Daily Ausaf:
2025-04-25@08:35:27 GMT

ماہ صیام اور مہنگائی کا طوفان

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

یوں تو قمری سال کے بارہ مہینے اللہ رب العزت کے ودیعت کردہ ہیں لیکن ماہِ صیام عبادت و تقویٰ کا خاص مہینہ کہلایا جاتا ہے۔ یہ تیس دن برکتوں اور رحمتوں کا منبع رہتے ہیں، امت مسلمہ کے لیے تزکیۂ روح اور سکونِ قلب کا ذریعہ اور وسیلہ بنتے ہیں۔ یہ وہ مقدس و مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ کی آخری کتاب قرآنِ کریم کو اُتارا گیا جو ذریعۂ ہدایت اور مکمل ضابطۂ حیات بھی ہے۔ یہی وہ محترم مہینہ ہے جس میں دوزخ کے دروازے بند کرکے شیاطین پابندِ سلاسل کر دئیے جاتی ہیں اور جنت کے دروازے مومنوں کے لیے وا کردئیے جاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ ’’رمضانِ المبارک میں شیاطین پابندِ سلاسل کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘ صبح و شام اللہ رب العزت کی رحمتیں نازل ہورہی ہوتی ہیں اور ہر روزہ روح و قلب کو پاک و شفّاف کردیتا ہے۔ رمضان کی آمد پر رسولِ کریمﷺ برکتوں، فضیلتوں اور نعمتوں پر مشتمل خطبے عطا فرماتے اور صحابہ کرام ؓکو ماہِ صیام کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
لیکن ہم اللہ رب العزت اور اس کے رسول ﷺ کے احکام اور ہدایت کے برعکس اس عظمت اور برکت والے مہینے سے جو مادّی فوائد حاصل کررہے ہیں، وہ انتہائی شرمناک اور دینِ حق سے رو گردانی کے مترادف ہیں۔
اس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ ہوشربا گرانی نے پہلے ہی غریب عوام کی کمر توڑ رکھی ہے لیکن رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ بالخصوص ایسی اشیاء جو ہر خاص و عام سحر وافطار میں کثرت سے استعمال کرتے ہیں، دیگر ضروریاتِ زندگی کا بھی کچھ یہی احوال ہے۔ پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ نہ جانے کہاں جاکر سو جاتا ہے کہ ہر ہول سیلر اور دکان دار اپنے پسند کی قیمتیں وصول کررہے ہوتے ہیں اور کوئی داد فریاد نہیں سنتا نظر آرہا ہوتا ہے۔ مذہبی تقدس کے اعتبار سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دکان دار اور متعلقہ تاجر حضرات اس مبارک مہینے میں رضا کارانہ طور پر اشیائے صَرف کی قیمتیں کم کردیتے یا بالفاظِ دیگر منافع میں کچھ کمی کرلیتے لیکن ہمارے یہاں تو اس متبرک مہینے کو ’’سیزن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے گویا سال بھر کی روٹیاں اس ایک مہینے میں سمیٹ لینے کی لگن نظر آرہی ہوتی ہے۔ جبکہ غیر مسلم ممالک میں تو مسلمانوں کے لیے خصوصی رعایتی قیمتیں رکھ دی جاتی ہیں تاکہ وہ اس مقدس ماہ میں آرام و سکون کے ساتھ اپنی عبادت کر پائیں اور ہمارے ملک میں اس کا الٹ ہی نظر آرہا ہوتا ہے کہ عوام عبادت کی جگہ اس فکر میں مبتلا نظر آرہے ہوتے ہیں کہ سحر و افطار کے لیے انتظام کیسے کر پائیں گے، اللہ رب العزت ہی بس ہدایت دیں ان منافع خوروں اور مفاد پرستوں کہ ان کے دلوں میں خوفِ الٰہی پیدا ہو پائے آمین۔
ہفتہ کی بات ہے، ہم نے ایک پھل فروش سے امرود کے دام پوچھے تو ’’دو سو پچاس روپے کلو ہیں جناب‘‘ وہ بڑی گرم جوشی سے بولا۔ ہم نے کہا میاں چند روز قبل ہم نے دو سو روپے کلو خریدے تھے، رمضان کا اعلان ہوتے ہی ایک دم قیمت بڑھ گئی۔ اس نے کڑی نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور بھنّا کر بولا۔ ’’کون سا غضب ہوگیا صاحب، پچاس ہی روپے تو بڑھائے ہیں۔‘‘ گویا گراں فروشی میں اب دھونس، دھاندلی اور زبردستی بھی چل پڑی ہے۔ ’’لینا ہے تو لو ورنہ گھر کا راستہ پکڑو، روزہ ہنڈیا والے نمک سے افطار کرلینا۔‘‘
اس موقع پر ہمیں اپنے ایک واقف کار یاد آرہے ہیں۔ وہ کسی مقصد سے اسرائیل گئے اور تل ابیب کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ یہودیوں کی فطرت، خصلت، منافع خوری اور موقع پرستی وغیرہ سے کون واقف نہیں ہے۔ ہوا یوں کہ ایک دن وہ صاحب ہوٹل سے نکل کر بازار پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عام دنوں کے مقابلے میں ہر چیز کم قیمت پر فروخت کی جا رہی تھی۔ آخر ایک دکان دار سے پوچھ لیا۔ ’’حضرت یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ اس یہودی نے بڑے فخر سے کہا۔ ’’آج ہمارا مذہبی تہوار ہے اور آج کے دن کے تقدس کے پیشِ نظر ہم منافع نہیں لیتے، ہر چیز اصل قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو یہودی جیسی مطعون قوم کے اس عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے مگر یہاں کون کرتا ہے ایسا۔ یہ تو دکان داروں کی بات تھی، کسی بھی طرف چلے جائیں ماہِ رمضان میں لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم نظر آرہا ہوتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں رشوت کے بھائو بڑھ جاتے ہیں۔ آخر ان بے چاروں نے بھی اپنے گھر والوں کے بھی تو عید کی تیاری کرنی ہوتی ہے ناں۔ حرام و حلال کے چکر میں پڑنے کی نہ انہیں فرصت ہے نہ ہوتی۔ درحقیقت جائز و ناجائز کا امتیاز کسی ملک کے ماحول اور معاشرے سے بنتا ہے جبکہ ہمارے یہاں سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے کوشاں نظر آرہے ہوئے ہیں۔ کسی شعبے میں کوئی سسٹم اور کوئی نظام نہیں ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز ہی کو لے لیجئے جن کی تعداد محض خانہ پُری کا حق ادا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں‘ آدمی روزہ رکھ کر یوٹیلیٹی اسٹور پر سودا خریدنے جاتا ہے اور روزہ کھول کر واپس آتا ہے۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی گھنٹوں لائن میں لگ کر منزلِ مقصود یعنی اسٹور تک پہنچتا ہے اور وہاں جاکر پتا چلتا ہے کہ اس کی مطلوبہ چیز ہی موجود نہیں ہے۔ یہ یوٹیلیٹی اسٹور جو غریبوں کے لیے قائم کئے گئے ہیں دراصل انہی کے لیے درد سر بنے نظر آرہے ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اللہ رب العزت ہوتا ہے جاتا ہے ہوتے ہی کے لیے

