اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ +نمائندہ خصوصی) ابوظہبی کے ولی عہد اور ابوظہبی ایگزیکٹو کونسل کے چیئرمین شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان نے آج، وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے ابوظہبی کے ولی عہد کا پرتپاک خیرمقدم کیا اور پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تاریخی اور برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ دو طرفہ ملاقات کے بعد وفود کی سطح پر بھی بات چیت ہوئی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ دونوں ممالک اپنے بہترین سیاسی تعلقات کو باہمی طور پر فائدہ مند اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ میرے حالیہ دورہ ازبکستان کے دوران ازبکستان، افغانستان، پاکستان ریلوے لائن منصوبے پر بات چیت ہوئی، ازبکستان نے بھی اس منصوبے میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اس منصوبے کی بدولت گوادر اور ابوظہبی پورٹس کو فائدہ ہو گا اور یہ منصوبہ اس خطے کے لئے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ وزیراعظم نے ہر مشکل وقت میں ساتھ دینے پر متحدہ عرب امارات کا شکریہ ادا کیا۔ مسلسل اور مضبوط حمایت کو سراہا۔ پاکستان میں اپنے سرمایہ کاری کو وسعت دینے کے لئے امارات کی گہری دلچسپی کی تعریف کی۔ شہباز شریف نے کہا کہ مختلف پاکستانی اداروں اور ابوظہبی پورٹس کے درمیان حالیہ کامیاب سرمایہ کاری کے اقدامات اس مضبوط اور مسلسل بڑھتے ہوئے تعاون کی روشن مثال ہیں۔ ولی عہد شیخ خالد بن محمد بن زاید جو سینئر حکام اور کاروباری رہنماؤں پر مشتمل وفد کے ہمراہ ہیں، نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے لیے متحدہ عرب امارات کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا۔ علاوہز ازیں متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان بینکنگ، کان کنی، ریلویز اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے حوالے سے مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں، اسلام آباد نور خان ایئر پورٹ پر صدر اور وزیر اعظم نے ابوظہبی کے ولی عہد اور ابوظہبی کا استقبال کیا، وزیر اعظم شہباز شریف اور شیخ خالد آپس میں بغل گیر ہوئے، ایک دوسرے کے ساتھ گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ صدر زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور ابوظہبی کے ولی عہد کے درمیان خوشگوار جملوں کا بھی تبادلہ ہوا۔ مہمان کو وزیر اعظم ہائوس آمد پر گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کے لئے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں ابوظہبی کے ولی عہد وزیر اعظم ہائوس سے ایوان صدر گئے جہاں صدر مملکت آصف زرداری نے ابوظہبی کے ولی عہد شیخ  خالد بن محمد بن زید النہیان کو نشان پاکستان عطا کیا، ایوان صدر میں اس حوالے سے تقریب ہوئی۔ ابوظہبی کے ولی عہد دورہ مکمل کر نے کے بعد واپس لوٹ گئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے مہمان کو رخصت کیا۔ 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ابوظہبی کے ولی عہد متحدہ عرب امارات اور ابوظہبی شہباز شریف کے درمیان

پڑھیں:

وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحب نے عافیہ صدیقی کیس میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ میں اس حکم کو جیوڈیشل ایکٹیوازم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، بہرحال یہ عدالتی اختیار اور دائرہ کار کا معاملہ ، اس پر جنھیں نوٹس ہوا ہے۔

 ان کے وکلا ہی مقررہ تاریخ پیشی پر کوئی بات کریں گے ، البتہ دیگر پہلو پر بات ممکن ہے ، مثلاً عافیہ صدیقی کسی پاکستانی جیل میں قید نہیں ہیں۔ وہ امریکا کی جیل میں قید ہیں۔ امریکا کی عدالت نے انھیں 86سال قید کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ وہاں پاکستان کا کوئی حکم نہیں چلتا۔البتہ سفارت کاری ہوسکتی ہے جو ہوتی بھی رہتی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2024میں وزیر اعظم شہباز شریف نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکی صدر بائیڈن کو خط لکھا تھا۔ لیکن شاید امریکی صدر نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی عافیہ صدیقی کو رہا کیا گیا ۔ اسلا م آباد ہائی کورٹ کے بار بار پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس خط کا امریکی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد محترم جج صاحب نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے تمام غیر ملکی دوروں کی تفصیلات مانگ لیں۔ اب انھوں نے وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں امریکا اور پاکستان کے درمیان کیسے تعلقات ہیںیا تعلقات کیسے ہونے چاہیے، یہ طے کرنا حکومت کا آئینی مینڈیٹ ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کب امریکی صد ر کو کسی ایشو کے حوالے سے کوئی خط لکھنا چاہتے ہیں اور کب نہیں لکھنا چاہتے، یہ طے کرنا بھی حکومت کا مینڈیٹ ہوتا۔ یہ دو ممالک کے سفارتی تعلقات پر منحصر ہوتا ہے کہ کس حد تک بات کرنی یا نہیں کرنی ہے۔ کسی ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کسی دوسرے آئینی ادارے کو ہدایات دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پاکستان امریکا کے تعلقات کیسے ہوںگے؟ ایک دوسرے کے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟ یہ طے کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔

