پاکستان میں گھروں یا جائیدادوں کی تعمیر کرنے والے بلڈرز کے ذہن میں سب سے پہلا سوال گرے سٹرکچر کی مجموعی لاگت سے متعلق ہوتا ہے۔ تعمیر کا ابتدائی ڈھانچہ، جسے گرے سٹرکچر کہا جاتا ہے، تعمیراتی عمل کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے، جو پلستر، فرش، اور فکسچرز سے پہلے مکمل کیا جاتا ہے۔ کامیاب منصوبہ بندی اور بجٹ کے تعین کے لیے بلڈرز کو گرے سٹرکچر کی لاگت کا صحیح اندازہ ہونا ضروری ہے۔ یہ تفصیلی گائیڈ گرے سٹرکچر کی نوعیت، اس کی اہمیت، لاگت کے تعین میں شامل عوامل، پاکستانی مارکیٹ میں اس کے نرخ، اور لاگت کو کم کرنے کے عملی طریقے بیان کرتی ہے۔
گرے سٹرکچر کیا ہے؟
گرے سٹرکچر کسی بھی عمارت کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے جو عمارت کے تمام ضروری تعمیراتی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی آرائشی یا تکمیلی عناصر شامل نہیں ہوتے۔ یہ بالکل انسانی ڈھانچے (اسکلٹن) کی طرح ہوتا ہے، جس میں فاؤنڈیشن زمین میں جڑی ہوتی ہے، ستون اور بیمز (Beams) عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بناتے ہیں، اینٹوں یا کنکریٹ سے دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں، اور چھت ایک حفاظتی تہہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس مرحلے پر بنیادی پلمبنگ اور بجلی کے نظام بھی شامل کیے جاتے ہیں، لیکن انہیں فعال نہیں کیا جاتا۔
گرے سٹرکچر کے اس ابتدائی مرحلے میں کسی بھی قسم کی آرائش جیسے کہ پینٹ، ٹائلز، کھڑکیاں یا دروازے شامل نہیں ہوتے۔ یہ (gray structure) محض ایک مضبوط بنیاد ہوتی ہے جو بعد میں دیواروں کی تکمیل، پلستر، اور دیگر ضروری تعمیراتی کاموں کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے
گرے سٹرکچر تعمیر میں کیوں اہم ہے؟
جب آپ گھر بنا رہے ہوتے ہیں، تو گرے سٹرکچر شروع میں کچھ خاص دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ آپ کے گھر کا بنیادی ڈھانچہ ہے، جس کے بغیر باقی تمام تعمیر بیکار ہو سکتی ہے۔ اس کی اہمیت درج ذیل وجوہات کی بنا پر ہے:
یہ آپ کے گھر کی ڈھال ہے
پاکستان میں شدید مون سون بارشیں، گرمی کی لہریں اور زلزلے عام ہیں۔ ایک مضبوط گرے سٹرکچر آپ کے گھر کو ان تمام قدرتی عوامل سے محفوظ رکھتا ہے، تاکہ دیواروں میں دراڑیں نہ پڑیں اور فرش لیول رہے۔
اخراجات کم کرنے میں مدد دیتا ہے
اگر آپ شروع میں کم معیار کے مواد یا ناقص کاریگری پر سمجھوتہ کرتے ہیں تو بعد میں چھتوں میں لیکیج، دیواروں میں دراڑیں، اور دیگر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جو زیادہ اخراجات کا سبب بنیں گے۔ ایک معیاری گرے سٹرکچر بعد میں مرمت کے اخراجات سے بچاتا ہے۔
تعمیراتی منصوبے میں لچک فراہم کرتا ہے
اگر آپ کمرے کی ترتیب یا کھڑکیوں کے مقامات میں کوئی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں تو یہ مرحلہ سب سے موزوں ہوتا ہے۔ بعد میں جب پلستر، پینٹ، اور ٹائلز لگ جائیں تو تبدیلیاں مہنگی اور مشکل ہو جاتی ہیں۔
پراجیکٹ کی تکمیل کو وقت پر ممکن بناتا ہے
گرے سٹرکچر میں تاخیر کا مطلب ہے کہ الیکٹریکل، پلمبنگ، اور دیگر تعمیراتی مراحل بھی لیٹ ہوں گے، جس سے پورا منصوبہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے کو جلد اور درست طریقے سے مکمل کرنا گھر کو جلدی آباد کرنے میں مدد دیتا ہے۔
پاکستان میں جہاں موسمی شدت اور بجٹ کی حدود حقیقت ہیں، ایک مضبوط گرے سٹرکچر کی تعمیر نہ صرف ایک اچھا فیصلہ بلکہ ایک ضروری اقدام ہے۔
پاکستان میں گرے سٹرکچر کی لاگت پر اثر انداز ہونے والے عوامل
پاکستان میں گرے سٹرکچر کی تعمیر کی لاگت مختلف عوامل پر منحصر ہے۔ ان میں درج ذیل اہم نکات شامل ہیں:
1.

