افطاری کے بعد سردی محسوس کیوں ہوتی؟ اہم وجہ سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) افطار کرنے کے بعد ہمیں اچانک سردی کیوں لگنے لگتی ہے؟ویسے تو کچھ ٹھنڈا جیسے آئس کریم کھانے کے بعد یہ احساس کافی عام ہوتا ہے، خاص طور پر سرد موسم میں۔
مگر حیران کن طور پر رمضان کے دوران متعدد افراد کو افطار کرنے کے بعد ٹھنڈ محسوس ہونے لگتی ہے، یعنی ہاتھ ، پیر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں،مگر اس کی وجہ کیا ہوتی ہے اور کیا یہ کسی بیماری کی علامت تو نہیں؟
تو یہ جان لیں کہ اس کی وجہ کافی سادہ ہے اور ایسا ہونا تشویش کا باعث نہیں ہوتا،جب ہم روزے رکھنا شروع کرتے ہیں تو سحر سے افطار کے درمیان کم از کم 13 گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔
رمضان کے دوران غذا کے دورانیے میں طویل وقفے سے صحت کو تو فائدہ ہوتا ہے مگر سردی کے حوالے سے جسمانی حساسیت بھی بڑھ جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق فاقے کے دوران بلڈ شوگر کی سطح گھٹ جاتی ہے، بلڈ شوگر کی سطح میں کمی سے سردی محسوس کرنے کے حوالے سے ہماری حساسیت بڑھ جاتی ہے اور جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ٹھنڈ محسوس ہونے لگتی ہے۔
اسی طرح عام دنوں کے مقابلوں میں رمضان میں کیلوریزکی مقدار میں کمی سے کھانے کے بعد جسمانی درجہ حرارت میں تبدیلی آتی ہے اور میٹابولزم بھی سست روی سے کام کرتا ہے، تاکہ جسمانی توانائی زیادہ دیر تک برقرار رہ سکے,اس کے نتیجے میں بھی افطار کے بعد سردی کا احساس زیادہ ہونے لگتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر اس طرح کا تجربہ افطار کے بعد اکثر ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو معمول سے زیادہ کیلوریز استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
مزیدپڑھیں:مہنگائی کنٹرول میں ناکامی، ایرانی پارلیمنٹ نے وزیر خزانہ کو عہدے سے برطرف کردیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہوتا ہے کے بعد ہے اور
پڑھیں:
سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو کیا ہم محض قدرت کی آفات کے طور پر قبول کرلیں یا ہمیں ان تباہ کاریوں پر حکمران طبقات کی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان معاملات میں ان کا کتنا قصور ہے۔
حکمران اور طاقت ور طبقات ہمیشہ سے ہی ان تباہ کاریوں کو قدرت کے نام پر ڈال کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرکے اپنی نااہلی اور بدعنوانی سمیت صلاحیتوں کی کمی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔شدید بارشیں اور سیلاب کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا مگر ان معاملات میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نمٹنا اور نمٹنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا ہی حکومتی نظام کا اصل چیلنج ہوتا ہے۔
ہر دفعہ حکومت کی سطح پر یہ ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم نے اس بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے بہت سبق حاصل کیا ہے اور ان غلطیوں کو اگلی بار نہیں دہرایا جائے گا۔لیکن ہر بار پہلے والی غلطیوں کو نہ صرف دہرایا جاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود غلطیوں کو اور زیادہ بدنما انداز سے دہرایا جاتا ہے ۔
یعنی سبق یہ ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ان معاملات سے نمٹنے میں ہماری پالیسی ایک ردعمل کی پالیسی ہے۔ اس عمل میں ہمیں ان حالات سے نمٹنے کا کوئی مستقل خاکہ نظر نہیں آتا اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی لانگ ٹرم ،مڈٹرم اور شارٹ ٹرم خاکہ یا منصوبہ موجود نہیں ہے۔
ماضی میں 2022کے سیلاب کے نتیجے میں حکمران طبقات نے بہت سے منصوبوں کی کہانی پیش کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ عالمی امداد یا مالیاتی اداروں کی معاونت سے بہت سے ایسے منصوبے شروع کریں گے جو مستقبل میں ان آفات سے نمٹنے میں بڑی مدد دے سکیں گے۔
لیکن حکمرانوں کے منصوبے ،دعوے اور خوش نما خواب محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوئے اور عملی طور پر ہم کسی قسم کے ایسے منصوبے تیار نہیں کرسکے جو ہمیں ان حالات سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے ۔
وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے برملا اعتراف کیا کہ ہم مجموعی طور پر 2022 کے سیلاب کے بعد کوئی ایسے منصوبے نہیں تیار کرسکے جو ہماری ضرورت بنتے تھے۔2025میں جو شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہ تباہ کاریاں آج بھی بدستور جاری ہیں وہ حکومت کی نااہلیوں کو نمایاں کرتی ہے۔
اب تک 60لاکھ سے زیادہ افراد حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ بھی سکتی ہے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں متاثرین کے لیے فوری ریلیف ہوتا ہے جو ان کی بنیادی ضرورت اور جان ومال کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
کیونکہ پاکستان میں شفافیت پر مبنی گورننس کا نظام ہمیشہ سے خرابیوں کی مختلف نشاندہی کرتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ،انتظامی اور مالی سطح پر ہمیں شفافیت اور اعلیٰ اور بروقت صلاحیتوں کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر جو بھی سیلاب کے متاثرین ہیں وہ حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی سے نالاں ہوتے ہیں اور ان کے بقول ہمارا زیادہ نقصان قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں اور عدم شفافیت کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے۔
لوگوں کے گھر ہی نہیں بلکہ ان کی زمینیں اور عملی طور پر زراعت سے جڑا ان کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔ان کی جمع شدہ پونجی بھی برباد ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے ریاست ،حکومت اور نجی شعبے کے محتاج ہوجاتے ہیں ۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کی یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ یہ وہی پرانی کہانی ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے نظام کے ساتھ چل رہی ہیں اور جو لوگ بھی حکومتی یا انتظامی سطح پر ذمے داران ہوتے ہیں وہی گھوم پھر کر ہر حکومت یا انتظامی ڈھانچوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں کہ آپ کی نااہلی سے جو مسائل پیدا ہوئے اس کا حساب کون دے گا ۔
کیونکہ حکومتی نظام میں ایک ایسا مضبوط گٹھ جوڑ ہے جو ہماری بڑی ناکامیوں کی بنیاد ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہاں پر کرپشن اور نااہلی کا کھیل نمایاں ہے اور اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