ہم حیران ہیں، پریشان ہیں، خامہ بدندان اورناطقہ سربگریبان بھی ہیں بلکہ دل بھی دھڑک رہا ہے اورجگر بھی پھڑک رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے ، بات ہی کچھ ایسی بنتی ہے کہ سارے وجود میں سنسنی ہے ، آخر ’’بانی‘‘ کے خط میں ایسا کیا ہے اورایک خط میں ایسا کیا ہوسکتا ہے کہ حکومت کی ٹانگیں کانپنے لگی ہیں ، رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں اورہاتھ پیر لرزنے کانپنے لگے ہیں ؎
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
بلکہ حکومت کانپ بھی رہی اوراس خبر کا ذریعہ بھی کوئی ایسا ویسا نہیں ہے، بڑا ہی باوثوق ثقہ اورسچا ذریعہ ہے یعنی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات و بیانات اورتعلقات عامہ وخاصہ جناب علامہ ڈاکٹر پروفیسر انجینئر بیرسٹر ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے جب بھی بولتے ہیں، سچ بولتے ہیں اورسچ کے سوا کچھ نہیں بولتے، وہ بھی کسی سیتا ،گیتا ببیتا ،نویتا ، انیتا، ہیمامالنی ، شرمیلاٹیگور، دیپکا،ودیا اوربپاشا پر ہاتھ رکھے بغیر، چونکہ وہ کم کم بہت ہی کم کم بولتے ہیں اورشاذونادر اورکبھی کبھار بولتے ہیں، اس لیے سچ ہی سچ بولتے ہیں۔ اوریہ انھی نے کہا ہے کہ ’’بانی‘‘ کے خط سے حکمرانوں کی ٹانگیں کانپنے لگی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ تو ہو نہیں سکتا جس کاذکر اخباروں میں آیا ہے کیوں کہ یہ تو باتیں ہیں اورباتوں سے تو کوئی کانپتا لرزتا نہیں ۔
تو خیر انھوں نے اس جام جمشید یاآئینہ سکندری میں دیکھ لیا ہوگا جو خالص ان کی ایجاد ہے لیکن اس خط میں ایسا کیا ہے اوراس کا ہمیں یقین اس لیے بھی ہے کہ اس خبر بلکہ بیان کی کمپوزنگ کرتے ہوئے کمپوزر کے بھی ہاتھ کانپ رہے ہوں گے کیوں کہ اس نے شراب سیخ پہ ڈالی ، کباب شیشے میں کہ ٹانگیں کانپنے کی جگہ کانپیں ٹانگنے ، کمپوزہوگیا ہے یعنی کمپوزکرتے ہوئے اس کے کانپ ہاتھنے لگے ہوں گے ۔
یہ تو معلوم نہیں کہ بانی نے یہ خط کس کو لکھا ہے کب لکھا ہے کہاں لکھا ہے اورکس چیز پر کس چیز سے لکھا ہے لیکن یقیناً اس خط میں ایسا کچھ ضرور ہے جو حکمرانوں کو ہیروشیما اور ناگاساکی کرنے والاہے دراصل ہمارے محترم معاون خصوصی برائے اطلاعات و بیانات وتعلقات عامہ وخاصہ علامہ ڈاکٹر پروفیسر انجینئر بیرسٹر صاحب عامل کامل بھی ہیں اورعرصہ دراز سے ستاروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اوراس کی پل پل کی خبر رکھتے ہیں بلکہ مخالف سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بارے میں ان کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اتنا خود حکمران بھی اپنے بارے میں نہیں جانتے ہوں گے جتنا صاحب موصوف جانتے ہیں کیوں کہ نہ صرف ان کے ماضی وحال کے بارے میں جانتے ہیں بلکہ ان کے مستقبل اورمستقبل کے غلط اقدامات کے بارے میں بھی جانکاری رکھتے ہیں ، چونکہ ان کی نظر فلکیات اورنجوم پر ہے، اس لیے اس سے بے خبر ہیں کہ برسرزمین حکمرانوں نے کیاکیاکرڈالا ہے اورکررہے ہیں جب کہ کے پی کے حکمران ابھی ’’بیانات‘‘ کے مرحلے میں ہیں اوردسترخوان پر بھوکے بٹھانے اورنوالوں کے منہ ڈھونڈنے میں مصروف ہیں ۔
ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز
ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں
وہ دونوابوں کے ملازمین کے بارے میں تو ہم کہیں بتاچکے ہیں کہ ایک نواب کاملازم بازار سے دہی لے کر بھی آگیاتھا اوردوسرے نواب کاملازم اتنے عرصے میں صرف جوتے ڈھونڈتا رہا ، یا جنھیں جاناتھا وہ شہر پہنچ بھی گئے تھے اورجن کو جانا نہیں وہ بارش رکنے کا انتظار کھینچ رہے تھے ؎
یاران تیز گام نے منزل کو جا لیا
ہم محو نالہ جرس کارواں رہے
خیر ان باتوں کو اسپرین کی گولی مارئیے، اصل مسئلہ اس خط کا ہے جو بانی نے کسی کو لکھا ہے اورلوگ اسے پڑھنے سے پہلے کانپنے لرزنے لگے ہیں کیوں کہ ہمارا جہاں تک قیاس ہے یہ خط بانی (اس ملک میں بہت کچھ کے بانی مبانی) نے یہ خط حکمرانوں کو تو نہیں لکھا ہوگا اورجب ان کو لکھا ہی نہیں گیا ہے تو وہ کانپ اورلرزکیوں رہے ہیں ۔
اب پھر ہمارے سامنے یہ سوال کھڑا ہے کہ اس خط میں ایسا کیا ہے ، کیا اس خط سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے یا دھوئیں کی لکیریں اٹھ رہی تھیں جو انھوں نے لاہور سے دیکھ لیں اورلگے کانپنے لرزنے۔
ویسے محترم معاون خصوصی برائے اطلاعات وبیانات وتعلقات عامہ وخاصہ جناب علامہ ڈاکٹر پروفیسر انجینئر بیرسٹر اورعامل کامل کو یقیناً علم ہوگا کہ خط کے اندر کیا ہے اگر ہمیں بھی بتادیتے تو اچھا ہوتا اورہمارے دل میں یوں یوں اورکچھ کچھ نہ ہوتا کہ
کوئی بمبار ہے آفت ہے بلاہے کیا ہے
کوئی ایٹم ہے ہائیڈروجن ہے وبا ہے کیاہے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں حکمرانوں سے کوئی ہمدردی ہے ، حکمرانوں سے تو ہماری کوئی شناسائی نہیں لیکن نواز شریف سے کچھ کچھ توقعات ہماری تھیں کہ تین تین بار خانہ برانداز چمن ہوگئے تھے لیکن ہمیں جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ تو بھی جھولی کر ۔ کوئی چھوٹا موٹا ایوارڈ ہی دے دیتے ، کوئی بڑا گٹھڑا نہ سہی ہم اس پر بھی خوش ہوجاتے
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ توادھر بھی
بخدا اگر ہمیں کچھ یاکسی کچھ کا کچھ بھی بنا دیتے تو بھی ہمارا گلا کچھ ترہوجاتا ۔ کم ازکم یہ جو اس نے اپنے گرد جمع کیے تھے، ان سے ہم زیادہ کام کے نکلتے، ہمارے جیسا پرفیکٹ جھوٹ کوئی معاون یامشیر تو کیا وزیر بھی نہ بول پاتا ۔اوراس چھوٹے میاں کو دیکھئیے دودو بار یہ بھی خانہ برانداز چمن ہوگئے اوران کو ذرا بھی خیال نہیں آیا، کہ کبھی فتراک میں ان کے کوئی نخچیر بھی تھا
مطلب یہ کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ بانی کے اس خط سے کس کس کو کیاکیا ہونے والا ہے کس کے ہاتھ لزرتے ہیں اورکس کی ’’کانپیں ٹانگنے‘‘لگتی ہیں لیکن تھوڑی سی جان کاری ہوجاتی تو ذرا تسلی ہوجاتی ؎
ابر، شفق ،مہتاب ،ہوائیں بجلی تارے نغمے پھول
اس دامن میں کیاکیا کچھ ہے وہ دامن ہاتھ میں آئے تو
ایک بار پھر بتادیں کہ یہ وہ خط تو ہرگزہوسکتا جس کا اخباروں میں ذکر آیا بلکہ یہ کوئی اوربلائے آسمانی ہے
قاطع اعمار ہیں اکثر نجوم
وہ بلائے آسمانی اورہے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خط میں ایسا کیا کے بارے میں بولتے ہیں لکھا ہے کیوں کہ کیا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
لاہور (ویب ڈیسک) تجزیہ نگار انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ بتادی اور ساتھ ہی حکومت پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنادیا۔
اپنے ولاگ میں انیق ناجی کاکہناتھاکہ طویل غیر حاضری کی ایک وجہ بیزاری تھی، ہرروز ایک نئی حماقت،" ن لیگ کیساتھ 34سال رفاقت رہی اور عمران خان کے دور میں بھی اپنی حیثیت کے مطابق مریم نواز اورنوازشریف کوسپورٹ کرتارہا،سمجھتا تھا کہ یہ لوگ نشیب وفراز سے گزرے ہوئے ہیں ، ملک سنبھال سکتے ہیں لیکن جس طرح کی حماقتیں ہوئی ہیں، اس میں آدمی چپ ہی کرسکتاہے،
نوازشریف کے بارے میں تو اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ غلام اسحاق خان ،فاروق لغاری ہو یا پھر پرویز مشرف ہو، سیاسی طور پر انہیں کوئی ختم نہیں کرسکالیکن جو حال ان کیساتھ ان کے خاندان نے کیا ہے ، وہ دیکھ کر ہی دکھ ہوتا ہے کہ وہ آدمی نہ ہنس سکتا ہے اور نہ رو سکتا ہے، آج کسی کا سامنا نہیں کرسکتا، انہیں لندن میں پی ٹی آئی کے لوگ برا بھلا کہتے رہے لیکن اس نے کبھی جواب نہیں دیا، اب کسی سے ملنے کے قابل بھی نہیں رہا۔
سی ایم پنجاب گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت ای بائیکس کی رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ
ان کا مزید کہناتھاکہ مریم نواز نے جو پنجاب میں مظاہرہ کیا، ہر روز ایک نئی حماقت، ذاتی اور گھریلوملازمین کو اپنے اردگرد رکھا ہواہے جن کا نہ کوئی آگے ہے اور نہ کوئی پیچھے،صرف مسلم لیگ ن سے تعلق کے علاوہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں، ان کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا، بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا، ن لیگ کے اپنے لوگ بھی حیران پریشان ہیں ، وہ قیادت سے ملنے کی درخواستیں کیا کرتے تھے،اب منہ چھپا رہے ہیں کہ کہیں تصویر بنوانے کے لیے بلوا نہ لیں، اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں نکلنے کے قابل نہیں رہے، آپ کو وہ سرکاری ہسپتال بھی یا دہوگاجہاں میڈم منہ چھپا کر گئی تھیں اور پھر تقریر کی تھی کہ امیرآدمی تو بیرون ملک چلاجاتاہے لیکن عام آدمی کیا کرے، میں تو ایک عام شہری کی طرح یہاں آئی ہوں، کونسا عام آدمی ہوتا ہے جو 20گاڑیوں کیساتھ سرکاری ہسپتال جاتاہے؟
اداکارہ عائشہ عمر کے شو لازوال عشق پر عوامی اعتراضات، پیمرا کا ردعمل
لیکن بس خیال ہے کہ لوگ اس طرح ساتھ آجائیں گے، مریم اورنگزیب صاحبہ بھی بھیس بدل کر چھاپے مار رہی ہیں ، کیمرہ مین اور پولیس اہلکار بھی ساتھ ہیں، لب و لہجہ ہی ایسا ہے ، نہ اردو آتی ہے اور نہ صحیح سے انگریزی، اداکاری ہورہی ہے ، چھوٹے چھوٹے کھانے کے پیکٹس پر بھی اپنی تصویر، بیزاری اور ولاگنگ سے دوری کی وجہ بھی یہی ہے ۔
مزید :