Express News:
2025-04-25@11:19:12 GMT

ہندوستان کا ابھرتا شاعر، نور الحسن نورؔ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

پاکستان اورہندوستان دنیا میں دو ایسے بڑے ملک ہیں جن میں نہ صرف اُردو زبان کا چلن عام ہے بلکہ اِن دونوں ممالک میں اُردو ادبِ عالیہ بھی مسلسل و تواتر سے تخلیق پارہا ہے۔ بلامبالغہ ایسی شخصیات میں ایک نام ہندوستان فتح پورہسوہ سے تعلق رکھنے والے شاعر(جو آج کل ممبئی، مہاراشٹر، ہندوستان میں رہائش پذیر ہیں)، سید نور الحسن نورؔ کا بھی ہوگا جن کی حمد و نعت نگاری اور غزل گوئی کا ایک عالم ابھی سے گرویدہ ہے اور روز بہ روز اُن کے اچھے کلام کے سبب اُن کی شہرت میں اضافہ ہورہا ہے اور اُن کے قارئین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اِس کا ایک سبب یہ بھی نظر آتا ہے کہ اُن کے مجموعہ ہائے حمد و نعت اور غزل تسلسل و تواتر سے شایع ہو رہے ہیں اور وہ اُردو ادب سے تعلق رکھنے والے قارئین، شائقین، ناقدین اور مشاہیر کے ہاتھوں میں پہنچ رہے ہیں اور توجہ سے پڑھے جارہے ہیں، جس سے نور الحسن نورؔ کے کلام کی خوبیاں اُجاگر ہو رہی ہیں اور اُن کی شاعری کے اوصاف سامنے آرہے ہیں، جن کے باعث شاعرِ موصوف کا نام بحیثیت عبقری شاعر اُبھر رہا ہے اور اُردو ادب میں اُن کا مقام بن رہا ہے۔

نور الحسن نور کے اب تک مندرجہ ذیل شعری مجموعے عمدہ طباعت سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آچکے ہیں: شاخِ نوا (غزل)، برگِ سحر (غزل)، ساحلِ توجہ پر (غزل)، تحرک (غزل)، تفرید (غزل)، لمحوں کا سفر (غزل)، سبز حروف (غزل)، دستِ منظر (غزل)، روزن  (غزل)، سورج نکلا ہے (ہائیکو)، سخن زارِ غزلیات (غزل)، رباعیاتِ نور (رباعی)، میزابِ سخن (انتخابِ غزل)

نور الحسن نورؔ کی شاعری تخلیقی جوہر سے مزین ہے۔ وہ ایک بڑے شاعر کے روپ میں اُبھر رہے ہیں، جو شعری اُصولوں اور روایتوں کے امین بھی ہیں اور دینی و دنیاوی علوم سے آشنا بھی۔ وہ شعر وسخن کا مکمل ادراک رکھنے والے مفکر بھی ہیں اور عالمی ادب سے باخبر بھی ہیں۔

وہ اُردو کے سیکولر مزاج کے حامل بھی ہیں اور اُس کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کی نمایاں علامات کے علمبردار بھی۔ آسمانِ ادب کے اِس روشن ستارے پر ہندوستان میں بھی لکھا گیا ہے جس کا ثبوت ہمیں اُن کے شعری مجموعوں پر لکھے گئے پیش لفظ اور دیباچوں سے ملتا ہے۔

معروف شاعر و ادیب، شاعر علی شاعرؔ نے اُن کی غزلیہ شاعری پر ’’سکہ رائج الوقت شاعری ‘‘ کے عنوان سے ایک تنقیدی کتاب لکھی ہے جس میں اُن کے پانچ شعری مجموعے ’’شاخِ نوا، برگِ سحر، ساحلِ توجہ پر، تحرک اور ’’تفرید‘‘ پر تنقید شامل ہے۔

اِس کتاب کے مطالعے ہی سے میںنے نور الحسن نور کی شعری خوبیوںکو جانا ہے اور اب اُن کے عنقریب شایع ہونے والے تازہ شعری مجموعے ’’روزن‘‘ کا مسودہ ملا تو اُن کے کلام سے مزید متاثر ہوا اور لکھنے کی طرف طبیعت مائل ہوئی۔

