اسلام ٹائمز: زیلنسکی کو اس بدلے ہوئے موسم میں وائٹ ہاؤس کے ایک کوچے، اوول آفس سے، جو کبھی ان کے لیے کوچہء جاناں سمجھا جاتا تھا، یوں نکالا گیا کہ ہماری سماعتوں سے ایک بار پھر ”ہمیں کیوں نکالا“ کی صدا ٹکرانے لگی۔ دیکھنے والوں نے پھر دیکھا کہ کس طرح امریکہ اور یوکرین کی محبت بھری داستان کا اختتام ایک المیے پر ہوا۔ تحریر: سید تنویر حیدر
امریکہ جس کسی کو تخت پر بٹھاتا ہے وہ حقیقت میں اس کا بچھایا ہوا تخت نہیں بلکہ ایک ایسا تختہ ہوتا ہے جس کے نیچے ایک بڑا سا گڑھا کھدا ہوا ہوتا ہے اور امریکہ ضرورت پڑنے پر اس تختے کو کسی تخت نشیں کے نیچے سے اچانک کھینچ لیتا ہے اور پھر اس گڑھے کو مٹی سے بھر دیتا ہے۔ صدام حسین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح امریکہ نے اسے پہلے تھپکی دے کر قادسیہ کا ہیرو بنایا اور پھر اسے اس کی اصل اوقات میں واپس لا کر آخر کار اسے ایک گڑھے سے برآمد کرکے اپنی فتح کا جشن منایا۔ پاکستان میں بھی اور کئی ممالک کی طرح امریکی مدد سے چلنے والا ایک ایسا کارخانہ لگا ہوا ہے جہاں آئے روز ”میڈ آف امریکہ“ ایسی پروڈکٹس تیار ہوتی رہی ہیں جن پر لیبل ”میڈ ان پاکستان“ کا لگا ہوتا ہے۔
اب شاید اس امریکی کمپنی کے لیے یہاں کچھ زیادہ سازگار حالات نہیں رہے اور خیر سے پاکستان کے سیاسی معاملات میں امریکہ کی ایک حالیہ مداخلت کو چیلنج بھی کر دیا گیا ہے۔ امریکہ یہاں اپنی سرپرستی میں کئی قسم کے کھیل کھیلتا رہا ہے۔ امریکہ پہلے میدان سیاست کے کسی کھلاڑی کو ٹیم کا کپتان بناتا ہے اور پھر اس پر اپنی مرضی کے مطابق کھیل کھیلنے کا دباو ڈالتا ہے اور اگر وہ اس کی بتائی ہوئی ”لائن اینڈ لینتھ“ کے مطابق نہ کھیلے تو اسے گراونڈ سے ہی آوٹ کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ کی اس بازیگری کا تازہ ترین شکار یوکرین کے صدر زیلنسکی ہیں۔ زیلنسکی وہی ہیں جو کل تک روس کے مقابلے میں امریکہ کو اپنا سب سے بڑا اتحادی سمجھتے تھے اور جوبائیڈن کے دور میں امریکہ سے مال بٹورتے رہے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ وائٹ ہاوس کا دروازہ ان کے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا۔
جب سے ڈونلڈ ٹرمپ آئے ہیں واشنگٹن کی فضا بدل سی گئی ہے اور کل تک ” تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا “۔ کل تک جو اس شہر کے گن گاتے تھے، لمحہء موجود میں وہ غم ناک سروں میں یہ گاتے ہوئے نظر آتے ہیں، ”اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو“ زیلنسکی کو اس بدلے ہوئے موسم میں وائٹ ہاوس کے ایک کوچے، اوول آفس سے، جو کبھی ان کے لیے کوچہء جاناں سمجھا جاتا تھا، یوں نکالا گیا کہ ہماری سماعتوں سے ایک بار پھر ”ہمیں کیوں نکالا“ کی صدا ٹکرانے لگی۔ دیکھنے والوں نے پھر دیکھا کہ کس طرح امریکہ اور یوکرین کی محبت بھری داستان کا اختتام ایک المیے پر ہوا اور زیلنسکی ایک بے وفا کے شہر سے، اپنے شانوں پر بار ندامت اٹھائے ہوئے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے:
یوں اٹھے تیری اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یوں نکالا ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کا پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ اور تیل کی شراکت داری کا اعلان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جولائی 2025ء) بدھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں کہا، ’’ہم نے ابھی ابھی پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ مکمل کیا ہے جس کے تحت پاکستان اور امریکہ مل کر اس کے وسیع تیل کے ذخائر کو ترقی دیں گے۔‘‘
