بھارت :جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مسلمانوں کا کوٹہ کم کیا جارہا ہے: اسدالدین اویسی.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف

مہمانِ خصوصی ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے 105ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ خصوصی سیمینار جامعہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا "مہاتما گاندھی کا سوراج"۔ اس موقع پر "دور درشن" کے ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ پروگرام کی صدارت جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی۔ اس موقع پر متعدد اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے سوراج کے تصور کی عصری معنویت پر اپنے خیالات پیش کئے۔ مہمانِ خصوصی کے ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تاریخی اور تحریک انگیز ادارے میں بولنا اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوراج صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ خود نظم، اخلاقیات اور اجتماعی بہبود کا مظہر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا مشہور قول نقل کیا "دنیا میں ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، مگر کسی کے لالچ کے لئے نہیں"۔

ڈاکٹر نمبودری پاد نے بتایا کہ جب وہ نیشنل کونسل فار رورل انسٹیٹیوٹس (این سی آر آئی) میں سکریٹری جنرل تھے تو انہوں نے وردھا کا دورہ کیا جہاں انہیں گاندھیائی مفکرین نارائن دیسائی اور ڈاکٹر سدرشن ایینگر سے رہنمائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے یجروید کے منتر "وشوَ پُشٹم گرامے اَسمِن انا تورم" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "حقیقی سوراج متوازن دیہی خوشحالی اور انسانی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں "آدرش پسندی بمقابلہ حقیقت پسندی"، "ترقی بمقابلہ اطمینان" اور "شہری زندگی بمقابلہ دیہی سادگی" کے تضادات میں گاندھی کا سوراج انسانیت کے لئے ایک اخلاقی راستہ پیش کرتا ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ دنیا مہاتما گاندھی کو پڑھ کر اور سن کر جانتی ہے، لیکن میں گاندھی میں جیتا ہوں، کیونکہ میں چمپارن کا ہوں، جہاں سے گاندھی کے ستیاگرہ کی شروعات ہوئی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • جامعہ کراچی: 2 طلبہ تنظیموں میں تصادم، پولیس اہلکار، متعدد طلبا زخمی
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ میں "کلچرل کنیکٹس اور ڈپلومیٹک ڈائیلاگ" پر ورکشاپ منعقد
  • 13 آبان استکبارستیزی اور امریکہ کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے، حوزه علمیہ قم
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ: جنوبی افریقہ اور انڈیا کا فائنل میں مقابلہ تاریخ ساز کیوں قرار دیا جارہا ہے؟
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • کشمیر کی آزادی ناگزیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا بازار گرم ہے: صدر مملکت
  • بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر مظالم جاری ہیں، مقبوضہ کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدر مملکت
  • کشمیر کی آزادی ناگزیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا بازار گرم ہے: صدر مملکت