مقام کا اثر
تعمیراتی مقام لاگت کا سب سے بڑا عنصر ہے۔ لاہور، اسلام آباد، اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں گرے سٹرکچر کی لاگت زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ زمین کی قیمت، مزدوری کے اخراجات، اور تعمیراتی قوانین سخت ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں زمین کی قیمت کم ہو سکتی ہے، لیکن تعمیراتی مواد اور مزدوروں کی ترسیل کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
2. تعمیراتی مواد کا انتخاب
تعمیراتی لاگت کا ایک بڑا حصہ مواد کی قسم پر منحصر ہوتا ہے:
کنکریٹ: اعلی معیار کا کنکریٹ زیادہ مضبوط ہوتا ہے لیکن مہنگا بھی ہوتا ہے۔
اسٹیل ریبار: عمارت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے، لیکن اس کی قیمت عالمی منڈی میں اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی ہے۔
اینٹیں: مٹی کی روایتی اینٹیں مہنگی ہو سکتی ہیں، جبکہ کنکریٹ بلاکس کم لاگت میں دستیاب ہوتے ہیں۔
سیمنٹ: اچھی کوالٹی کا سیمنٹ استعمال کرنے سے بعد میں دراڑوں کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
3. مزدوری کے اخراجات
ماہر مستری، راج مزدور، اور الیکٹریشن زیادہ اجرت لیتے ہیں، لیکن ان کا کام معیاری ہوتا ہے۔ کراچی جیسے شہروں میں مزدوری کے نرخ زیادہ ہوتے ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں کم مزدوروں کی دستیابی کے باعث مزدوری لاگت کم ہو سکتی ہے۔
4. ڈیزائن کی پیچیدگی
سادہ اور سیدھی عمارت کی تعمیر کم لاگت میں ممکن ہے، جبکہ پیچیدہ ڈیزائن، اضافی فلور، اور مخصوص آرکیٹیکچرل ڈیزائن لاگت بڑھا سکتے ہیں۔
پاکستان میں گرے سٹرکچر کی اوسط لاگت
مارکیٹ کے تجزیے کے مطابق، پاکستان میں گرے سٹرکچر کی لاگت عام طور پر درج ذیل ہوتی ہے:
فی مربع فٹ لاگت
کم قیمت: 1,800 روپے فی مربع فٹ
درمیانی قیمت: 2,150 روپے فی مربع فٹ
اعلی معیار: 2,500 روپے فی مربع فٹ
فی مرلہ لاگت
گھر کا سائز
مربع فٹ
کم قیمت (PKR)
درمیانی قیمت (PKR)
اعلی قیمت (PKR)
5 مرلہ
1,125
2,025,000
2,418,750
2,812,500
10 مرلہ
2,250
4,050,000
4,837,500
5,625,000
1 کنال
4,500
8,100,000
9,675,000
11,250,000

لاگت کو کم کرنے کے طریقے
ڈیزائن کو سادہ رکھیں – پیچیدہ ڈیزائن زیادہ لاگت کا سبب بنتے ہیں۔
مقامی مواد استعمال کریں – مقامی طور پر دستیاب اینٹیں اور سیمنٹ کم لاگت میں دستیاب ہوتے ہیں۔
منصوبہ بندی بہتر کریں – غیر ضروری تاخیر سے بچنے کے لیے تعمیراتی شیڈول پر عمل کریں۔
یہ رہنما آپ کو بہتر فیصلہ کرنے میں مدد دے گی تاکہ آپ کا گرے سٹرکچر مضبوط اور بجٹ کے مطابق ہو۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے اخراجات فی مربع فٹ کی تعمیر ہوتے ہیں ہوتا ہے ہو سکتی لاگت کا ہوتی ہے کے لیے

پڑھیں:

انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں  ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے  درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے   موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے  ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔

متعلقہ مضامین

  • ملک بھر کے صارفین کیلیے بجلی مہنگی ہونے کا امکان
  • عوام پر مزید بوجھ؛ کراچی سمیت ملک بھر کے صارفین کیلیے بجلی  مہنگی ہونے کا امکان
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • سیاست کو کھیلوں سے الگ رکھنا ضروری ہے، محمد فیصل
  • وزیراعلیٰ سندھ کی آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھنے اور غیر ضروری مہنگائی روکنے کی ہدایت
  • ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • فنگر پرنٹس کے مسئلے سے دوچار معمر افراد کیلئے فیس ریکگنیشن لارہے ہیں: ترجمان نادرا
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • ہڈیوں کو مضبوط بنانے کیلئے دہی کھانے کا بہترین وقت کونسا ہوتا ہے؟