قومی مباحثے میں ماہرین نے پاکستان میں خواتین کو درپیش صحت، تعلیم، روزگار اور سیاسی نمائندگی جیسے شعبوں میں مسائل کے حل کے ضمن میں جینڈر بجٹنگ کو ایک مؤثر ذریعہ قرار دیا ہے۔

جینڈر بجٹنگ کے موضوع پر سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے زیر اہتمام منعقدہ مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ساجد امین جاوید کا کہنا تھا کہ جینڈر بجٹنگ کا مطلب حکومت کی جانب سے بجٹ میں خواتین، مردوں اور کمزور طبقات کی ضروریات کو مدنظر رکھنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا مصنوعی ذہانت بھی صنفی عدم مساوات کا شکار ہے؟

انہوں نے وضاحت کی کہ یہ بجٹ خواتین اور مردوں کے لیے الگ نہیں بلکہ پبلک فنڈز کے منصفانہ استعمال کو یقینی بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ ’اس کا مقصد وسائل کی ایسی منصفانہ تقسیم ہے جس سے صنفی مساوات کو فروغ ملے اور معاشرے کے ہر فرد کو یکساں مواقع اور سہولیات فراہم ہوں۔‘

معروف صحافی سبوخ سید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا تناسب اب بھی کم ہے اور جینڈر بجٹنگ کے ذریعے لڑکیوں کے اسکولز، اسکالرشپس اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:طرزِ تخاطب میں شیری رحمان کی جانب سے صنفی مساوات کی تلقین کیوں؟

انہوں نے ماں اور بچے کی صحت کے مسائل اجاگر کرتے ہوئےکہا کہ جینڈر بجٹنگ سے زچہ و بچہ کی صحت کے مراکز، فیملی پلاننگ اور خواتین کی صحت سے متعلق آگاہی مہموں کے لیے بہتر فنڈنگ ممکن ہے۔

معروف سماجی کارکن راشدہ دوحد کا کہنا تھا کہ جینڈر بجٹنگ کے ذریعے ویمن پولیس اسٹیشنز، گھریلو تشدد کے خلاف سیلز اور خواتین کے لیے شیلٹر ہومز جیسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:ہیما مالنی کا بالی ووڈ میں صنفی عدم مساوات پر تحفظات کا اظہار

انہوں نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ایک کامیاب مثال قرار دیا جو کم آمدنی والی خواتین کو مالی مدد فراہم کرکے انہیں بااختیار بناتا ہے۔

وویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی رکن مائرہ عمران نے جینڈر بجٹنگ کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے میں درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ ڈیٹا اور ریسرچ کی عدم دستیابی اور سیاسی عزم کی کمی ہے۔

مزید پڑھیں:دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق

انہوں نے کہا کہ خواتین کے مسائل کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور بجٹ میں شامل کرنے کی صلاحیت کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس موقع صحافی اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی موجود تھے۔

مباحثے کے اختتام پر شرکا نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان جیسے ملک میں جینڈر بجٹنگ وقت کی اہم ضرورت ہے، جہاں صنفی عدم مساوات ایک سنگین مسئلہ ہے، اس سے نہ صرف خواتین کو برابری کے مواقع ملیں گے بلکہ ملک کی مجموعی ترقی اور استحکام میں بھی اہم کردار ادا ہوگا۔

مزید پڑھیں:

قومی مباحثے کے شرکا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر بجٹ کی تیاری میں محروم طبقات کو مدنظر رکھا جائے اور بجٹ کے صحیح اور مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جینڈر بجٹنگ ڈیٹا راشدہ دوحد ریسرچ سماجی کارکن سول سوسائٹی سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ صحافی قومی مباحثے مائرہ عمران وویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام اباد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ڈیٹا سماجی کارکن سول سوسائٹی صحافی مزید پڑھیں خواتین کو انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے بلائی گئی اے پی سی، اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ

خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے مقصد سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے آج آل پارٹیز کانفرنس طلب کی گئی تاہم اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے جس کے باعث یہ سیاسی اجلاس ایک بار پھر تنازعے کا شکار ہو گیا ہے مسلم لیگ ن جمعیت علمائے اسلام عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مشترکہ طور پر کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے محض نمائشی اور غیر سنجیدہ کوشش قرار دیا ہے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کانفرنسیں عوامی مسائل کا حل نہیں بلکہ سیاسی دکھاوا ہوتی ہیں ان کے مطابق حقیقی مسائل کا حل صرف پارلیمنٹ کے فلور پر نکالا جا سکتا ہے نہ کہ چند گھنٹوں کے نمائشی اجلاسوں میں انہوں نے مزید کہا کہ صرف ایک میز پر بیٹھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے اگر واقعی صوبے کے مسائل حل کرنا ہیں تو اس کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں نہ کہ علامتی اجلاسوں سے کام چلایا جائے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے بھی کانفرنس کو بے مقصد مشق قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف اس کانفرنس کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر بلاتی تو اس پر غور کیا جا سکتا تھا تاہم موجودہ حکومت کی سنجیدگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں دوسری جانب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جو جماعتیں کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہیں وہ دراصل صوبے کے مسائل سے لاتعلق ہیں ان کا کہنا تھا کہ قیام امن صرف حکومت کی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ سب کو اعتماد میں لے وزیراعلیٰ نے کہا کہ جو کانفرنس میں نہیں آنا چاہتا یہ اس کی مرضی ہے لیکن امن و امان کا مسئلہ سب کا ہے اور اسے سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے

متعلقہ مضامین

  • اہلِبیت اطہارؑ کی محبت و عقیدت قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے، علامہ رانا محمد ادریس
  • گوادریونیورسٹی کے وائس چانسلر کا ڈرائیور کوئٹہ سے اغوا، تاوان طلب
  • گریٹر ڈائیلاگ ضرورت، جب بھی آئین سے تجاوز ہوا مسائل بڑھے: حافظ نعیم
  • اے پی این ایس کے وفد کی شرجیل میمن سے ملاقات
  • رجب بٹ کے مسائل کے پیچھے کونسی مشہور شخصیت ہے؟ ٹک ٹاکر کاشف ضمیر نے بتا دیا
  • امریکا میں ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر پابندی سے متعلق اولمپک کمیٹی کا اہم فیصلہ
  • اے پی این ایس کے وفد کی سینئر صوبائی وزیر شرجیل میمن سے ملاقات
  • خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے بلائی گئی اے پی سی، اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ
  • پاکستان کو وائٹ واش کی خفت سے بچنے کا چیلنج درپیش
  • مسائل بندوق سے نہیں، مذاکرات سے حل ہوتے ہیں، ینگ پارلیمنٹری فورم