نور الحسن نورؔ کے تازہ شعری مجموعے ’’روزن‘‘ میں شامل غزلیات پڑھنے کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ غزل ونعت کی آیندہ مسافت و پرداخت اور سمت و اُفتاد کے تعین میں نور الحسن نورؔ کا بڑا حصہ ہوگا اور اُن کے سرمایۂ سخن اُردو ادبِ عالیہ قرار پائے گا جو اُن کے ملک ہندوستان کے لیے خصوصاً اور تمام اُردو کی نئی بستیوں کے لیے عموماً باعثِ فخر ہوگا۔ نور الحسن نورؔ کے تازہ شعری مجموعے ’’روزن‘‘ سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

اسرار کھل رہے ہیں دیارِ جمال کے

روزن کھلا ہُوا ہے حریمِ خیال کا

…٭…

تاجر اُسی کو روشنیوں کا کہا گیا

جس نے کوئی چراغ جلایا نہیں کبھی

…٭…

رواں ہوں گے تو رُکنے کے نہیں ہیں

چھپے ہیں آبشار اِس چشمِ نم میں

…٭…

فرشتے ششدر و حیراں ہیں دیکھ کر عظمت

ملی ہیں خاک کے پتلے کو شہرتیں کیا کیا

…٭…

آج ساقی کے لیے ہے بڑی مشکل درپیش

جس کو دیکھو وہی کہتا ہے اِدھر سے پہلے

نور الحسن نورؔ کی شاعری میں خارجی اور داخلی دونوں رویے نظر آتے ہیں۔ داخلی طور پر وہ تحلیلِ نفسی کے اثر میں ہیں اور خارجی طور پر وہ سماجی اور معاشی نظریات کو قبول کرتے ہیں اور شعرکو زندگی کی تنقید خیال کرتے ہیں جس کی روشنی میں وہ زندگی اور اُس کے نشیب و فراز کو اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں انسانیت کی جو تصویر پیش کرتے ہیں اُس میں رنج و الم اور درد و کرب ایک مسلسل غم زدگی کی کیفیت میں ہے جو قارئین کو متاثرکیے بغیر نہیں رہنے دیتی۔ اُن کے یہاں ایسے تجربات کثرت سے پائے جاتے ہیں جن میں تینوں زمانے ماضی، حال اور مستقبل کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔

اُن کی شاعری میں روایتی تصورات کے پیکر میں جدید اندازِ خیال کے پیکر نظر آتے ہیں اور اجتماعی لاشعور کی تصویریں بھی ملتی ہیں۔ اُن کو ہونے والے تجربات کو اُن کی شاعری سے جانا جاسکتا ہے اور اُن کے عمیق مشاہدات کو بھی اُن کے کلام سے دیکھا جاسکتا ہے۔

اُن کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور وارداتوں کا سایہ بھی اُن کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ نور الحسن نورؔ کی غزل گوئی کی انفرادیت نے اُن کو اُن کے ہم عصر شعرائے اُردو میں معتبر کر رکھا ہے اور اُنہوں نے اُن شعراء کی موجودگی میں اپنی آوازبھی اونچی، الگ اور بلند آہنگ رکھی ہے۔

اُن کے تابناک اُسلوب نے اُنہیں اُردو شاعری میں یہ رتبہ اور اُردو سخن دانوںمیں اعتبار بخشا ہے۔ اِن تمام باتوں کا ثبوت ناقدین او رمشاہیرِ اُردو ادب کو اُن کے تازہ شعری مجموعہ ’’روزن‘‘ میں مل جائے گا۔ ’’روزن‘‘ سے چند اشعار مزید پیشِ خدمت ہیں تاکہ قارئین اُن کی شاعری سے بھی حظ اُٹھاتے رہیں:

ہم ترے عشق کو دے دیں گے کوئی شکل نئی

تیرے جذبات کی تحقیر نہ ہونے دیں گے

…٭…

معلوم ہے مجھے نہ یقیں آئے گا اُسے

رکھ دوں اگر میں قدموں پہ سر بھی اُتار کے

…٭…

حق کے اعلان میں یہ جان جو جاتی ہے تو جائے

کیوں کہ چپ رہنے سے ظالم کی مدد ہوتی ہے

…٭…

ایسے رکھوالوں سے گلشن کو بچا کر رکھنا

جن سے شاخوں پہ گلِ تر نہیں دیکھے جاتے

…٭…

میں نے لفظوں کی نزاکت کو پڑھا ہے برسوں

اہلِ فن اِس لیے فنکار سمجھتے ہیں مجھے

 اُن کی شاعری میں عاشق انتہائی خود دار اور معشوق دل نواز ہے۔ اُن کی شاعری میں معاملاتِ حسن و عشق زمانۂ قدیم والے نہیں بلکہ اُنہوں نے معاملاتِ حسن و عشق کو بھی فی زمانہ دستورِ عشق اور نازِ حسن سے ہم آہنگ کیا ہے۔

