Express News:
2025-06-09@21:26:17 GMT

یوکرین روس متوقع جنگ بندی، مثبت پیش رفت

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

یوکرین میں روس کی فوجی مداخلت کے تین برس مکمل ہونے کے موقعے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یوکرین کے مسئلے پر پیش امریکی قرارداد منظورکر لی۔ قرارداد میں تنازعے کے فوری خاتمے کی اپیل کی گئی اور روس اور یوکرین کے درمیان دیرپا امن پر زور دیا گیا۔ چین، امریکا، روس اور پاکستان سمیت 10 ممالک نے قرارداد کی حمایت کی۔ مذکورہ قرارداد جنرل اسمبلی میں پیش امریکی قرارداد کے مطابق ہے۔

اس وقت عالمی تنازعات میں ایک حل طلب مسئلہ روس یوکرین جاری جنگ کا خاتمہ ہے،کیونکہ اس جنگ کے عالمگیر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو اب تین برس ہوچکے ہیں، جس میں60 ہزار سے زائد یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔

روس کے صدر، ولاد میر پیوتن نے فروری 2022 میں اپنی فوجوں کو یوکرین پر حملے کا حکم دیا تھا۔ اس تین برس کی جاری جنگ کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا ہے، جس نے دنیا بَھر کے لوگوں کو لپیٹ میں لے لیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اس تباہی میں پِسے ہی، امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔ روس یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔

 روس کے ساتھ جنگ کے تین برس مکمل ہونے کے موقع پر یوکرین نے یورپی رہنماؤں کی میزبانی کی، دوسری جانب چند روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدرکو ’’ ڈکٹیٹر‘‘ قرار دینے اور ان پر جنگ شروع کرنے کا الزام عائد کیے جانے کے باوجود زیلنسکی نے یورپ سے کہا ہے کہ وہ اپنی فوج تشکیل دے اور واشنگٹن کے لیے عملیت پسند رویہ اختیارکرے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے پیشکش کی ہے کہ ’’ اگرکیف کو نیٹو فوجی اتحاد میں شامل کیا جاتا ہے تو وہ یوکرین کے صدرکا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوتن سے ملاقات سے قبل ایک بار مجھ سے ملیں۔‘‘

اس جاری جنگ کی وجہ سے موجودہ وقت روس کو شدید معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کئی منفی محرکات ایک ساتھ اس کی معیشت کو مزید متاثرکریں گے۔ اسی پس منظر کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات کی وجہ سے صدر ولادیمیر پوتن امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یوکرین میں جنگ ختم کرنے پر بات چیت شروع کرسکتے ہیں،کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے بعد کہا تھا کہ یوکرین میں جنگ ’’ روس کو تباہ کر رہی ہے‘‘ اور اپنے ایک اور حالیہ بیان میں وہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر پوتن نے جنگ ختم کرنے کے لیے بات چیت پر آمادگی ظاہر نہیں کی تو روس کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

بلاشبہ معاشی تحفظات کی وجہ سے روس یوکرین تنازع کے سفارتی حل میں دل چسپی رکھتا ہے،کیونکہ دفاعی اور قومی سیکیورٹی پر زائد اخراجات کی وجہ سے 2024 کے دوران روس میں مہنگائی کی شرح 9.

5 فی صد رہی۔ رواں برس روس کے مجموعی بجٹ کا 41 فی صد دفاع اور سیکیورٹی کی مد میں خرچ ہوگا جس میں قرضوں پر سبسڈی اور افرادی قوت کی قلت کی وجہ سے بڑھتی ہوئی اجرتوں پرکثیر سرمایہ خرچ کرنا پڑے گا۔ گزشتہ 15 برسوں میں صرف دو مواقعے ایسے آئے ہیں جب روس میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچی ہے۔