 ہمارے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے جذبات قابل قدر ہیں۔ ہماری یہ خواہش کہ امریکی حکومت ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو رہا کر دے، قابل تحسین ہے۔ لیکن امریکا کا نظام ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے ۔

وزیر اعظم پاکستان نے عدالتی حکم کو مانتے ہوئے امریکی صدر کو خط لکھ دیا۔ اب امریکی صدر نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اب کیا کیا جاسکتا ہے؟ کیا وزیر اعظم پاکستان کو قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ توہین عدالت کے نوٹس وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو جاری ہو گئے ہیں۔ ان کے دوروں کی تفصیلات بھی مانگ لی گئی ہیں۔ ظاہر یہ قانونی کارروائی کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچے گی۔

عافیہ صدیقی کی طرح بہت سے پاکستانی دوسرے ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کے معاملات سفارتی سطح پر دیکھے جاتے ہیں۔ سفارت خانے ان سے جیلوں میں ملاقات بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ سلوک وہاں کی حکومتیں اپنے قوانین کے مطابق کرتی ہیں۔ان پر پاکستان کے قانون لاگو نہیں ہوتے۔

جہاں تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تمام قانونی اخراجات کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے بھی کئی مسائل سامنے آسکتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت پاکستان یہ اخراجات ادا کرے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے قانون میں یہ کہاں لکھا ہے؟ کیا قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود ہے؟ میں نے پہلے بھی کئی بات عرض کیا ہے کہ پاکستان کا قانون یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔ امیر کو غریب پر، اہم کو غیر اہم پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ’’اہم‘‘ کے کیسز اور ’’غیر اہم‘‘ کے کیسز میں فرق نظر آتا ہے۔ اگر قانونی اخراجات ادا کرنے ہیں تو صرف ایک کے کیوں ادا کرنے ہیں، باقی تمام پاکستانیوں کے کیوں نہ ادا کیے جائیں۔

سوال یہی ہے کہ باقی پاکستانیوں کی رہائی کے لیے خط کیوں نہ لکھا جائے؟ میں کوئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف نہیں۔ لیکن میرا مقصد اس اصول کو سامنے رکھنا ہے کہ سب کے لیے یکساں نظام انصاف ۔ بیرون ملک جیلوں میں قید اکثر قیدیوں کے لواحقین کہتے ہیں کہ ان کے لوگ بے قصور اور بے گناہ قید ہیں۔ کیا کسی غیر ملک کا نظام انصاف کسی کے لواحقین کے کہنے پر یقین کرے گا۔ عوامی رائے پر بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عدالت نے قانون اور ثبوت دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔

میں نظام عدل کے انتظامی اختیارات یا معاملات کی بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیو نکہ یہ میرا کام نہیں ہے۔ کوئی جج چھٹی پر تھا یا نہیں،کاز لسٹ چھٹی کی وجہ سے منسوخ ہو چکی تھی۔یا نہیں ، یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اصل معاملہ سسٹم کو ٹھیک رکھنے کا ہے تاکہ پاکستان کے عوام کو یکساں انصاف کے اصول پر انصاف مل سکے۔ پاکستان میں بہت عرصے سے نظام عدل پر تند و تیز باتیں ہوتی چلی آرہی ہیں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ایگزیکٹو کے معاملات میں جتنا ممکن ہوسکے، اتنا اجتناب کیا جانا چاہیے، سفارتی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • امارات میں بچے سے جنسی کے ملزم کو 10 سال قید کی سزا
  • سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کی حمایت پر وزیرِاعظم کا اظہارِ تشکر
  • پاکستان اور چین کے درمیان میری ٹائم تعاون کے نئے باب کا آغاز،معاہدے پردستخط  
  • محسن نقوی کی بنگلہ دیشی وزیر کھیل سے ملاقات، کرکٹ و ایمپائرنگ تعاون پر اتفاق
  • پاکستان اور سعودی عرب کا سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ، دستخط بھی ہوگئے
  • پاکستان اور برطانیہ کے مابین حال ہی میں ہونے والے تجارتی مذاکرات دونوں فریقین کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے ، وزیراعظم شہبازشریف کی برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ سے ملاقات میں گفتگو
  • وزیراعظم شہبازشریف سے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر محترمہ جین میریٹ کی ملاقات
  • وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس
  • پاکستان نے معاہدہ برائے تحفظ سمندری حیاتیاتی تنوع پر دستخط کردیئے