شاعر علی شاعرؔ کی تنقیدی کتاب ’’ سکہ رائج الوقت شاعری‘‘ (جو نور الحسن نورؔ کی غزلیہ شاعری کا احاطہ کرتی ہے) سے پاکستان کے تمام شعرائے اُردو اُن سے اور اُن کی شاعری سے اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں، مگر اُن کی شاعری کی کتابیں پاکستان میں دستیاب نہیں ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ شاعرِ موصوف اِس طرف بھی توجہ دیں اور اگر علیحدہ علیحدہ مجموعوں کے پاکستانی ایڈیشن شایع نہ کراسکیں تو تین تین مجموعوں کو ایک ایک جلد میں شامل کرکے کلیاتِ اوّل، دوم اور سوم شایع کرا کے منصہ شہود پر لاسکتے ہیں جن سے اُن کا تمام غزلیہ کلام یکجا بھی ہوتا رہے گا اور پاکستان میں عام قارئین کی دسترس میں آتا بھی رہے گا۔

نور الحسن نورؔ کی نظر نہ صرف اپنے ماحول، معاشرے، ملکی حالات پر ہیں بلکہ وہ بہ نظرِ غائر عالمی ادب کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ خصوصی طور پر جو دنیا کی نئی بستیوں میں اُردو غزل اور حمد و نعت لکھی جا رہی ہے، وہ تمام اُن کے مطالعے میں ہے۔

وہ اکیسویں صدی کے ابتدائی چوبیس برسوں میں برپا ہونے والے مختلف سیاسی، سماجی، اقتصادی، عمرانی، تعلیمی، معاشی اور ادبی انقلابات کے چشم دید گواہ بھی ہیں اور اُس کے شاہد بھی۔ میں اگر یہ لکھوں تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ شاعری کی صورت میں اپنے دورکی تاریخ لکھ رہے ہیں اور اپنے عصر کے حالات و واقعات مرتب کر رہے ہیں۔ وہ آنے والی نسل کو اپنے زمانے کی تاریخ بھی دے جائیں گے اور اُردو ادب کا وقیع سرمایہ بھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا ن کی شاعری میں نور الحسن نور بھی ہیں اور ہونے والے تازہ شعری ہیں اور ا ہے اور ا رہے ہیں اور ا ن یہ بھی

پڑھیں:

برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کیلئے عالمی ایوارڈ

برطانیہ کا یہ معتبر جریدہ ہر سال اُن ماہرینِ طب، محققین اور طبی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، جنہوں نے شعبہ طب میں نمایاں اور مثالی خدمات انجام دی ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی جریدے برٹش میڈیکل جرنل (بی ایم جے) کی جانب سے معروف معالج ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ان کو یہ ایوارڈ جنوبی ایشیا میں طب کے میدان میں گراں قدر خدمات پر دیا گیا ہے۔ برطانیہ کا یہ معتبر جریدہ ہر سال اُن ماہرینِ طب، محققین اور طبی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، جنہوں نے شعبہ طب میں نمایاں اور مثالی خدمات انجام دی ہوں۔ اس اعزازکی پروقار تقریب نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔ جس میں بی ایم جے کے ایڈوائزری بورڈ کے شریک صدر، ڈاکٹر سنجے نگرہ نے اس اعزاز کا اعلان کیا اور پروفیسر ادیب رضوی کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رضوی نے ترقی پذیر ملک پاکستان میں صحت کی فراہمی کا ایک مثالی ماڈل متعارف کروایا، جو حکومت اور معاشرہ  کے درمیان شراکت داری کی بہترین مثال ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ڈاکٹر رضوی کی غیر متزلزل عزم کی تعریف بھی کی، جس کے تحت انہوں نے ہر فرد کو بلا امتیاز ذات، رنگ، نسل یا مذہب، مفت و اعلیٰ معیار کی طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر ادیب رضوی خود اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکے، تاہم انہوں نے انٹرنیٹ رابطہ کے ذریعے حاضرین سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بی ایم جے کے اس اقدام کو سراہا اور میڈیکل ایجوکیشن اور تحقیق کے فروغ میں اس کی خدمات کو شاندار قرار دیا۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کون ہیں؟
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی پاکستان کے معروف طبیب ہیں جو سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ مفت گردوں کی پیوندکاری اور ڈائلیسس کرتا ہے۔ جبکہ 2003ء میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کا کام بھی اس ادارے میں متعارف کیا گیا۔ اس ادارے میں ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض ایس آئی یو ٹی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب نے 11 ستمبر 1938ء میں کلن پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ وہ سرجری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے برطانیہ سے واپسی پر سول اسپتال کراچی میں ملازمت اختیار کی۔ ڈاکٹر ادیب نے طب کے شعبے میں گردوں کے علاج کے لیے بہت گراں قدرخدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے جب سول ہسپتال میں ملازمت اختیار کی تو گردے کے علاج کے لیے 8 بستروں کے وارڈ سے ایک نئے مشن کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ اپنے نوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم جمع کی جن کا مقصد ایک چھوٹے سے وارڈ کو عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس میں تبدیل کرنا اور ہر مریض کا اس کی عزت نفس مجروح کیے بغیر علاج کرنا تھا۔

