WE News:
2025-04-25@11:53:13 GMT

میرا یہ حال کیوں ہوا؟ 

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

تصور کیجیے کہ آپ ایک سرنگ میں ہیں اور آپ کو وقفے وقفے سے آکسیجن مل رہی ہے۔ جس وقفے میں آکسیجن نہیں ملتی آپ کی طبعیت بگڑنے لگتی ہے۔ آکسیجن کی بحالی آپ کو پھر سے تازہ دم کرتی ہے۔

لیکن پھر آکسیجن نہ ملنے کا دورانیہ بڑھنے لگتا ہے، آپ کی سانس تنگ ہونے لگتی ہے، ذہن پر غنودگی چھانے لگتی ہے۔ آپ جلد از جلد سرنگ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں لیکن سرنگ کا راستہ کچھ ایسا پیچدار ہے کہ چاہنے کے باوجود فوراً نکلنا ممکن نہیں۔

آکسیجن کی سپلائی کم سے کم ہوتی جاتی ہے، دماغ کی غنودگی بڑھتی جاتی ہے لیکن کوئی سد باب نہیں کیا جاتا۔

آپ کو دور سے ایک آواز آتی ہے، اس راستے سے نکلنا مشکل لگ رہا ہے۔ کیا ہم دوسرے راستے سے نکالیں اس مسافر کو؟

آپ کہنے کی کوشش کرتے ہیں، پلیز جلدی کرو، میرا سانس گھٹ رہا ہے، میرے جسم سے قطرہ قطرہ جان نکل رہی ہے۔

لیکن دور سے کئی اور آوازیں آتی ہیں۔

کیوں؟

ابھی تک تو سب ٹھیک تھا؟

یہ کیا بات ہوئی؟

سب لوگ آخر نکل ہی آتے ہیں اس سرنگ سے؟ پھر یہ کیوں نہیں؟

نہیں، ہمیں دوسرا راستہ قبول نہیں، یہیں سے نکالیے۔

آپ یہ سب سن کر کراہتے ہیں، پلیز، میں مشکل میں ہوں، ہمت نہیں ہے مجھ میں۔ میرا ذہن ماؤف ہو رہا ہے۔ خدارا دوسرے راستے سے مجھے باہر نکال لو، ورنہ میں مر جاؤں گا۔

آپ کی فریاد پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ باہر موجود سب لوگوں کی منشا یہ ہے کہ آپ اسی سرنگ سے باہر نکلیں۔

یہ بھی پڑھیں: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق

آخر کار آپ کو کرین کی مدد سے کھینچنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایک اوزار آپ کے سر پر لگا دیا جاتا ہے جو آپ کے سر کی جلد کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے۔ اس اوزار کے ساتھ ایک رسی بندھی ہوتی ہے۔ اس رسی کو سرنگ کے باہر کھڑے ہوئے لوگ پکڑ کر کھینچتے ہوئے آپ کو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہر بار آپ تھوڑا سا اپنی جگہ سے سرکتے ہیں۔ آکسیجن کی سپلائی مزید کم ہو چکی ہے، آپ ہاتھ پاؤں چھوڑ چکے ہیں، جسم ڈھیلا پڑ چکا ہے، آپ زندگی اور موت کی سرحد پر کھڑے ہیں۔

اوزار سے کھنچتے کھنچتے بالآخر آپ سرنگ سے باہر نکل آتے ہیں لیکن آپ نیم بے ہوشی میں ہیں۔ جسم کی رنگت نیلی پڑ چکی ہے۔ آپ نہ تو آنکھیں کھولتے ہیں اور نہ ہی کچھ بولتے ہیں۔ آپ کو فرسٹ ایڈ دی جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ آپ کی سانس بحال ہونا شروع ہوتی ہے لیکن جسم پھر بھی نڈھال رہتا ہے۔

اردگرد والے خوشی سے بے حال ہیں کہ آپ سرنگ سے باہر نکل آئے ہیں اور متبادل راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ لیکن آپ کی بھوک پیاس ختم ہو چکی ہے، باتیں کرنا، ہنسنا کھلکھلانا آپ کے لیے مشکل ہوچکا ہے۔

دن گزرتے ہیں اور آپ بہتر ہوتے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی آپ وہ نہیں جو سفر سے پہلے تھے۔ سفر میں آکسیجن کی کمی اور سفر کی طوالت نے آپ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آپ کا دماغ اب ویسے کام نہیں کرتا جیسے کرنا چاہیے تھا اور دماغ کے سست پڑ جانے کا اثر جسم پر بھی نظر آتا ہے۔

مزید پڑھیے: اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟

آپ کو ڈاکٹرز کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ کسی کی تشخیص آٹزم ہے تو کوئی مرگی تجویز کرتا ہے۔ کوئی آپ کو کم آئی کیو کے خانے میں ڈالتا ہے تو کسی کے نزدیک آپ کو سی پی cerebral palsy ہے۔ جو بھی ہو لیکن کسی بھی تشخیص کا علاج اب آپ کو اس حالت میں واپس نہیں لے جا سکتا جس میں آپ سرنگ کے سفر سے پہلے تھے۔ اب آپ کی زندگی نارمل لوگوں سے مختلف طریقے سے گزرے گی، جدوجہد میں، علاج میں، بہت سی مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں۔

آپ سوچتے ہیں میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اگر سرنگ میں آکسیجن کی کمی ہو گئی تھی تو مجھے متبادل راستہ کیوں فراہم نہیں کیا گیا؟ سرنگ سے نکلنا ہی کیوں ضروری تھا؟ کیا سرنگ سے نکلنے میں مجھے کوئی میڈل ملا یا نکالنے والوں کو؟ میری زندگی ادھوری کیوں بنا دی گئی؟

