Islam Times:
2025-09-18@17:31:42 GMT

ریاست کی رٹ یا عوام کی قربانی؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT

ریاست کی رٹ یا عوام کی قربانی؟

اسلام ٹائمز: یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک عوامی صدمہ ہے۔ اس پر خاموشی مجرمانہ ہوگی۔ اگر عوام کی آواز کو مسلسل دبایا جاتا رہا، اگر انکی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگتی رہی، اگر انکی قربانیوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا، تو کل کو ریاست سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، زائرین کے نقصانات کا ازالہ کرے، سکیورٹی کے نام پر لگائے گئے اس پردے کو شفاف بنایا جائے اور ایک واضح، منظم اور عوام دوست پالیسی وضع کی جائے، تاکہ مذہبی جذبات کی تذلیل نہ ہو۔ تحریر: سید مرتضیٰ عباس

وزیرِ داخلہ سید محسن نقوی کا حالیہ بیان کہ اس سال زائرین کو سڑک کے راستے اربعین کے لیے عراق و ایران جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایک سادہ سا جملہ نہیں بلکہ کئی تلخ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا واقعی ریاست بلوچستان میں اپنی رٹ قائم رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔؟ کیا عوام کی مذہبی آزادی، ان کے جذبات، ان کی برسوں کی محنت اور ان کے مالی وسائل اتنے بے وقعت ہوچکے ہیں کہ ایک نوٹیفکیشن سے سب کچھ روند دیا جائے۔؟ یہ فیصلہ حکومتِ پاکستان، وزارتِ خارجہ، بلوچستان حکومت اور سکیورٹی اداروں کی "وسیع مشاورت" کے بعد سامنے آیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس مشاورت میں عوام، زائرین یا ان کے نمائندے کہاں تھے۔؟ کیا لاکھوں زائرین کی قربانی، جو برسوں سے زیارتِ اربعین کے لیے پیسے جمع کرتے رہے، ان ہوٹل مالکان، بس آپریٹرز اور ویزا ایجنٹس کی محنت جو مہینوں سے اس عمل میں مصروف تھے، سب رائیگاں چلا گیا۔؟

اب تک ہزاروں لوگوں نے: ایرانی اور عراقی ویزا کے لیے درخواستیں دے دی ہیں۔ ٹرانسپورٹ ایڈوانس بُک کر لی ہے۔ ہوٹلوں کی ایڈوانس ادائیگیاں کر دی ہیں۔ کارنیٹ فیسیں جمع کرا چکے ہیں۔ متعدد افراد نے اپنی زندگی کی جمع پونجی زیارت کے لیے خرچ کر دی ہے۔ اب ایک اچانک اعلان سے ان تمام کوششوں اور خوابوں کو زمین بوس کر دیا گیا۔ کسی کو جوابدہ ٹھہرایا گیا۔؟ کوئی کمپنسیشن اسکیم۔؟ کوئی ہنگامی ریلیف۔؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جواب "نہیں" ہے۔ اگر یہ فیصلہ واقعی سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر ہے تو یہ ریاست کی کھلی ناکامی کا اعتراف ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پر یہ غیر اعلانیہ مہرِ تصدیق ہے کہ ریاست خود کہہ رہی ہے: "ہم آپ کو تحفظ نہیں دے سکتے!" اور اگر یہ محض انتظامی نااہلی ہے تو یہ ایک اور بدترین مثال ہے، اس بے حسی کی جو ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ بن چکی ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے، جہاں سوال اٹھتا ہے: ریاست عوام کے لیے ہے یا عوام ریاست کے لیے۔؟ جب ایک مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیے عوام اتنی بڑی تعداد میں پرامن طریقے سے تیاری کرتے ہیں، تو ریاست کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ان کی راہ ہموار کرے، ان کی مدد کرے۔؟ بجائے اس کے، ان کی امیدیں مسمار کر دی جاتی ہیں۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ زائرین کو ہوائی راستے سے جانے کی اجازت دی جائے گی اور پروازوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ مگر یہ بھی زمینی حقائق سے نابلد اعلان ہے۔ نہ سب لوگ فضائی سفر کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، نہ اتنی پروازیں ممکن ہیں کہ وہ لاکھوں زائرین کو سہولت دے سکیں۔

یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک عوامی صدمہ ہے۔ اس پر خاموشی مجرمانہ ہوگی۔ اگر عوام کی آواز کو مسلسل دبایا جاتا رہا، اگر ان کی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگتی رہی، اگر ان کی قربانیوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا، تو کل کو ریاست سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، زائرین کے نقصانات کا ازالہ کرے، سکیورٹی کے نام پر لگائے گئے اس پردے کو شفاف بنایا جائے اور ایک واضح، منظم اور عوام دوست پالیسی وضع کی جائے، تاکہ مذہبی جذبات کی تذلیل نہ ہو۔ ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صرف بیانات اور ٹویٹس سے چلے گی، یا اپنے شہریوں کے جذبات، عقائد اور قربانیوں کو بھی اہمیت دے گی۔ اگر ریاست خود کہے کہ "ہم نہیں کرسکتے" تو پھر عوام کس سے امید رکھیں۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جاتا رہا عوام کی کے لیے اگر ان

پڑھیں:

عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں

عمران خان کے حکم کی تعمیل میں علی امین گنڈا پور بضد ہیں کہ وہ افغانستان ضرور جائیں گے اور افغان قیادت سے بات کریں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ برادر ہمسایہ ملک سے خالص دفاعی اور تزویراتی امور پر بات کرنے کے لیے وہ کس حیثیت سے تشریف لے جائیں گے؟ کیا آئین پاکستان کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ دفاع اور امور خارجہ پر دیگر ریاستوں کے ساتھ معاملہ کرتا پھرے؟

دلچسپ بات یہ ہے دفاع اور امور خارجہ وہ شعبے ہیں جن پر شیخ مجیب جیسے آدمی نے بھی صرف اور صرف وفاق کا اختیار تسلیم کیا تھا۔ اپنے 6 نکات میں شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ وفاق کی عملداری صرف دفاع اور امور خارجہ تک ہو اور باقی چیزیں صوبے خود دیکھیں۔ حیرت ہے کہ عمران خان ان دو شعبوں میں بھی وفاق نام کے کسی تکلف کے قائل نہیں۔ سارے احترام اور تمام تر حسن ظن کے باوجود اس سوال سے اجتناب ممکن نہیں کہ کیا اس رویے کو شیخ مجیب پلس کا نام دیا جائے؟

عمران خان تو درویش کا تصرف ہیں، کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، پریشانی یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی دانشِ اجتماعی کیا ہوئی؟ کیا اس کی صفوں میں کوئی معاملہ فہم انسان بھی موجود ہے یا قافلہ انقلاب میں صاحب کمال اب وہی ہے جو ہجرِ مجنوں میں ’یا محبت‘ کہہ کر ہر وقت آبلے تھوکتا پھرے؟

ایک سیاسی جماعت کے طور پر تحریک انصاف کا حق ہے وہ اہم قومی امور پر اپنی رائے دے۔ دہشتگردی سے خیبر پختونخوا کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور وہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ یہ اس کا استحقاق ہے کہ اصلاح احوال کے لیے وہ کچھ تجویز کرے تو وفاق اسے پوری سمنجیدگی سے سنے۔ اسے وفاق کی کسی پالیسی سے اختلاف ہے تو اسے یہ اختلاف بھی بیان کر دینا چاہیے اور اس کام کے لیے سب سے اچھا فورم پارلیمان ہے۔

تحریک انصاف سینیٹ میں بھی موجود ہےاور قومی اسمبلی میں بھی۔ متعلقہ فورمز پر اسے ہر پالیسی پر اپنے تحفظات اور خدشات پیش کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ کیسا رویہ ہے کہ اسمبلیوں میں تو بیٹھنا گوارا نہیں، قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دیے جا رہے ہیں، سیاسی قیادت سے مکالمہ گوارا نہیں کہ وہ تو ’سب چور ہیں‘ اور انوکھے لاڈلے کی طرح چلے ہیں سیدھے افغانستان سے بات کرنے، جیسے یہ وفاق کے اندر ایک صوبے کے حاکم نہ ہوں، کسی الگ ریاست کے خود مختار حکمران ہوں۔