یہ پیش رفت امریکہ اور پاکستان کے درمیان جاری تجارتی بات چیت میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ایک امریکی تیل کمپنی کو اس شراکت داری کی قیادت کے لیے منتخب کیا جائے گا، اور اشارہ دیا کہ ممکن ہے کہ مستقبل میں پاکستان کا تیل بھارت کو بھی فروخت کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا، ’’ہم اس وقت ایک کمپنی کے انتخاب کے عمل میں ہیں۔
(جاری ہے)
کون جانتا ہے، شاید ایک دن وہ بھارت کو تیل بیچ رہے ہوں!‘‘
یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی انتظامیہ نئے تجارتی معاہدوں کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔
ٹرمپ نے لکھا، ’’ہم وائٹ ہاؤس میں آج تجارتی معاہدوں پر بہت مصروف ہیں۔ میں نے کئی ممالک کے رہنماؤں سے بات کی ہے، جن سب نے امریکہ کو ’انتہائی خوش‘ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ کئی ممالک ٹیرفس میں کمی کی تجویز دے رہے ہیں، جس سے امریکہ کا تجارتی خسارہ کم کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ ٹرمپ نے کہا کہ مکمل رپورٹ مناسب وقت پر جاری کی جائے گی۔
معاہدے کے اثراتیہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان نے حال ہی میں غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ڈیجیٹل مصنوعات و خدمات پر پانچ فیصد ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا۔ اسلام آباد کے اس فیصلے کو امریکہ کے ساتھ خیرسگالی کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بدھ کو اس استثنیٰ کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا، جو کہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے واشنگٹن کے دورے کے موقع پر سامنے آیا۔
اس دورے میں وہ ایک وسیع تر تجارتی معاہدے کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے، نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ امریکہ اور پاکستان ایک تجارتی معاہدے کے بہت قریب ہیں، جو چند دنوں میں طے پا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بات امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کے بعد کہی تھی۔
’آئل اینڈ گیس‘ جرنل کے مطابق پاکستان کے پاس 9 ارب بیرل سے زائد تیل کے ذخائر کا اندازہ ہے۔
یہ خاص طور پر سندھ کے انڈس بیسن میں موجود ہیں لیکن بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کی کمی کے باعث اب تک استعمال میں نہیں آ سکے ہیں۔ٹرمپ کا یہ معاہدہ ان ذخائر کے کھلنے کا باعث بن سکتا ہے، اور امریکہ کو پاکستان کے توانائی شعبے میں کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع دے سکتا ہے۔
معاہدے کے جیوپالیٹیکل مضمراتایک امریکی کمپنی کے انتخاب کا عمل نہایت اہم ہو گا، جس کے بارے میں ٹرمپ نے شفاف طریقہ کار کی یقین دہانی کروائی ہے، البتہ کسی حتمی ٹائم لائن کا اعلان نہیں کیا گیا۔
پاکستانی تیل کی بھارت کو ممکنہ فروخت، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کنندہ ہے، بھارت کی توانائی لاگت کم کر سکتی ہے، لیکن اس سے امریکہ-پاکستان تعلقات میں بھارت کے دیرینہ موقف کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے مشرق وسطیٰ اور روس کے ساتھ توانائی تعلقات کو ترجیح دی ہے، لہٰذا ٹرمپ کا بیان ممکنہ طور پر تجارتی کشیدگی کم کرنے کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اٹلانٹک کونسل میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ’’امن کی پائیدار ساخت چاہتا ہے، اور تجارتی تعلقات اس سمت میں ایک پل ثابت ہو سکتے ہیں، اگرچہ مسئلہ کشمیر ایک مستقل رکاوٹ ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین