یوکرین روس متوقع جنگ بندی، مثبت پیش رفت
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
یوکرین میں روس کی فوجی مداخلت کے تین برس مکمل ہونے کے موقعے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یوکرین کے مسئلے پر پیش امریکی قرارداد منظورکر لی۔ قرارداد میں تنازعے کے فوری خاتمے کی اپیل کی گئی اور روس اور یوکرین کے درمیان دیرپا امن پر زور دیا گیا۔ چین، امریکا، روس اور پاکستان سمیت 10 ممالک نے قرارداد کی حمایت کی۔ مذکورہ قرارداد جنرل اسمبلی میں پیش امریکی قرارداد کے مطابق ہے۔
اس وقت عالمی تنازعات میں ایک حل طلب مسئلہ روس یوکرین جاری جنگ کا خاتمہ ہے،کیونکہ اس جنگ کے عالمگیر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو اب تین برس ہوچکے ہیں، جس میں60 ہزار سے زائد یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔
روس کے صدر، ولاد میر پیوتن نے فروری 2022 میں اپنی فوجوں کو یوکرین پر حملے کا حکم دیا تھا۔ اس تین برس کی جاری جنگ کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا ہے، جس نے دنیا بَھر کے لوگوں کو لپیٹ میں لے لیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اس تباہی میں پِسے ہی، امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔ روس یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
روس کے ساتھ جنگ کے تین برس مکمل ہونے کے موقع پر یوکرین نے یورپی رہنماؤں کی میزبانی کی، دوسری جانب چند روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدرکو ’’ ڈکٹیٹر‘‘ قرار دینے اور ان پر جنگ شروع کرنے کا الزام عائد کیے جانے کے باوجود زیلنسکی نے یورپ سے کہا ہے کہ وہ اپنی فوج تشکیل دے اور واشنگٹن کے لیے عملیت پسند رویہ اختیارکرے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے پیشکش کی ہے کہ ’’ اگرکیف کو نیٹو فوجی اتحاد میں شامل کیا جاتا ہے تو وہ یوکرین کے صدرکا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوتن سے ملاقات سے قبل ایک بار مجھ سے ملیں۔‘‘
اس جاری جنگ کی وجہ سے موجودہ وقت روس کو شدید معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کئی منفی محرکات ایک ساتھ اس کی معیشت کو مزید متاثرکریں گے۔ اسی پس منظر کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات کی وجہ سے صدر ولادیمیر پوتن امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یوکرین میں جنگ ختم کرنے پر بات چیت شروع کرسکتے ہیں،کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے بعد کہا تھا کہ یوکرین میں جنگ ’’ روس کو تباہ کر رہی ہے‘‘ اور اپنے ایک اور حالیہ بیان میں وہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر پوتن نے جنگ ختم کرنے کے لیے بات چیت پر آمادگی ظاہر نہیں کی تو روس کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
بلاشبہ معاشی تحفظات کی وجہ سے روس یوکرین تنازع کے سفارتی حل میں دل چسپی رکھتا ہے،کیونکہ دفاعی اور قومی سیکیورٹی پر زائد اخراجات کی وجہ سے 2024 کے دوران روس میں مہنگائی کی شرح 9.
حالیہ تاریخ میں یہ موقع 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے پہلے سال کے دوران آیا۔ اس سے قبل کریمیا کے الحاق کے بعد 15-2014 میں آنے والے معاشی بحران میں روس میں افراطِ زر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ اس وقت روسی صدر پوتن کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی ٹرمپ کی کوششوں کو روس کی پہلے سے مشکلوں کا شکار معیشت پر دباؤ بڑھانے کی دھمکیوں سے روسی معیشت کمزور ہوسکتی ہے، بشمول پابندیاں اور محصولات متعارف کرانا وغیرہ، اسی تناظر میں گزشتہ ماہ جنوری میں ٹرمپ نے OPEC سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کریملن کے لیے آمدنی کے ایک اہم سلسلے کو نشانہ بنانے کے لیے تیل کی عالمی قیمتوں کو نیچے دھکیل دے۔ دراصل تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی رقم روس کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ رہی ہے، جو گزشتہ دہائی کے دوران وفاقی بجٹ کی آمدنی کا ایک تہائی سے نصف حصہ ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے ابھی تک جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی تفصیلی بلیو پرنٹ نہیں دیا ہے، لیکن ان کے نائب جے ڈی وینس نے اشارہ دیا ہے کہ ٹرمپ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک بھاری قلعہ بند غیر فوجی زون کی تجویز رکھ سکتے ہیں اور ساتھ ہی موجودہ محاذوں پر جنگ کو منجمد کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کی وہائٹ ہاؤس میں واپسی نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے میں مدد کے لیے مغربی امن فوج کے یوکرین میں تعینات کیے جانے کے امکان کو تقویت دی ہے، لیکن روسی وزارت خارجہ نے اس خیال کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور ساتھ ہی فرنٹ لائنز پر جنگ کو منجمد کرانے کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ پھر بھی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور اس ہفتے ٹرمپ نے ایسے بیانات دیے ہیں جن کا ظاہری مقصد ماسکو کو تسلی دینا تھا، لہٰذا فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے صدر زیلنسکی کو کوئی فرشتہ نہیں قرار دیا اور تجویز پیش کی کہ یوکرین کے رہنما نے جنگ کے پھیلنے کے لیے کچھ ذمے داریوں کا اشتراک کیا۔ ’’اسے اس جنگ کو ہونے نہیں دینا چاہیے تھا۔‘‘
درحقیقت ٹرمپ نے روس یوکرین تنازعہ کے بارے میں اپنا نقطہ نظر اقتصادی لحاظ سے وضع کیا ہے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ روس پر اقتصادی دباؤکا فائدہ پوتن کو مذاکرات پر مجبور کرسکتا ہے۔ روس پہلے ہی امریکی، یورپی اور مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے اور اِس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ یوکرین کی جاری جنگ اپنے منفی اثرات اس پر مرتب کر رہی ہے۔
ٹرمپ اپنی صدارتی مہم کے دَوران مستقلاً یوکرین وار بند کرنے پر زور دیتے رہے، بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر وہ مسلسل صدر رہتے، تو یہ جنگ ہوتی ہی نہیں۔صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر روس نے جنگ بند نہیں کی تو وہ امریکی تیل اور توانائی کے ذرایع کا ایک سیلاب یورپی ممالک کی طرف موڑ دیں گے، جس سے اُن کا روسی تیل و گیس پر انحصار ختم ہوجائے گا اور روس کو توانائی خریدنے والا کوئی دوسرا نہیں ملے گا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ روسی صدر نے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کا مثبت جواب دیا اور کہا کہ وہ جنگ اور دوسرے معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ درحقیقت ٹرمپ ایک تیر سے دو شکارکرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ ٹرمپ ایک سیاست داں کم اور کاروباری زیادہ ہیں۔،وہ اپنا ہر سیاسی فیصلہ سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھ اپنے زیادہ فائدے اور کم نقصان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح اگر وہ روس یوکرین جنگ، تیل کی قیمتیں کم کروا کے روس پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو روس کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرنے کے علاوہ وہ یہ اقدام امریکا کے اندر بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، اگر تیل کی کم قیمتیں امریکا میں مہنگائی کو کم کروانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں تو وہ ٹرمپ کی دیگر پالیسیوں کے خلاف کسی بھی طرح کی عوامی ناراضگی کو کم کرانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں،کیونکہ امریکی عوام کی اکثریت کم قیمتوں پر اشیائے صرف اور ذاتی مالیات حاصل کرنے کے قابل ہو جانے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ سوچے بغیرکہ اس کا دیگر ممالک پر کیا منفی اثر ہوسکتا ہے، یعنی کہ مجموعی طور پر امریکی عوام اور امریکی صدر دونوں کو خود غرض کہا جاسکتا ہے۔
ٹرمپ کی جرات مندانہ حکمت عملی عالمی تنازعات کو حل کرنے کے ایک آلے کے طور پر اقتصادی فائدہ اٹھانے، خاص طور پر تیل کو نشانہ بنانے پر ان کی توجہ کو نمایاں کرتی ہے۔ ساتھ ہی وہ امریکا کی جانب سے کسی بھی امریکی اتحادی کو مالی مدد یا جنگی مدد دینے سے بھی انکار کرتے نظر آرہے ہیں، سوائے اسرائیل کے۔
زیلنسکی کی جانب سے طویل المدتی سیکیورٹی امداد پر زور دینے اور ٹرمپ کی جانب سے امن معاہدے پر بات کرنے کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ آیا امریکی اقدامات ماسکو اور کیف کو جنگ بندی کے قریب لا سکتے ہیں یا نہیں۔ حرف آخر، اگر اقوام متحدہ کی قرارداد اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی خواہش عملی روپ دھارنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ عالمی امن کی جانب ایک اہم ترین پیش رفت ہوگی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں مہنگائی امریکی صدر روس یوکرین یوکرین میں کی جانب سے کہ یوکرین یوکرین کے کی وجہ سے تین برس کرنے کے ٹرمپ کی روس کے روس کو جنگ کو کے لیے جنگ کے کے صدر دیا ہے رہی ہے
پڑھیں:
ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برطانیہ کے اپنے دو روز سرکاری دورے پر گزشتہ دیر رات کو لندن پہنچے، جہاں بدھ کے روز ان کی کنگ چارلس سوم اور وزیر اعظم کیر اسٹارمر سے ملاقات ہونے والی ہے۔
لندن پہنچنے پر امریکی صدر نے کہا کہ آج "ایک بڑا دن" ہونے والا ہے۔ ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ نے ون فیلڈ ہاؤس میں رات گزاری جو کہ 1955 سے برطانیہ میں امریکی سفیر کا گھر ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب کسی امریکی صدر کو دوسری بار برطانیہ کے سرکاری دورے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران بھی برطانیہ کا سرکاری دورہ کیا تھا۔
اسٹارمر کے دفتر نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ "یہ دورہ ظاہر کرے گا کہ "برطانیہ اور امریکہ کے تعلقات دنیا میں سب سے مضبوط ہیں، جو 250 سال کی تاریخ پر محیط ہیں۔
(جاری ہے)
"سینیئر امریکی حکام نے پیر کے روز بتایا تھا کہ دورہ برطانیہ کے دوران دونوں ملکوں میں توانائی اور ٹیکنالوجی سے متعلق 10 بلین ڈالر سے زیادہ کے معاہدوں کا اعلان کیا جائے گا۔
توقع ہے کہ دونوں ممالک جوہری توانائی کو بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے ایک معاہدے پر بھی دستخط کریں گے۔
ٹرمپ کے دوسرے دورہ برطانیہ کے ایجنڈے میں مزید کیا ہے؟بدھ کے روز امریکی صدر اور ان کی اہلیہ میلانیا کی برطانوی شاہی محفل ونڈسر کیسل میں دعوت کی ایک شاندار تقریب ہے۔
کنگ چارلس، ملکہ کیملا، پرنس ولیم، اور شہزادی کیتھرین ان کے ساتھ گاڑیوں کے ایک جلوس پر بھی جائیں گے۔ ایک سرکاری ضیافت، فوجی طیاروں کے ذریعے فلائی پاسٹ اور توپوں کی سلامی کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔
جمعرات کے روز اسٹارمر جنوبی انگلینڈ کے دیہی علاقے میں اپنی چیکرز کنٹری رہائش گاہ پر ٹرمپ کی میزبانی کریں گے۔ توقع ہے کہ دونوں رہنما امریکہ کے لیے برطانوی اسٹیل کی درآمدات پر محصولات کے معاملے پر تبادلہ خیال کریں گے۔
مئی میں، لندن اور واشنگٹن نے ایک تجارتی معاہدہ کیا تھا جس میں امریکہ کو کار اور ایرو اسپیس کی درآمدات پر ٹیرف کم کر دیا گیا تھا، لیکن وہ برطانوی اسٹیل کے لیے شرائط کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہے، جو کہ فی الوقت 25 فیصد ٹیرف کے ساتھ مشروط ہے۔
ٹرمپ نے ایئر فورس ون سے ٹیک آف کرنے سے پہلے صحافیوں کو بتایا کہ "میں بھی وہاں تجارت کے لیے جا رہا ہوں۔
وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا وہ تجارتی معاہدے کو تھوڑا سا اور بہتر کر سکتے ہیں۔"انہوں نے مزید کہا کہ "ہم نے ایک معاہدہ کیا ہے، اور یہ بہت اچھا سودا ہے، اور میں ان کی مدد کرنے میں مصروف ہوں۔"
ٹرمپ کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی ہیں، جو نو منتخب برطانوی ہم منصب سے ملاقات کریں گے۔
ٹرمپ کے دورے کے خلاف مظاہروں کا منصوبہامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ برطانیہ کے خلاف احتجاج کے لیے ونڈسر اور وسطی لندن میں مظاہروں کا منصوبہ بنایا گیا ہے
اسٹاپ ٹرمپ کولیشن کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ "ٹرمپ کے لیے سرخ قالین بچھا کر اسٹارمر ایک خطرناک پیغام بھیج رہے ہیں اور یہ چیز برطانیہ میں نسل پرستی میں اضافے کو دیکھتے ہوئے کمیونٹیز کو مدد فراہم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرتی ہے۔
"ٹرمپ کا دورہ برطانیہ ایک عجیب و غریب موقع پر ہو رہا ہے، جب پچھلے ہفتے ہی امریکہ میں برطانیہ کے سفیر پیٹر مینڈیلسن کو جیفری ایپسٹین کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کو ظاہر کرنے والی ای میلز کے سبب برطرف کر دیا گیا تھا۔
ایپسٹین کے ساتھ ٹرمپ کی اپنی دوستی بھی کافی قیاس آرائیوں کا موضوع رہی ہے۔
ٹرمپ کی آمد سے پہلے، مظاہرین نے ایک بڑے بینر کا انکشاف کیا، جس میں ایپسٹین کے ساتھ امریکی صدر کی تصویر تھی، جسے بعد میں ونڈسر کیسل کے ٹاور پر آویزاں کیا گیا۔
اس سلسلے میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد مقامی پولیس نے تصاویر کو "غیر مجاز پروجیکشن" بتا کر اسے "عوامی اسٹنٹ" بھی قرار دیا۔
ادارت: جاوید اختر