑ لیا پھر رنبیر نے کیا کیا؟ ویڈیو وائرل
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: فیصل صدیقی کا کہنا تھا انٹرا کورٹ اپیل دائرہ اختیار اپیل کا سے اپیل
پڑھیں:
جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم دے دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے کیس سماعت کی، اس موقع پر وکلاء کی کثیر تعداد کمرہ عدالت پہنچی، ڈسٹرکٹ بار اور ہائیکورٹ بار کی کابینہ بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی، شیر افضل مروت بھی کمرہ عدالت پہنچے، تاہم جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست گزار میاں داؤد آج پیش بھی نہیں ہوئے اور التواء کی استدعا کی گئی لیکن پھر بھی جج کو کام سے روک دیا گیا۔ دوران سماعت وکیل راجہ علیم عباسی نے دلائل دیئے کہ ’ہماری صرف گزارش ہے کہ یہ خطرناک ٹرینڈ ہے اگر یہ ٹرینڈ بنے گا تو خطرناک ٹرینڈ ہے، سپریم کورٹ کے دو فیصلے موجود ہیں، اس درخواست پر اعتراض برقرار رہنے چاہئیں‘، عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟‘، وکیل اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ’ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، بار ایسوسی ایشنز سٹیک ہولڈرز ہیں‘۔(جاری ہے)
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیئے کہ ’حق سماعت کسی کا بھی رائٹ ہے ہم نے آفس اعتراضات کو دیکھنا ہے، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟‘، بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک عدالت نے کیس ملتوی کردیا، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کردیا۔