بھارت میں اپوزیشن جماعت کی خاتون رہنما کی سوٹ کیس سے لاش برآمد
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
بھارت (نیوز ڈیسک)بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر سمپلا میں سوٹ کیس سے اپوزیشن جماعت کانگریس کی خاتون رہنما ہمانی نروال کی لاش برآمد ہوئی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ہمانی نروال بھارت جوڑو یاترا کے دوران رہنما راہل گاندھی کے ساتھ دیکھی گئی تھیں، کانگریس ایم ایل اے بھارت بھوشن بترا نے سپیشل تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دے کر معاملے کی انکوائری کا مطالبہ کیا،بھارت بھوشن بترا نے پولیس پر زور دیا کہ وہ اس قتل کی تحقیقات کیلیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے اور مجرم کو جلد از جلد گرفتار کرے،ہمانی نروال کانگریس کی سرگرم رہنما تھیں جنہوں نے راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ سابق وزیر اعلیٰ بھوپیندر سنگھ ہڈا اور دیپیندر سنگھ ہڈا کی انتخابی مہموں میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جمعے کی صبح سمپلا میں ایک پُل کے قریب سے سوٹ کیس سے خاتون کی لاش ملی جس کے ہاتھوں پر مہندی لگی ہوئی تھی، لاش کو پوسٹ مارٹم کیلیے بھیجا گیا جس میں پتا چلا کہ یہ ہمانی نروال ہے۔
بھارت بھوشن بترا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ قتل کی تحقیقات فوری طور پر ایس آئی ٹی سے کرائی جائے۔ انہوں نے ہریانہ میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ایسے گھناؤنے جرائم کو روکنے کیلیے مجرموں میں خوف پیدا کرنا چاہیے۔
چیمپئنز ٹرافی: سیمی فائنل میں کون کس کا سامنا کرےگا؟ فیصلہ ہوگیا
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہمانی نروال
پڑھیں:
تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، ہلاکتیں 700 تک پہنچ گئیں
تنزانیہ میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کر گئے، جن میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور امن و امان مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان کے مطابق صرف دارالسلام میں 350 اور موانزا میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار پارٹی کارکنوں نے اسپتالوں اور طبی مراکز سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی بدامنی کے باعث ملک بھر میں فوج تعینات کردی گئی ہے، جب کہ انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج تشدد میں بدل گیا، مشتعل مظاہرین نے دارالسلام ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا، بسوں، پیٹرول پمپس اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی اور متعدد پولنگ مراکز تباہ کر دیے۔
بحران کی جڑ حالیہ صدارتی انتخابات ہیں جن میں صدر سامیہ سُلوحو حسن نے 96.99 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابی دوڑ سے قبل ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات “جمہوریت پر کھلا حملہ” اور “عوامی مینڈیٹ کی توہین” ہیں۔
تنزانیہ میں اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