ریاست کی رٹ یا عوام کی قربانی؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک عوامی صدمہ ہے۔ اس پر خاموشی مجرمانہ ہوگی۔ اگر عوام کی آواز کو مسلسل دبایا جاتا رہا، اگر انکی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگتی رہی، اگر انکی قربانیوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا، تو کل کو ریاست سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، زائرین کے نقصانات کا ازالہ کرے، سکیورٹی کے نام پر لگائے گئے اس پردے کو شفاف بنایا جائے اور ایک واضح، منظم اور عوام دوست پالیسی وضع کی جائے، تاکہ مذہبی جذبات کی تذلیل نہ ہو۔ تحریر: سید مرتضیٰ عباس
وزیرِ داخلہ سید محسن نقوی کا حالیہ بیان کہ اس سال زائرین کو سڑک کے راستے اربعین کے لیے عراق و ایران جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایک سادہ سا جملہ نہیں بلکہ کئی تلخ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا واقعی ریاست بلوچستان میں اپنی رٹ قائم رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔؟ کیا عوام کی مذہبی آزادی، ان کے جذبات، ان کی برسوں کی محنت اور ان کے مالی وسائل اتنے بے وقعت ہوچکے ہیں کہ ایک نوٹیفکیشن سے سب کچھ روند دیا جائے۔؟ یہ فیصلہ حکومتِ پاکستان، وزارتِ خارجہ، بلوچستان حکومت اور سکیورٹی اداروں کی "وسیع مشاورت" کے بعد سامنے آیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس مشاورت میں عوام، زائرین یا ان کے نمائندے کہاں تھے۔؟ کیا لاکھوں زائرین کی قربانی، جو برسوں سے زیارتِ اربعین کے لیے پیسے جمع کرتے رہے، ان ہوٹل مالکان، بس آپریٹرز اور ویزا ایجنٹس کی محنت جو مہینوں سے اس عمل میں مصروف تھے، سب رائیگاں چلا گیا۔؟
اب تک ہزاروں لوگوں نے: ایرانی اور عراقی ویزا کے لیے درخواستیں دے دی ہیں۔ ٹرانسپورٹ ایڈوانس بُک کر لی ہے۔ ہوٹلوں کی ایڈوانس ادائیگیاں کر دی ہیں۔ کارنیٹ فیسیں جمع کرا چکے ہیں۔ متعدد افراد نے اپنی زندگی کی جمع پونجی زیارت کے لیے خرچ کر دی ہے۔ اب ایک اچانک اعلان سے ان تمام کوششوں اور خوابوں کو زمین بوس کر دیا گیا۔ کسی کو جوابدہ ٹھہرایا گیا۔؟ کوئی کمپنسیشن اسکیم۔؟ کوئی ہنگامی ریلیف۔؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جواب "نہیں" ہے۔ اگر یہ فیصلہ واقعی سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر ہے تو یہ ریاست کی کھلی ناکامی کا اعتراف ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پر یہ غیر اعلانیہ مہرِ تصدیق ہے کہ ریاست خود کہہ رہی ہے: "ہم آپ کو تحفظ نہیں دے سکتے!" اور اگر یہ محض انتظامی نااہلی ہے تو یہ ایک اور بدترین مثال ہے، اس بے حسی کی جو ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ بن چکی ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے، جہاں سوال اٹھتا ہے: ریاست عوام کے لیے ہے یا عوام ریاست کے لیے۔؟ جب ایک مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیے عوام اتنی بڑی تعداد میں پرامن طریقے سے تیاری کرتے ہیں، تو ریاست کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ان کی راہ ہموار کرے، ان کی مدد کرے۔؟ بجائے اس کے، ان کی امیدیں مسمار کر دی جاتی ہیں۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ زائرین کو ہوائی راستے سے جانے کی اجازت دی جائے گی اور پروازوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ مگر یہ بھی زمینی حقائق سے نابلد اعلان ہے۔ نہ سب لوگ فضائی سفر کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، نہ اتنی پروازیں ممکن ہیں کہ وہ لاکھوں زائرین کو سہولت دے سکیں۔
یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک عوامی صدمہ ہے۔ اس پر خاموشی مجرمانہ ہوگی۔ اگر عوام کی آواز کو مسلسل دبایا جاتا رہا، اگر ان کی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگتی رہی، اگر ان کی قربانیوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا، تو کل کو ریاست سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، زائرین کے نقصانات کا ازالہ کرے، سکیورٹی کے نام پر لگائے گئے اس پردے کو شفاف بنایا جائے اور ایک واضح، منظم اور عوام دوست پالیسی وضع کی جائے، تاکہ مذہبی جذبات کی تذلیل نہ ہو۔ ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صرف بیانات اور ٹویٹس سے چلے گی، یا اپنے شہریوں کے جذبات، عقائد اور قربانیوں کو بھی اہمیت دے گی۔ اگر ریاست خود کہے کہ "ہم نہیں کرسکتے" تو پھر عوام کس سے امید رکھیں۔؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جاتا رہا عوام کی کے لیے اگر ان
پڑھیں:
آئین موجود‘ عمل نہیں‘ جج بھی غیر مطمئن ہیں: حافظ نعیم
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ملک پر ظلم کا نظام مسلط ہے، آئین تو موجود ہے،اس پر عمل نہیں ہوتا، عدالتوں سے عوام ہی نہیں،ججز بھی غیر مطمئن ہیں۔ پیسے والا انصاف خرید لیتا ہے،غریب کی نسلیں عدالتوں کے دھکے کھاتی ہیں۔ منصورہ میں مرکزی تربیت گاہ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا جماعت اسلامی نچلی سطح تک عوام کو انصاف دلانے کیلئے کوشاں ہے۔ جاگیر دار کسان اور سرمایہ دار اور ٹھیکیدار مزدور کے خون پسینے کی کمائی کھا رہے ہیں۔شوگر ملز مافیا حکومت میں بیٹھ کر عوام کو لوٹ رہا ہے۔حکمران عوام کا استحصال کررہے ہیں۔ ظالم حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی عوام کو مہنگائی،بے روز گاری اور لاقانونیت سے نجات دلانے کیلئے ملک کے ہر گوٹھ اورگاؤں اور شہر کے ہر محلہ اور یونین کونسل میں عوامی کمیٹیاں بنا رہی ہے۔ یہ عوامی کمیٹیاں ظلم و ناانصافی کے خلاف عوام کو متحد اور منظم کریں گی۔