امور ریاست 92 کا ورلڈ کپ نہیں ہوتے کہ کھیل ہی بنا دیے جائیں، یہ ایک سنجیدہ چیز ہے۔ ایک فیڈریشن کے اندر وفاق اور صوبوں کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ یہ بات آئین میں طے کی جا چکی ہے۔ دفاع اور امور خارجہ وفاق کا معاملہ ہے۔ کس ریاست سے کب اور کیا بات کرنی ہے، یہ وفاق کا استحقاق ہے۔ وفاق کے پاس وزارت دفاع بھی ہے اور وزارت خارجہ بھی۔ ان اداروں کی ایک اجتماعی یادداشت ہوتی ہے جو بہت سارے فیصلوں کی شان نزول ہوتی ہے۔ وفاق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ دفاعی معاملات میں کب اور کیا فیصلہ کرنا ہے۔ صوبے وفاق کو تجاویز تو دے سکتے ہیں، اختلاف رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں لیکن کسی صوبے کو یہ حق نہیں کہ وہ دفاع اور امور خارجہ جیسے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں بازیچہِ اطفال بنا دے۔

جب کوئی صوبہ ہمسایہ ریاست کے ساتھ ایسے معاملات خود طے کرنا چاہے تو یہ وفاق کی نفی ہے۔ یہ رویہ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ آئین کی سکیم سے انحراف ہے۔ یہ تخریب اور انارکی کا نقش اول ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلے تو ریاست کا وجود باقی رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

کل کو بھارت کے ساتھ معاملہ ہو تو کیا پنجاب کا وزیر اعلیٰ وفاق کو نظر انداز کرتے ہوئے دلی پہنچ جائے کہ وفاقی حکومت کو چھوڑیے مہاشہ جی، آئیے ہم آپس میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔

کیا بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کل ایران پہنچ جائیں کہ وفاق پاکستان کو بھول جائیے، آئیے آپ بلوچستان کے ساتھ براہِ راست معاملہ فرما لیجیے۔

کیا کل کو گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ چین جا پہنچیں کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کیا بیچتی ہے صاحب، آئیے سی پیک کے معاملات سیدھے میرے ساتھ ہی نمٹا لیں۔

کیا کل کو سندھ کی حکومت سمندری حدود کے سلسلے میں دنیا کو خط لکھتی پھرے گی کہ وفاق کے تکلف میں کیا پڑنا، آئیے سمندری معاملات ہم آپ میں بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں۔

ذرا تصور کیجیے کیا اس سب کے بعد فیڈریشن کے لیے اپنا وجود باقی رکھنا ممکن ہوگا؟

تحریک انصاف ایک قومی جماعت ہے۔ اس کی مقبولیت میں بھی کوئی شک نہیں، اس کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاست میں دھوپ چھاؤں آتی رہتی ہے۔ اس کا حل مگر سیاسی بصیرت سے ہی تلاش کیا جاتا ہے نہ کہ ہیجان کے عالم میں بند گلی میں داخل ہو کر۔

قومی سیاسی جماعت ہی اگر وفاق کی نفی کرنے لگے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بڑھیا، جس نے ساری عمر سوت کاٹا اور آخر میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

wenews افغانستان برادر ہمسایہ ملک پی ٹی آئی دہشتگردی شیخ مجیب الرحمان علی امین گنڈاپور عمران خان وفاق وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • شہید ارتضیٰ عباس کو خراجِ عقیدت؛ معرکۂ حق میں عظیم قربانی کی داستان
  • عراق زیارات کے لیے نئی پالیسی: 50 سال سے کم عمر مردوں کو اکیلے ویزہ نہیں ملے گا
  • عراق، زیارات کیلئے 50 سال سے کم عمر اکیلے مردوں کو ویزہ جاری نہیں کیا جائے گا
  • وزارت مذہبی امور نے عمرہ کمپنیوں کی فہرست جاری کر دی
  • عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں
  • بھارت: کیرالا میں دماغ کھانے والے امیبا سے عوام میں دہشت
  • عمرہ زائرین کو جعل سازی سے بچانے کے لیے 113 مصدقہ عمرہ کمپنیوں کی فہرست جاری
  • امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کیلئے نئی منصوبہ بندی کرلی گئی
  • سیلاب کی تباہ کاریاں‘ کاشتکاروں کو مالی امداد فراہم کی جائے‘سلیم میمن
  •  یہ دن قربانی اور جدوجہد کی  یاد دلاتا ہے‘ناصر شاہ