یوں آج سرکاری شعبے میں قائم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف نیورولاجی اور ٹرانسپلانٹیشن کا شمار دنیا کے اعلیٰ میڈیکل انسٹی ٹیوٹس میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے محض سرکاری گرانٹ پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ نجی شعبے کو بھی اپنے مشن میں شریک کیا۔ یوں سرکاری ادارے میں بغیر کسی فائدے کے نجی شعبے کے عطیات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ معروف سرمایہ کارگھرانے دیوان گروپ کی مالیاتی مدد سے دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس تعمیر ہوا۔ اس میڈیکل کمپلیکس کی زمین حکومت سندھ نے عطیہ کی۔ اس طرح 6 منزلہ جدید عمارت پر 300 بیڈ پر مشتمل کمپلیکس کی تعمیر ہوئی۔ اس کمپلیکس میں متعدد جدید آپریشن تھیٹر، لیکچرز ہال، او پی ڈی وغیرہ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ایک جدید آڈیٹوریم بھی تعمیر کیا گیا۔ نیز گردے کے کینسر کے علاج کے لیے حنیفہ بائی حاجیانی کمپلیکس تعمیر ہوا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے بچوں اور بڑوں میں گردے سے متعلق مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے الگ الگ او پی ڈی شروع ہوئیں اور الگ الگ آپریشن ہونے لگے۔

اس کے ساتھ ہی گردے کی پتھری کو کچلنے کے لیے لیپسو تھریپی کی مشین جو اپنے وقت کی مہنگی ترین مشین تھی ایس آئی یو ٹی میں لگ گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے دو یا تین اسپتالوں میں یہ مشین لگائی گئی تھی جہاں مریضوں سے اس جدید طریقہ علاج کے لیے خطیر رقم وصول کی جاتی تھی مگر سیوٹ میں یہ سہولت بغیر کسی معاوضے کے فراہم کی جاتی تھی۔ اسی طرح گردوں کے کام نہ کرنے کی بنا پر مریضوں کی اموات کی شرح خاصی زیادہ تھی مگر ایس آئی یو ٹی میں ڈائیلیسز مشین لگا دی گئی۔ یوں ناامید ہونے والے مریض اپنے ناکارہ گردوں کی بجائے ڈائیلیسز مشین کے ذریعے خون صاف کرا کے عام زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے گردے کے ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔ انھوں نے ایک تندرست فرد کا گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا جس کا گردہ ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضاء کی پیوند کاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مہم منظم کی۔

متعلقہ مضامین

  • پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں بھارت کا گھناونا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب
  • پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں بھارتی آبی جارحیت کھل کر سامنے آگئی
  • بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، ذرائع
  • سارک کے سابق سیکرٹری جنرل نعیم الحسن کا ٹورنٹو میں انتقال
  • سارک کے سابق سیکرٹری جنرل نعیم الحسن ٹورنٹو میں انتقال کر گئے
  • سارک کے سابق سیکریٹری جنرل نعیم الحسن ٹورنٹو میں انتقال کرگئے
  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کیلئے عالمی ایوارڈ