ٹرمپ اور زیلنسکی میں تلخ کلامی پر روس اور یورپی رہنماؤں کا ردعمل سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں تلخ کلامی اور تکرار پر روس اور یورپی رہنماؤں کا ردعمل سامنے آگیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روس کی سیکیورٹی کونسل کی ڈپٹی چیئرمین دیمتری میدویدیف نے کہا ہے کہ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس میں ایک "زوردار تھپڑ" لگا جو ان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی علامت ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات تلخ کلامی میں بدل گئی
روسی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے مزید کہا کہ زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں یہ جھوٹ بولا کہ 2022 میں کیف حکومت عالمی حمایت کے بغیر اکیلی کھڑی تھی جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔
روسی وزارت خارجہ کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب جے ڈی وینس کا تحمل حیران کن تھا، انہوں نے زیلنسکی کے جھوٹے بیانات پر کسی قسم کا کوئی سخت ردعمل نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں: تلخ کلامی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرینی صدر کو وائٹ ہاؤس سے چلتا کر دیا
دوسری جانب یورپی رہنماؤں نے زیلنسکی کے موقف کی حمایت کی ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ یوکرین یورپ اور جرمنی پر انحصار کر سکتا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ جرمنی، یوکرین کو درپیش چیلنجز میں اس کا ساتھ دے گا اور یورپی اتحاد اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائٹ ہاؤس تلخ کلامی ٹرمپ اور
پڑھیں:
ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران نے امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات شروع کرنے کے فیصلے کو دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ واشنگٹن کا یہ اقدام نہ صرف غیر ذمے دارانہ ہے بلکہ عالمی استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ بھی پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی ہزاروں ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے، جب دوبارہ تجربات کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو ایک نئے خطرناک دوڑ کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا اپنے عسکری مفادات کے لیے عالمی قوانین اور عدمِ پھیلاؤ کے معاہدوں کو مسلسل پامال کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکا کو شرپسند ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو کر طاقت کے زعم میں مبتلا ہے، وہ انسانیت اور عالمی امن دونوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
ایران نے عالمی برادری خصوصاً اقوامِ متحدہ اور جوہری توانائی ایجنسی سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکا کے اس خطرناک فیصلے کا فوری نوٹس لیں اور ایسے اقدامات کو روکنے کے لیے عملی کردار ادا کریں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 33 سال بعد ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا اپنے جوہری اثاثوں کی جانچ برابری کی بنیاد پر فوری طور پر شروع کرے گا تاکہ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے ایٹمی پروگراموں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
برطانوی ذرائع کے مطابق واشنگٹن نے اس فیصلے کو قومی سلامتی کی ضرورت کے طور پر پیش کیا ہے، تاہم عالمی سطح پر اس پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق اگر امریکا نے واقعی جوہری تجربات بحال کیے تو یہ سرد جنگ کے دور کی یاد تازہ کر دے گا اور دنیا ایک نئی ہتھیاروں کی دوڑ میں داخل ہو سکتی ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد دیگر ایٹمی ریاستیں بھی اپنے تجربات تیز کر سکتی ہیں، جس سے عالمی امن، ماحول اور انسانی بقا پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