حالیہ تاریخ میں یہ موقع 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے پہلے سال کے دوران آیا۔ اس سے قبل کریمیا کے الحاق کے بعد 15-2014 میں آنے والے معاشی بحران میں روس میں افراطِ زر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ اس وقت روسی صدر پوتن کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی ٹرمپ کی کوششوں کو روس کی پہلے سے مشکلوں کا شکار معیشت پر دباؤ بڑھانے کی دھمکیوں سے روسی معیشت کمزور ہوسکتی ہے، بشمول پابندیاں اور محصولات متعارف کرانا وغیرہ، اسی تناظر میں گزشتہ ماہ جنوری میں ٹرمپ نے OPEC سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کریملن کے لیے آمدنی کے ایک اہم سلسلے کو نشانہ بنانے کے لیے تیل کی عالمی قیمتوں کو نیچے دھکیل دے۔ دراصل تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی رقم روس کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ رہی ہے، جو گزشتہ دہائی کے دوران وفاقی بجٹ کی آمدنی کا ایک تہائی سے نصف حصہ ہے۔

اگرچہ ٹرمپ نے ابھی تک جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی تفصیلی بلیو پرنٹ نہیں دیا ہے، لیکن ان کے نائب جے ڈی وینس نے اشارہ دیا ہے کہ ٹرمپ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک بھاری قلعہ بند غیر فوجی زون کی تجویز رکھ سکتے ہیں اور ساتھ ہی موجودہ محاذوں پر جنگ کو منجمد کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کی وہائٹ ہاؤس میں واپسی نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے میں مدد کے لیے مغربی امن فوج کے یوکرین میں تعینات کیے جانے کے امکان کو تقویت دی ہے، لیکن روسی وزارت خارجہ نے اس خیال کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور ساتھ ہی فرنٹ لائنز پر جنگ کو منجمد کرانے کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ پھر بھی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور اس ہفتے ٹرمپ نے ایسے بیانات دیے ہیں جن کا ظاہری مقصد ماسکو کو تسلی دینا تھا، لہٰذا فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے صدر زیلنسکی کو کوئی فرشتہ نہیں قرار دیا اور تجویز پیش کی کہ یوکرین کے رہنما نے جنگ کے پھیلنے کے لیے کچھ ذمے داریوں کا اشتراک کیا۔ ’’اسے اس جنگ کو ہونے نہیں دینا چاہیے تھا۔‘‘

درحقیقت ٹرمپ نے روس یوکرین تنازعہ کے بارے میں اپنا نقطہ نظر اقتصادی لحاظ سے وضع کیا ہے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ روس پر اقتصادی دباؤکا فائدہ پوتن کو مذاکرات پر مجبور کرسکتا ہے۔ روس پہلے ہی امریکی، یورپی اور مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے اور اِس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ یوکرین کی جاری جنگ اپنے منفی اثرات اس پر مرتب کر رہی ہے۔

ٹرمپ اپنی صدارتی مہم کے دَوران مستقلاً یوکرین وار بند کرنے پر زور دیتے رہے، بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر وہ مسلسل صدر رہتے، تو یہ جنگ ہوتی ہی نہیں۔صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر روس نے جنگ بند نہیں کی تو وہ امریکی تیل اور توانائی کے ذرایع کا ایک سیلاب یورپی ممالک کی طرف موڑ دیں گے، جس سے اُن کا روسی تیل و گیس پر انحصار ختم ہوجائے گا اور روس کو توانائی خریدنے والا کوئی دوسرا نہیں ملے گا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ روسی صدر نے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کا مثبت جواب دیا اور کہا کہ وہ جنگ اور دوسرے معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ درحقیقت ٹرمپ ایک تیر سے دو شکارکرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ ٹرمپ ایک سیاست داں کم اور کاروباری زیادہ ہیں۔،وہ اپنا ہر سیاسی فیصلہ سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھ اپنے زیادہ فائدے اور کم نقصان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح اگر وہ روس یوکرین جنگ، تیل کی قیمتیں کم کروا کے روس پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو روس کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرنے کے علاوہ وہ یہ اقدام امریکا کے اندر بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، اگر تیل کی کم قیمتیں امریکا میں مہنگائی کو کم کروانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں تو وہ ٹرمپ کی دیگر پالیسیوں کے خلاف کسی بھی طرح کی عوامی ناراضگی کو کم کرانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں،کیونکہ امریکی عوام کی اکثریت کم قیمتوں پر اشیائے صرف اور ذاتی مالیات حاصل کرنے کے قابل ہو جانے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ سوچے بغیرکہ اس کا دیگر ممالک پر کیا منفی اثر ہوسکتا ہے، یعنی کہ مجموعی طور پر امریکی عوام اور امریکی صدر دونوں کو خود غرض کہا جاسکتا ہے۔

 ٹرمپ کی جرات مندانہ حکمت عملی عالمی تنازعات کو حل کرنے کے ایک آلے کے طور پر اقتصادی فائدہ اٹھانے، خاص طور پر تیل کو نشانہ بنانے پر ان کی توجہ کو نمایاں کرتی ہے۔ ساتھ ہی وہ امریکا کی جانب سے کسی بھی امریکی اتحادی کو مالی مدد یا جنگی مدد دینے سے بھی انکار کرتے نظر آرہے ہیں، سوائے اسرائیل کے۔

زیلنسکی کی جانب سے طویل المدتی سیکیورٹی امداد پر زور دینے اور ٹرمپ کی جانب سے امن معاہدے پر بات کرنے کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ آیا امریکی اقدامات ماسکو اور کیف کو جنگ بندی کے قریب لا سکتے ہیں یا نہیں۔ حرف آخر، اگر اقوام متحدہ کی قرارداد اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی خواہش عملی روپ دھارنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ عالمی امن کی جانب ایک اہم ترین پیش رفت ہوگی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں مہنگائی امریکی صدر روس یوکرین یوکرین میں کی جانب سے کہ یوکرین یوکرین کے کی وجہ سے تین برس کرنے کے ٹرمپ کی روس کے روس کو جنگ کو کے لیے جنگ کے کے صدر دیا ہے رہی ہے

پڑھیں:

صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا میں اِس وقت ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ امریکا کو صحافتی آزادی کے علم برداروں میں نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ امریکی ادارے دنیا بھر میں صحافتی آزادی جانچتے رہتے ہیں مگر خود امریکا میں اس حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ شرم ناک ہے۔

امریکی میڈیا گروپ اے بی سی کے رپورٹر ٹیری مورن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے معاون اسٹیفن ملر کو اول درجے کے نفرت پھیلانے والے قرار دینے کی پاداش میں معطل کردیا گیا ہے۔ ٹیری مورن نے ایک ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ امریکی صدر جو کچھ کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں امریکا اور امریکا سے باہر نفرت پھیل رہی ہے۔ ایسی کیفیت کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔

ٹیری مورن نے جو کچھ کہا وہ امریکا میں کسی بھی سطح پر حیرت انگیز نہیں۔ حکومتی شخصیات پر غیر معمولی تنقید امریکی صحافت کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ڈیموکریٹس پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے مگر اُنہوں نے کبھی اِس نوعیت کے اقدامات نہیں کیے۔ سابق صدر جو بائیڈن پر غیر معمولی تنقید کی جاتی رہی مگر اُنہوں نے کسی بھی بات کو پرسنل نہیں لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج بہت الگ، بلکہ بگڑا ہوا ہے۔ وہ امریکی معاشرے اور ثقافت کی بنیادیں ہلانے والے اقدامات کر رہے ہیں۔ میڈیا کو دباؤ رکھنا بھی اُن کے مزاج اور پالیسیوں کا حصہ ہے۔

ٹیری مورن کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر امریکا میں میڈیا کے ادارے جُزبُز ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ اِس نوعیت کے اقدامات سے ٹرمپ انتظامیہ میڈیا کے اداروں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ سب کچھ برداشت نہیں کیا جائے گا اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے علم بردار اداروں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے شدید احتجاج کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے چلےگئے، یہ گروتھ بھی فارم 47 کی طرح کی دکھا رہے ہیں، شیخ وقاص
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حادثے سے بال بال بچ گئے
  • ٹرمپ کی غزہ پر نظر برقرار، ایک بار پھر امریکی تحویل میں لینے کا اشارہ دے دیا
  • امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرے اور بدامنی جاری
  • صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
  • ٹرمپ اور ایلون مسک کی دوستی ختم، امریکی صدر کی سخت نتائج کی دھمکی
  • ٹرمپ نے مسک کو خبردار کر دیا، ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلیے تیار رہو
  • صدر ٹرمپ نے لاس اینجلس میں احتجاج کے دوران نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،’ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں’
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول