Daily Ausaf:
2025-06-09@16:28:18 GMT

ماہ صیام اور مہنگائی کا طوفان

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

یوں تو قمری سال کے بارہ مہینے اللہ رب العزت کے ودیعت کردہ ہیں لیکن ماہِ صیام عبادت و تقویٰ کا خاص مہینہ کہلایا جاتا ہے۔ یہ تیس دن برکتوں اور رحمتوں کا منبع رہتے ہیں، امت مسلمہ کے لیے تزکیۂ روح اور سکونِ قلب کا ذریعہ اور وسیلہ بنتے ہیں۔ یہ وہ مقدس و مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ کی آخری کتاب قرآنِ کریم کو اُتارا گیا جو ذریعۂ ہدایت اور مکمل ضابطۂ حیات بھی ہے۔ یہی وہ محترم مہینہ ہے جس میں دوزخ کے دروازے بند کرکے شیاطین پابندِ سلاسل کر دئیے جاتی ہیں اور جنت کے دروازے مومنوں کے لیے وا کردئیے جاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ ’’رمضانِ المبارک میں شیاطین پابندِ سلاسل کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘ صبح و شام اللہ رب العزت کی رحمتیں نازل ہورہی ہوتی ہیں اور ہر روزہ روح و قلب کو پاک و شفّاف کردیتا ہے۔ رمضان کی آمد پر رسولِ کریمﷺ برکتوں، فضیلتوں اور نعمتوں پر مشتمل خطبے عطا فرماتے اور صحابہ کرام ؓکو ماہِ صیام کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
لیکن ہم اللہ رب العزت اور اس کے رسول ﷺ کے احکام اور ہدایت کے برعکس اس عظمت اور برکت والے مہینے سے جو مادّی فوائد حاصل کررہے ہیں، وہ انتہائی شرمناک اور دینِ حق سے رو گردانی کے مترادف ہیں۔
اس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ ہوشربا گرانی نے پہلے ہی غریب عوام کی کمر توڑ رکھی ہے لیکن رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ بالخصوص ایسی اشیاء جو ہر خاص و عام سحر وافطار میں کثرت سے استعمال کرتے ہیں، دیگر ضروریاتِ زندگی کا بھی کچھ یہی احوال ہے۔ پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ نہ جانے کہاں جاکر سو جاتا ہے کہ ہر ہول سیلر اور دکان دار اپنے پسند کی قیمتیں وصول کررہے ہوتے ہیں اور کوئی داد فریاد نہیں سنتا نظر آرہا ہوتا ہے۔ مذہبی تقدس کے اعتبار سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دکان دار اور متعلقہ تاجر حضرات اس مبارک مہینے میں رضا کارانہ طور پر اشیائے صَرف کی قیمتیں کم کردیتے یا بالفاظِ دیگر منافع میں کچھ کمی کرلیتے لیکن ہمارے یہاں تو اس متبرک مہینے کو ’’سیزن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے گویا سال بھر کی روٹیاں اس ایک مہینے میں سمیٹ لینے کی لگن نظر آرہی ہوتی ہے۔ جبکہ غیر مسلم ممالک میں تو مسلمانوں کے لیے خصوصی رعایتی قیمتیں رکھ دی جاتی ہیں تاکہ وہ اس مقدس ماہ میں آرام و سکون کے ساتھ اپنی عبادت کر پائیں اور ہمارے ملک میں اس کا الٹ ہی نظر آرہا ہوتا ہے کہ عوام عبادت کی جگہ اس فکر میں مبتلا نظر آرہے ہوتے ہیں کہ سحر و افطار کے لیے انتظام کیسے کر پائیں گے، اللہ رب العزت ہی بس ہدایت دیں ان منافع خوروں اور مفاد پرستوں کہ ان کے دلوں میں خوفِ الٰہی پیدا ہو پائے آمین۔
ہفتہ کی بات ہے، ہم نے ایک پھل فروش سے امرود کے دام پوچھے تو ’’دو سو پچاس روپے کلو ہیں جناب‘‘ وہ بڑی گرم جوشی سے بولا۔ ہم نے کہا میاں چند روز قبل ہم نے دو سو روپے کلو خریدے تھے، رمضان کا اعلان ہوتے ہی ایک دم قیمت بڑھ گئی۔ اس نے کڑی نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور بھنّا کر بولا۔ ’’کون سا غضب ہوگیا صاحب، پچاس ہی روپے تو بڑھائے ہیں۔‘‘ گویا گراں فروشی میں اب دھونس، دھاندلی اور زبردستی بھی چل پڑی ہے۔ ’’لینا ہے تو لو ورنہ گھر کا راستہ پکڑو، روزہ ہنڈیا والے نمک سے افطار کرلینا۔‘‘
اس موقع پر ہمیں اپنے ایک واقف کار یاد آرہے ہیں۔ وہ کسی مقصد سے اسرائیل گئے اور تل ابیب کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ یہودیوں کی فطرت، خصلت، منافع خوری اور موقع پرستی وغیرہ سے کون واقف نہیں ہے۔ ہوا یوں کہ ایک دن وہ صاحب ہوٹل سے نکل کر بازار پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عام دنوں کے مقابلے میں ہر چیز کم قیمت پر فروخت کی جا رہی تھی۔ آخر ایک دکان دار سے پوچھ لیا۔ ’’حضرت یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ اس یہودی نے بڑے فخر سے کہا۔ ’’آج ہمارا مذہبی تہوار ہے اور آج کے دن کے تقدس کے پیشِ نظر ہم منافع نہیں لیتے، ہر چیز اصل قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو یہودی جیسی مطعون قوم کے اس عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے مگر یہاں کون کرتا ہے ایسا۔ یہ تو دکان داروں کی بات تھی، کسی بھی طرف چلے جائیں ماہِ رمضان میں لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم نظر آرہا ہوتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں رشوت کے بھائو بڑھ جاتے ہیں۔ آخر ان بے چاروں نے بھی اپنے گھر والوں کے بھی تو عید کی تیاری کرنی ہوتی ہے ناں۔ حرام و حلال کے چکر میں پڑنے کی نہ انہیں فرصت ہے نہ ہوتی۔ درحقیقت جائز و ناجائز کا امتیاز کسی ملک کے ماحول اور معاشرے سے بنتا ہے جبکہ ہمارے یہاں سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے کوشاں نظر آرہے ہوئے ہیں۔ کسی شعبے میں کوئی سسٹم اور کوئی نظام نہیں ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز ہی کو لے لیجئے جن کی تعداد محض خانہ پُری کا حق ادا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں‘ آدمی روزہ رکھ کر یوٹیلیٹی اسٹور پر سودا خریدنے جاتا ہے اور روزہ کھول کر واپس آتا ہے۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی گھنٹوں لائن میں لگ کر منزلِ مقصود یعنی اسٹور تک پہنچتا ہے اور وہاں جاکر پتا چلتا ہے کہ اس کی مطلوبہ چیز ہی موجود نہیں ہے۔ یہ یوٹیلیٹی اسٹور جو غریبوں کے لیے قائم کئے گئے ہیں دراصل انہی کے لیے درد سر بنے نظر آرہے ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اللہ رب العزت ہوتا ہے جاتا ہے ہوتے ہی کے لیے

پڑھیں:

انکار کیوں کیا؟

ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔ 

’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔

’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔ 

’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔ 

’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔

’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔

انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔  

اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔

جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ  اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔ 

یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ،  اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔

ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔ 

وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔ 

پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔

 دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یہ وہی ہیں  جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے،  وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔

جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔ 

 دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟

یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔  خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔

کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔ 

کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔  وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔ 

انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔  جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی  پر،  اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔ 

یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔ 

انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔

کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟  کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

ثنا یوسف ٹک ٹاکر عورت مرد

متعلقہ مضامین

  • کئی ممالک میں مہنگائی جوں کی توں لیکن پاکستان میں کم ہوئی، مشیر وزیر خزانہ
  • 3 سال میں دنیابھر میں گروتھ کم ، پاکستان میں بڑھی ہے،  مشیروزارت خزانہ
  • مہنگائی پر قابو پا لیا، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کردیا
  • مہنگائی پر قابو پا چکے ہیں، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ
  • رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 2.7فیصد رہی،وزیرخزانہ نے اقتصادی سروے میں اہم بیان
  • مہنگائی تھمی نہیں؛ اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام سال بھر پریشان رہے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • انکار کیوں کیا؟
  • معیشت کی بہتری، مہنگائی پرقابو پانے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی
  • بس اب بہت ہو چکا