پڑھیں:

ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان

اسلام آباد:

رہنما تحریک انصاف علی محمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لیے پاکستان کی حفاظت کے لیے  ہم سب سینہ سپر ہیں، آج سے نہیں جب سے پاکستان بنا ہے ہندوستان کی نظریں ہمارے ملک پہ ہیں اور اس کا الٹی میٹلی مقصد یہی ہے کہ پاکستان کے حصے بخرے کیے جائیں۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں کسی خیال کی جنت میں نہیں رہنا چاہیے، آدھا ملک گنوانے کے بعد ہم نے کرتوت ٹھیک نہیں کیے، ہم نے اپنے ملک کوٹھیک نہیں کیا، اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر نہیں چلے لیکن پاکستانی قوم کو سلام ہے کہ جب بھی پاکستان کی سلامتی پر حرف آتا ہے تو ہم سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ 

سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ پہلا وار تو بہرحال ہندوستان کی طرف سے آیا اور انہوں نے بڑا ہی کاری وار کیا کیونکہ جو واقعہ وہاں پہ پیش آیا اگر چار جانیں گئی ہوں تو افسوس ہی کرتے ہیں، پاکستان نے بھی کیا لیکن اس پر جس طرح انھوں نے سیاست کی اور اپنے ایک دم سے پانچ منٹ کے اندر اندر ان کے سارے چینل آگ اگلنے لگے پاکستان کے خلاف، اس سے سب کو شک پڑ گیا کہ بھئی یہ کوئی واقعہ ہوا بھی ہے اور کس طرح ہوا ہے؟پھر جب بات نکلی اور کھلی تو پتہ چلا کہ یہ تو ہمیشہ سے ہی فالس فلیگ آپریشنز کرتے آئے ہیں۔ 

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ پہلگام والا جو واقعہ ہوا تھا اس کی تو مذمت بالکل سب نے کی ہے، پوری دنیا کرتی ہے جو ٹریرسٹ اٹیک وہاں ہوا ہے لیکن اس کے بعد ہندوستان کی حکومت کی طرف سے جو ردعمل آیا اس کی بھی ہمیں اتنی ہی مذمت کرنی چاہیے کہ ایک ملک کو بغیر کسی ثبوت کہ بغیر سوچے سمجھے آپ نے الزام لگا دیا ہے اور پاکستان جو چاہتا ہے کہ اس خطے میں امن رہے اس پر آپ نے ایسی لغو قسم کی باتیں کہ جو ٹریٹی آپ یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی اس کو آپ ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں وہ سمجھ سے باہر ہے، بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نہروں کے حوالے سندھ کے لوگ بے چینی اور پریشانی میں تھے، اس کو دیکھتے ہوئے ہم نے فیڈرل گورنمنٹ کو اپروچ کیا تھا اور کہا تھا کہ آپ نے سی سی آئی کا اجلاس بلانا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • مہنگائی کا دباؤ کم؛ 2024ء میں ملکی مجموعی معاشی حالات میں بہتری آئی، اسٹیٹ بینک
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • بڑھتے زرمبادلہ کے ذخائر، بہتر کریڈٹ ریٹنگ، مہنگائی میں کمی اہم کامیابیاں: وزیر خزانہ
  • کوچۂ سخن
  • وزیراعلیٰ پنجاب کو مہنگائی میں کمی پر مبارکباد کس نے دی؟
  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول
  • مہنگائی، شرحِ سود، توانائی کے نرخوں میں کمی خوش آئند ہے: جام کمال