Express News:
2025-11-04@04:36:56 GMT

بانی کے خط میں کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

ہم حیران ہیں، پریشان ہیں، خامہ بدندان اورناطقہ سربگریبان بھی ہیں بلکہ دل بھی دھڑک رہا ہے اورجگر بھی پھڑک رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے ، بات ہی کچھ ایسی بنتی ہے کہ سارے وجود میں سنسنی ہے ، آخر ’’بانی‘‘ کے خط میں ایسا کیا ہے اورایک خط میں ایسا کیا ہوسکتا ہے کہ حکومت کی ٹانگیں کانپنے لگی ہیں ، رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں اورہاتھ پیر لرزنے کانپنے لگے ہیں ؎

 کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

 بلکہ حکومت کانپ بھی رہی اوراس خبر کا ذریعہ بھی کوئی ایسا ویسا نہیں ہے، بڑا ہی باوثوق ثقہ اورسچا ذریعہ ہے یعنی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات و بیانات اورتعلقات عامہ وخاصہ جناب علامہ ڈاکٹر پروفیسر انجینئر بیرسٹر ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے جب بھی بولتے ہیں، سچ بولتے ہیں اورسچ کے سوا کچھ نہیں بولتے، وہ بھی کسی سیتا ،گیتا ببیتا ،نویتا ، انیتا، ہیمامالنی ، شرمیلاٹیگور، دیپکا،ودیا اوربپاشا پر ہاتھ رکھے بغیر، چونکہ وہ کم کم بہت ہی کم کم بولتے ہیں اورشاذونادر اورکبھی کبھار بولتے ہیں، اس لیے سچ ہی سچ بولتے ہیں۔ اوریہ انھی نے کہا ہے کہ ’’بانی‘‘ کے خط سے حکمرانوں کی ٹانگیں کانپنے لگی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ تو ہو نہیں سکتا جس کاذکر اخباروں میں آیا ہے کیوں کہ یہ تو باتیں ہیں اورباتوں سے تو کوئی کانپتا لرزتا نہیں ۔

تو خیر انھوں نے اس جام جمشید یاآئینہ سکندری میں دیکھ لیا ہوگا جو خالص ان کی ایجاد ہے لیکن اس خط میں ایسا کیا ہے اوراس کا ہمیں یقین اس لیے بھی ہے کہ اس خبر بلکہ بیان کی کمپوزنگ کرتے ہوئے کمپوزر کے بھی ہاتھ کانپ رہے ہوں گے کیوں کہ اس نے شراب سیخ پہ ڈالی ، کباب شیشے میں کہ ٹانگیں کانپنے کی جگہ کانپیں ٹانگنے ، کمپوزہوگیا ہے یعنی کمپوزکرتے ہوئے اس کے کانپ ہاتھنے لگے ہوں گے ۔

یہ تو معلوم نہیں کہ بانی نے یہ خط کس کو لکھا ہے کب لکھا ہے کہاں لکھا ہے اورکس چیز پر کس چیز سے لکھا ہے لیکن یقیناً اس خط میں ایسا کچھ ضرور ہے جو حکمرانوں کو ہیروشیما اور ناگاساکی کرنے والاہے دراصل ہمارے محترم معاون خصوصی برائے اطلاعات و بیانات وتعلقات عامہ وخاصہ علامہ ڈاکٹر پروفیسر انجینئر بیرسٹر صاحب عامل کامل بھی ہیں اورعرصہ دراز سے ستاروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اوراس کی پل پل کی خبر رکھتے ہیں بلکہ مخالف سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بارے میں ان کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اتنا خود حکمران بھی اپنے بارے میں نہیں جانتے ہوں گے جتنا صاحب موصوف جانتے ہیں کیوں کہ نہ صرف ان کے ماضی وحال کے بارے میں جانتے ہیں بلکہ ان کے مستقبل اورمستقبل کے غلط اقدامات کے بارے میں بھی جانکاری رکھتے ہیں ، چونکہ ان کی نظر فلکیات اورنجوم پر ہے، اس لیے اس سے بے خبر ہیں کہ برسرزمین حکمرانوں نے کیاکیاکرڈالا ہے اورکررہے ہیں جب کہ کے پی کے حکمران ابھی ’’بیانات‘‘ کے مرحلے میں ہیں اوردسترخوان پر بھوکے بٹھانے اورنوالوں کے منہ ڈھونڈنے میں مصروف ہیں ۔

ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز

 ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں

وہ دونوابوں کے ملازمین کے بارے میں تو ہم کہیں بتاچکے ہیں کہ ایک نواب کاملازم بازار سے دہی لے کر بھی آگیاتھا اوردوسرے نواب کاملازم اتنے عرصے میں صرف جوتے ڈھونڈتا رہا ، یا جنھیں جاناتھا وہ شہر پہنچ بھی گئے تھے اورجن کو جانا نہیں وہ بارش رکنے کا انتظار کھینچ رہے تھے ؎

یاران تیز گام نے منزل کو جا لیا

ہم محو نالہ جرس کارواں رہے

 خیر ان باتوں کو اسپرین کی گولی مارئیے، اصل مسئلہ اس خط کا ہے جو بانی نے کسی کو لکھا ہے اورلوگ اسے پڑھنے سے پہلے کانپنے لرزنے لگے ہیں کیوں کہ ہمارا جہاں تک قیاس ہے یہ خط بانی (اس ملک میں بہت کچھ کے بانی مبانی) نے یہ خط حکمرانوں کو تو نہیں لکھا ہوگا اورجب ان کو لکھا ہی نہیں گیا ہے تو وہ کانپ اورلرزکیوں رہے ہیں ۔

 اب پھر ہمارے سامنے یہ سوال کھڑا ہے کہ اس خط میں ایسا کیا ہے ، کیا اس خط سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے یا دھوئیں کی لکیریں اٹھ رہی تھیں جو انھوں نے لاہور سے دیکھ لیں اورلگے کانپنے لرزنے۔

 ویسے محترم معاون خصوصی برائے اطلاعات وبیانات وتعلقات عامہ وخاصہ جناب علامہ ڈاکٹر پروفیسر انجینئر بیرسٹر اورعامل کامل کو یقیناً علم ہوگا کہ خط کے اندر کیا ہے اگر ہمیں بھی بتادیتے تو اچھا ہوتا اورہمارے دل میں یوں یوں اورکچھ کچھ نہ ہوتا کہ

 کوئی بمبار ہے آفت ہے بلاہے کیا ہے

 کوئی ایٹم ہے ہائیڈروجن ہے وبا ہے کیاہے

اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں حکمرانوں سے کوئی ہمدردی ہے ، حکمرانوں سے تو ہماری کوئی شناسائی نہیں لیکن نواز شریف سے کچھ کچھ توقعات ہماری تھیں کہ تین تین بار خانہ برانداز چمن ہوگئے تھے لیکن ہمیں جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ تو بھی جھولی کر ۔ کوئی چھوٹا موٹا ایوارڈ ہی دے دیتے ، کوئی بڑا گٹھڑا نہ سہی ہم اس پر بھی خوش ہوجاتے

گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ برانداز چمن کچھ توادھر بھی

بخدا اگر ہمیں کچھ یاکسی کچھ کا کچھ بھی بنا دیتے تو بھی ہمارا گلا کچھ ترہوجاتا ۔ کم ازکم یہ جو اس نے اپنے گرد جمع کیے تھے، ان سے ہم زیادہ کام کے نکلتے، ہمارے جیسا پرفیکٹ جھوٹ کوئی معاون یامشیر تو کیا وزیر بھی نہ بول پاتا ۔اوراس چھوٹے میاں کو دیکھئیے دودو بار یہ بھی خانہ برانداز چمن ہوگئے اوران کو ذرا بھی خیال نہیں آیا، کہ کبھی فتراک میں ان کے کوئی نخچیر بھی تھا

 مطلب یہ کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ بانی کے اس خط سے کس کس کو کیاکیا ہونے والا ہے کس کے ہاتھ لزرتے ہیں اورکس کی ’’کانپیں ٹانگنے‘‘لگتی ہیں لیکن تھوڑی سی جان کاری ہوجاتی تو ذرا تسلی ہوجاتی ؎

ابر، شفق ،مہتاب ،ہوائیں بجلی تارے نغمے پھول

 اس دامن میں کیاکیا کچھ ہے وہ دامن ہاتھ میں آئے تو

 ایک بار پھر بتادیں کہ یہ وہ خط تو ہرگزہوسکتا جس کا اخباروں میں ذکر آیا بلکہ یہ کوئی اوربلائے آسمانی ہے

قاطع اعمار ہیں اکثر نجوم

وہ بلائے آسمانی اورہے

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خط میں ایسا کیا کے بارے میں بولتے ہیں لکھا ہے کیوں کہ کیا ہے ہیں کہ

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تجدید وتجدّْ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • ایشوریا رائے ایسا کیا کرتی ہیں کہ 52سال کی عمر میں بھی ان کے حسن کا چرچا برقرار ہے؟
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا