کوئٹہ: جان محمد روڈ پر بم دھماکہ، 10 افراد زخمی
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
کوئٹہ کے علاقے جان محمد روڈ پر زور دار دھماکہ ہوا جس میں کم از کم 10 افراد زخمی ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں بم دھماکہ، مولانا حامد الحق سمیت متعدد افراد شہید
پولیس کے مطابق دھماکے کے فوراً بعد سیکیورٹی فورسز اور امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ پہنچیں اور زخمیوں کو کوئٹہ سول اسپتال منتقل کردیا۔
ایم ڈی فرما سینیٹر کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں ایک کی حالت تشویشناک ہے جبکہ 9 افراد کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
بم ڈسپوزیبل اسکواڈ کے مطابق دھماکہ خیز مواد موٹرسائیکل میں نصب تھا جس کو ریموٹ کنٹرول سے اڑایا گیا۔
مزید پڑھیے: کوئٹہ دھماکا، ذمے داری کالعدم دہشتگرد تنظیم نے قبول کرلی
عینی شاہدین کے مطابق نماز جمعہ کے آدھے گھنٹے بعد دھماکا ہوا جو اتنا زوردار تھا کہ قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور گردونواح میں گرد پھیل گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد ایک موٹر سائیکل مکمل تباہ دکھائی دی اور اس کے بعد وقوعہ کے آس پاس سراسیمگی پھیل گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ریموٹ کنٹرول بم دھماکا کوئٹہ کوئٹہ بم دھماکا کوئٹہ جان محمد روڈ دھماکا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ریموٹ کنٹرول بم دھماکا کوئٹہ کوئٹہ بم دھماکا کوئٹہ جان محمد روڈ دھماکا
پڑھیں:
کوئٹہ، بلوچستان کے اخباری صنعت سے وابستہ افراد کا احتجاج عید کے دوران بھی جاری
شرکاء کا کہنا تھا اشتہارات کی BPPRA پر منتقلی روکنے اور مقامیت کو اولیت ملنے، اخبار مارکیٹ کے مسائل کے حل تک بلوچستان کی اخباری صنعت احتجاج ختم نہیں کریگی۔ اسلام ٹائمز۔ اخباری صنعت بلوچستان کی تنظیم کی جانب سے عید الاضحیٰ کے دوران بھی پریس کلب کے سامنے علامتی احتجاج جاری رہا۔ علامتی احتجاجی کیمپ میں اخبارات و جرائد کے مدیران اور اخبار مارکیٹ کے نمائندگان موجود رہے۔ شرکاء کا کہنا تھا اشتہارات کی BPPRA پر منتقلی روکنے اور مقامیت کو اولیت ملنے، اخبار مارکیٹ کے مسائل کے حل تک بلوچستان کی اخباری صنعت احتجاج ختم نہیں کرے گی۔ عیدالاضحیٰ کے روز بھی علامتی احتجاجی کیمپ قائم کرنا ہمارے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ علامتی احتجاجی کیمپ کے شرکاء کا کہنا تھا کہ کسی بھی صوبے کا وزیراعلیٰ صوبے کا سربراہ ہوتا ہے اور ہمارا وزیراعلیٰ اپنے ہی صوبے کی اخباری صنعت کے مسائل سننے کو ہی تیار نہیں۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ چند نام نہاد ارسطو اپنے مفادات کی خاطر بلوچستان کی واحد صنعت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت اہل قلم سے بھی بات کرنے کو تیار نہیں، بلوچستان کے پرنٹ میڈیا کی بقاء کی جنگ سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔ چند روز میں احتجاجی تحریک کو مزید وسعت دی جائے گی جس کے ذمہ داروہ چند عناصر ہوں گے۔