ٹرمپ کی دھمکیوں سے کینیڈا کی حکمران پارٹی عوام میں پھر مقبول
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
لاہور:
کینیڈا میں پچھلے نو برس سے قائد لبرل پارٹی، جسٹین ٹروڈو کی حکومت ہے۔بعض غلطیوں سے حکومت مقبول نہ رہی اور دسمبر 24ء میں صرف 20 فیصد مقبولیت رہ گئی۔
اتنی گراوٹ کبھی نہیں آئی تھی جبکہ معاصر کنزرویٹو پارٹی کی 43 فیصد ریکارڈ ہوئی۔ تبھی کینیڈین سیاست میں نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ داخل ہوئے اور متنازع بیانات سے بھونچال پیدا کر دیا.
یہ کہ کینیڈین مال پہ ٹیکس لگیں گے اور کینیڈا کو امریکی ریاست بن جانا چاہیے, ٹروڈو تب تک پارٹی صدارت سے مستعفی ہو چکے تھے مگر انھوں نے بہادری سے ٹرمپ کی دہمکیوں کا جواب دیا۔
لبرل پارٹی نے بھی دلیرانہ موقف اپنایا جس کا عوام نے خیرمقدم کیا, حالیہ جائزوں کے مطابق لبرل پارٹی کی عوام میں مقبولیت38 فیصد ہو چکی جبکہ کنزرویٹو کی 37 فیصد رہ گئی، یوں ٹرمپ نے حکمران جماعت کے نیم مردہ لاشے میں نئی روح پھونک دی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کینیڈا کا فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ
کینیڈا نے فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت میں اپنی کوششیں مزید تیز کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
وزیراعظم مارک کارنے نے کہا ہے کہ ان کا ملک فلسطین اور اسرائیل کے درمیان منصفانہ امن کے قیام کے لیے ہر فورم پر فعال کردار ادا کرے گا۔
کینیڈین وزیراعظم نے کہا کہ وہ اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی اس کانفرنس میں شرکت کریں گے جو فلسطین کے دو ریاستی حل پر غور کے لیے منعقد ہو رہی ہے۔ انہوں نے مغربی کنارے اور غزہ کی علاقائی سالمیت پر زور دیتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی اصولوں کا احترام کرے۔
مارک کارنے نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد کو روکنے کی بھی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل خوراک سے محروم فلسطینی بچوں کے لیے کینیڈا کی جانب سے بھیجی گئی امداد کو روک رہا ہے، جو ایک انسانی المیہ ہے۔
ادھر اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے پر قبضے کی متنازع قرارداد منظور کر لی ہے، جس پر اسلامی ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
اسی دوران تل ابیب میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، جنہوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت سے غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