سابق خاتون سینیٹر پارلیمنٹ لاجز میں 17 لاکھ کے بجلی و گیس کے بل دے کر نہیں گئیں، قائمہ کمیٹی
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
سابق خاتون سینیٹر 17 لاکھ روپے کے بجلی و گیس کے بل ادا کرکے نہیں گئیں، آدھی روٹی ہم کھاتے ہیں آدھی چوہے، پارلیمنٹ لاجز کی حالت زار پر سینیٹرز کمیٹی میں پھٹ پڑے۔
سینٹ ہاؤس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی ڈپٹی چیئرمین سینٹ سیدال خان ناصرکی زیر صدارت منعقد ہوا۔ وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کمیٹی میں اراکین سینیٹ کے سوالوں کے جوابات دیئے۔
اجلاس شروع ہوا تو وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے افسران نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پارلیمنٹ لاجز میں اراکین پارلیمنٹ کی رہائش گاہوں کی مرمت، اے سی لگوانے اور دیگر کاموں کیلئے 48درخواستیں موصول ہوئی ہیں، ہم ان پر کام کررہے ہیں، بارہ تیرہ سینیٹرز کے سویٹس کو رہنے کے قابل بنا دیا ہے، سی ڈی اے تمام کام پیپرا رولز کے مطابق کررہا ہے۔
سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ سی ڈی اے کی جانب سے دی گئی پریذنٹیشن بالکل جھوٹی ہے، سی ڈی اے کا ایک اے ڈی آکر کہتا ہے مجھے صاحب سے ملوائیں، سی ڈی اے کی طرف سے کوئی عملی کام نہیں ہورہا۔
چیئرمین کمیٹی سیدال خان ناصر نے کہا جن لوگوں نے 16 ماہ سے کام نہیں کیا ان کے خلاف آج ایکشن بھی ہوگا۔
سینیٹر پونجھومل بھیل نے کہا پارلیمنٹ لاجز میں صفائی کا نظام بالکل نہ ہونے کے برابر ہے ہر طرف گندگی نظر آتی ہے، سی ڈی اے ڈی جی کا اخلاق بہت اچھا ہے لیکن عملی بالکل صفر ہے۔
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اسپیکر قومی اسمبلی سے کہا ہے اگر آپ سی ڈی اے سے کام نہیں کروانا چاہتے تو ہم کسی اور ادارے کو دے دیں، 104لاجز پر کام شروع ہونے والا ہے، اگر پیسے مل گئے تو 6 ماہ میں کام مکمل کرکے دیں گے، دو دو سال سے ٹھیکے داروں کو پیسے نہیں ملے، اسپیکر صاحب کی ہدایت کے مطابق تمام سینیٹرز کے لاجز ایک ہی مرتبہ مرمت کروالیں، 104 لاجز کا ٹینڈر اگلے دو دن میں ہوجائے گا، چار مہینوں کیلئے لاجز خالی کرکے دیں۔
سینیٹر خلیل طاہر سندھونے کہا کہ ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کی درخواست پر میرا لاج ایک سینیٹر صاحبہ کو دیا گیا، وہ سینیٹر صاحبہ 17 لاکھ کے بل دئیے بغیر سامان اٹھا کر راتوں رات چلی گئیں، 13لاکھ بجلی جبکہ 4 لاکھ 70 ہزار گیس کا بل ہے، میں تو یہ بل جمع نہیں کروا سکتا۔
چیئرمین کمیٹی سیدال خان ناصرنے کہا کہ وہ سابق ڈپٹی چئیرمین سینٹ کی بیٹی ہیں، میں نے خود انہیں فون کرکے کہا تھا کہ بل ادا کریں، خلیل طاہر سندھونے صفائی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہاکہ میرے لاج میں آدھی روٹی میں کھاتا ہوں، آدھی چوہے کھاتے ہیں۔
اراکین کمیٹی کی شکایتیں اور گلے سننے کے دوران وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا میں وزیر مملکت داخلہ ہوں، میں نے اپنا لاج (رہائش گاہ) خود ٹھیک کروایا ہے، میرے پیسے سی ڈی اے نے ابھی تک نہیں ادا نہیں کیے، وزیر داخلہ سی ڈی اے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لانے جارہے ہیں، سی ڈی اے کو کسی بھی کارپوریٹ ادارے کی طرح فعال اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا، ماضی میں سی ڈی اے میں ایسے مستری بھرتی ہوئے پڑے ہیں جن کو کیل بھی لگانا نہیں آتی۔
طلال چوہدری نے کہا کہ میرے لاج کے اوپر ایک رکن پارلیمنٹ رہتی ہیں، اس خاتون نے سیڑھیوں میں پانی کی ٹونٹیاں لگوا رکھی ہیں، وہ جب وہاں کپڑے دھوتی ہیں تو پانی سارا نیچے گرتا ہے، سی ڈی اے والے ٹونٹیاں اتارنے جاتے ہیں تو یہ خاتون ویڈیو بناتی ہیں اور دھمکیاں دیتی ہیں، سر! مہربانی فرمائیں یہ ٹونٹیاں اتروا دیں۔
چیئرمین کمیٹی نے سی ڈی اے حکام کو ہدایت کی کہ اراکین پارلیمنٹ کی شکایات کا ازالہ کیا جائے اور نئے 140 لاجز کے تعمیراتی منصوبے کو جلد مکمل کیا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طلال چوہدری نے پارلیمنٹ لاجز چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سی ڈی اے
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