سوچیے ایک ہی ماں باپ کے گھر پیدا ہونے والے بچے زندگی کی دوڑ میں ایک جیسا پرفارم کیوں نہیں کرتے؟

خاص طور پر جب سب کو برابر سہولیات میسر ہوں اور ایک جیسا ماحول۔

کچھ لوگ اس کا جواب جنیاتی عناصر میں ڈھونڈیں گے مگر ایک بہت بڑا عنصر حمل اور زچگی میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟

ماں کا پیٹ وہ غار ہے جہاں ماں کی سوچ، خواہش، خوشی، غم، درد، اضطراب، بے چینی اور بے بسی اس مسافر تک لمحہ بہ لمحہ پہنچتی ہے جو تکمیل کے مراحل میں ہے۔

ماں کیا کھاتی ہے؟ کیا سنتی ہے؟ کیا محسوس کرتی ہے؟ روتی ہے یا ہنستی ہے؟ اس پر کیا گزرتی ہے؟ یہ سب اس پہ بھی گزرتی ہے جو اس کے پیٹ میں ہے اور ایک ایک بات سنتے ہوئے وہ محسوس کرتا ہے، ماں کا ہمدم و رفیق۔

پھر اس غار سے نکلنے کا وقت آتا ہے اور سرنگ کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اگر یہ سفر ہموار ہو تو ستے خیراں لیکن ناہمواری کی صورت میں بچہ بہت سی ایسی چیزیں کھو دیتا ہے جن کو زندگی میں اس کا پوٹینشیل بننا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

اگر نطفہ بننے سے لے کر زچگی تک سب کچھ بہترین ہوتا تو نہ جانے کون آئن اسٹائن بنتا اور کون شیکسپیئر؟ کون غالب ہوتا اور کون ٹیگور؟ کون نوبیل پرائز لیتا اور کون ایجادات میں حصہ لیتا؟

سوچیے!

زچگی کی انجریز injuries اگلی بار!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بچہ پیدائش کا عمل دنیا میں آمد زچگی سرنگ کا سفر کٹھن سفر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بچہ پیدائش کا عمل دنیا میں ا مد زچگی سرنگ کا سفر کٹھن سفر سرنگ سے باہر نکل آکسیجن کی ہیں اور

پڑھیں:

اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ فیصل رحمان نے دلچسپ وجہ بتادی

فیصل رحمان نے نوجوانی میں ہی فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنالی تھی اور شبنم سمیت عمر  میں بڑی کئی سینیئر اداکاراؤں کے ہیرو بھی بنے۔

ہیرو اور ہیروئن کے عمر میں اتنے بڑے خلا کو فیصل رحمان نے اپنی جاندار اور برجستہ اداکاری سے پُر کیا کہ وہ کردار امر ہوگئے۔

نجی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں 58 سالہ فیصل رحمان نے اب تک شادی نہ کرنے کی حیران کن اور دلچسپ وجہ بتادی۔

فیصل رحمان نے کہا کہ شادی نہ کرنے پر ملال نہیں، مجھے آج تک کسی سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور مستقبل میں بھی خود کفیل رہنا چاہتا ہوں۔

محبت میں ناکامی کے باعث شادی نہ کرنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے اداکار فیصل رحمان نے کہا کہ شادی نہ کرنے کی ایک وجہ میرا آزاد خیال ہونا بھی ہے اور نہ ہی میرا دل ٹوٹا ہے۔

اداکار نے حال ہی میں ایک ویب شو میں بطور مہمان شرکت کے دوران اب تک شادی نہ کرنے کی وجہ بتائی ہے۔

فیصل نے بتایا کہ میں زندگی میں کئی لوگوں کے قریب ہوا اور شادی کرنے کا فیصلہ بھی کیا لیکن شادی نہ ہوسکی۔

یاد رہے کہ دو ماہ قبل ایک اور انٹرویو میں شادی نہ ہونے کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ مجھے وعدے کرنے سے ڈر لگتا ہے اس لیے میں ہر بار شادی کرنے کا ارادہ ترک کردیتا ہوں۔

فیصل رحمان نے کہا کہ میرے خیال میں سارے مرد ہی اس طرح کے وعدے کرنے سے ڈرتے ہیں لیکن معاشرے کے دباؤ اور اپنے عدم تحفظ کی وجہ سے شادی کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ زندگی میں کسی ساتھی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ اگر ہم اچھی طرح خود کو پہچان لیں تو ہمیں زندگی میں کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں ہے۔

اداکار نے یہ بھی کہا کہ دو لوگ صرف اس صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ چل سکتے ہیں اگر وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ جائیں اور دونوں ایک ہی جیسی خصوصیات کے حامل ہوں۔

 

متعلقہ مضامین

  • سرنگ دھماکا؛ وزیرداخلہ کا بلوچستان میں 4 ایف سی اہلکاروں کی شہادت پر خراج عقیدت
  • کوئٹہ: بارودی سرنگ کا دھماکا، 4 افراد جاں بحق
  • بھارتی فوجی مودی کو سر عام کوسنے لگے، ویڈیو سامنے آگئی
  • اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ فیصل رحمان نے دلچسپ وجہ بتادی
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • اکلوتا بیٹا ایک کروڑ روپے لیکر رفوچکر یا اغوا؛ سعودیہ سے آئے والد نے مقدمہ درج کرادیا
  • عدالتیں توٹوٹ چکی، اڈیالہ جیل کا دروازہ ٹوٹا تو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے: اعتزاز احسن
  • پنجاب کے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں لانا میرا خواب ہے: مریم نواز
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا