ماہ صیام اور مہنگائی کا طوفان
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
یوں تو قمری سال کے بارہ مہینے اللہ رب العزت کے ودیعت کردہ ہیں لیکن ماہِ صیام عبادت و تقویٰ کا خاص مہینہ کہلایا جاتا ہے۔ یہ تیس دن برکتوں اور رحمتوں کا منبع رہتے ہیں، امت مسلمہ کے لیے تزکیۂ روح اور سکونِ قلب کا ذریعہ اور وسیلہ بنتے ہیں۔ یہ وہ مقدس و مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ کی آخری کتاب قرآنِ کریم کو اُتارا گیا جو ذریعۂ ہدایت اور مکمل ضابطۂ حیات بھی ہے۔ یہی وہ محترم مہینہ ہے جس میں دوزخ کے دروازے بند کرکے شیاطین پابندِ سلاسل کر دئیے جاتی ہیں اور جنت کے دروازے مومنوں کے لیے وا کردئیے جاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ ’’رمضانِ المبارک میں شیاطین پابندِ سلاسل کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘ صبح و شام اللہ رب العزت کی رحمتیں نازل ہورہی ہوتی ہیں اور ہر روزہ روح و قلب کو پاک و شفّاف کردیتا ہے۔ رمضان کی آمد پر رسولِ کریمﷺ برکتوں، فضیلتوں اور نعمتوں پر مشتمل خطبے عطا فرماتے اور صحابہ کرام ؓکو ماہِ صیام کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
لیکن ہم اللہ رب العزت اور اس کے رسول ﷺ کے احکام اور ہدایت کے برعکس اس عظمت اور برکت والے مہینے سے جو مادّی فوائد حاصل کررہے ہیں، وہ انتہائی شرمناک اور دینِ حق سے رو گردانی کے مترادف ہیں۔
اس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ ہوشربا گرانی نے پہلے ہی غریب عوام کی کمر توڑ رکھی ہے لیکن رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ بالخصوص ایسی اشیاء جو ہر خاص و عام سحر وافطار میں کثرت سے استعمال کرتے ہیں، دیگر ضروریاتِ زندگی کا بھی کچھ یہی احوال ہے۔ پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ نہ جانے کہاں جاکر سو جاتا ہے کہ ہر ہول سیلر اور دکان دار اپنے پسند کی قیمتیں وصول کررہے ہوتے ہیں اور کوئی داد فریاد نہیں سنتا نظر آرہا ہوتا ہے۔ مذہبی تقدس کے اعتبار سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دکان دار اور متعلقہ تاجر حضرات اس مبارک مہینے میں رضا کارانہ طور پر اشیائے صَرف کی قیمتیں کم کردیتے یا بالفاظِ دیگر منافع میں کچھ کمی کرلیتے لیکن ہمارے یہاں تو اس متبرک مہینے کو ’’سیزن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے گویا سال بھر کی روٹیاں اس ایک مہینے میں سمیٹ لینے کی لگن نظر آرہی ہوتی ہے۔ جبکہ غیر مسلم ممالک میں تو مسلمانوں کے لیے خصوصی رعایتی قیمتیں رکھ دی جاتی ہیں تاکہ وہ اس مقدس ماہ میں آرام و سکون کے ساتھ اپنی عبادت کر پائیں اور ہمارے ملک میں اس کا الٹ ہی نظر آرہا ہوتا ہے کہ عوام عبادت کی جگہ اس فکر میں مبتلا نظر آرہے ہوتے ہیں کہ سحر و افطار کے لیے انتظام کیسے کر پائیں گے، اللہ رب العزت ہی بس ہدایت دیں ان منافع خوروں اور مفاد پرستوں کہ ان کے دلوں میں خوفِ الٰہی پیدا ہو پائے آمین۔
ہفتہ کی بات ہے، ہم نے ایک پھل فروش سے امرود کے دام پوچھے تو ’’دو سو پچاس روپے کلو ہیں جناب‘‘ وہ بڑی گرم جوشی سے بولا۔ ہم نے کہا میاں چند روز قبل ہم نے دو سو روپے کلو خریدے تھے، رمضان کا اعلان ہوتے ہی ایک دم قیمت بڑھ گئی۔ اس نے کڑی نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور بھنّا کر بولا۔ ’’کون سا غضب ہوگیا صاحب، پچاس ہی روپے تو بڑھائے ہیں۔‘‘ گویا گراں فروشی میں اب دھونس، دھاندلی اور زبردستی بھی چل پڑی ہے۔ ’’لینا ہے تو لو ورنہ گھر کا راستہ پکڑو، روزہ ہنڈیا والے نمک سے افطار کرلینا۔‘‘
اس موقع پر ہمیں اپنے ایک واقف کار یاد آرہے ہیں۔ وہ کسی مقصد سے اسرائیل گئے اور تل ابیب کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ یہودیوں کی فطرت، خصلت، منافع خوری اور موقع پرستی وغیرہ سے کون واقف نہیں ہے۔ ہوا یوں کہ ایک دن وہ صاحب ہوٹل سے نکل کر بازار پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عام دنوں کے مقابلے میں ہر چیز کم قیمت پر فروخت کی جا رہی تھی۔ آخر ایک دکان دار سے پوچھ لیا۔ ’’حضرت یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ اس یہودی نے بڑے فخر سے کہا۔ ’’آج ہمارا مذہبی تہوار ہے اور آج کے دن کے تقدس کے پیشِ نظر ہم منافع نہیں لیتے، ہر چیز اصل قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو یہودی جیسی مطعون قوم کے اس عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے مگر یہاں کون کرتا ہے ایسا۔ یہ تو دکان داروں کی بات تھی، کسی بھی طرف چلے جائیں ماہِ رمضان میں لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم نظر آرہا ہوتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں رشوت کے بھائو بڑھ جاتے ہیں۔ آخر ان بے چاروں نے بھی اپنے گھر والوں کے بھی تو عید کی تیاری کرنی ہوتی ہے ناں۔ حرام و حلال کے چکر میں پڑنے کی نہ انہیں فرصت ہے نہ ہوتی۔ درحقیقت جائز و ناجائز کا امتیاز کسی ملک کے ماحول اور معاشرے سے بنتا ہے جبکہ ہمارے یہاں سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے کوشاں نظر آرہے ہوئے ہیں۔ کسی شعبے میں کوئی سسٹم اور کوئی نظام نہیں ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز ہی کو لے لیجئے جن کی تعداد محض خانہ پُری کا حق ادا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں‘ آدمی روزہ رکھ کر یوٹیلیٹی اسٹور پر سودا خریدنے جاتا ہے اور روزہ کھول کر واپس آتا ہے۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی گھنٹوں لائن میں لگ کر منزلِ مقصود یعنی اسٹور تک پہنچتا ہے اور وہاں جاکر پتا چلتا ہے کہ اس کی مطلوبہ چیز ہی موجود نہیں ہے۔ یہ یوٹیلیٹی اسٹور جو غریبوں کے لیے قائم کئے گئے ہیں دراصل انہی کے لیے درد سر بنے نظر آرہے ہوتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اللہ رب العزت ہوتا ہے جاتا ہے ہوتے ہی کے لیے
پڑھیں:
بارشیں اور حکومتی ذمے داری
گلگت، سوات، بونیر، جڑواں شہروں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں موسلا دھار بارشوں سے تباہی، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں میں بہہ کر 6 بچوں، باپ، بیٹی سمیت 16 افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ کئی زخمی ہوگئے، بابو سر ٹاپ پرکئی سیاح پانی میں بہہ چکے ہیں، جن کی تلاش کے لیے ریسکیوکارروائیاں تاحال جاری ہیں۔
سڑک 15 مقامات سے بلاک ہے اور 4 اہم رابطہ پل بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ پاک فوج نے اسکردو میں ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے 40 سے 50 گاڑیوں میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا، لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند سڑکیں کھول دیں۔
مون سون سیزن پاکستان کے لیے ایک اور تلخ حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔ جہاں ایک طرف بے رحم بارشیں برسیں، وہیں دوسری طرف انسانی غفلت، حکومتی لاپرواہی اور ادارہ جاتی کمزوری نے اس آفت کو ناقابلِ تلافی سانحے میں بدل دیا۔ خیبر پختون خوا،گلگت بلتستان، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت کئی علاقوں میں طوفانی بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی، وہ صرف موسمی یا فطری آفت نہیں، بلکہ ایک منظم حکومتی و انتظامی ناکامی کی داستان ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں مون سون سیزن اب ایک قدرتی معمول سے بڑھ کر ایک انسانی بحران کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ اس بار جولائی میں ہونے والی ہلاکتیں، جن کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر سیکڑوں تک جا پہنچی، صرف بارش یا سیلاب کا نتیجہ نہیں، بلکہ ناقص انفرا اسٹرکچر، سیاحتی علاقوں میں انتظامی غفلت اور قبل از وقت انتباہی نظام کی غیر فعالیت کی علامت ہے۔
سیاح، جن میں مرد ، خواتین اور بچے شامل تھے، اپنی چھٹیوں کو خوشگوار بنانے کی امید لیے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں، مگر کمزور پُل، ندی نالوں کے قریب غیر محفوظ کیمپنگ اور مسلسل بارشوں کے باوجود حکومتی خاموشی ان کی زندگیوں کا چراغ بجھا دیتی ہے۔یہ المیہ فقط چند علاقوں تک محدود نہیں۔ اسلام آباد جیسے دارالحکومت میں بھی نکاسیِ آب کا ناقص نظام عوامی زندگی کو مفلوج کردیتا ہے۔
راولپنڈی کا نالہ لئی ایک بار پھر خبروں میں ہے جہاں بارش کے بعد پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو جاتی ہے اور حکومتی ادارے فقط ’’ الرٹ جاری‘‘ کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات، جنھیں ملکی معیشت کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے، بدترین انفرا اسٹرکچر، بغیر پلاننگ کی تعمیرات اور غیر تربیت یافتہ مقامی انتظامیہ کی وجہ سے انسانی جانوں کے لیے خطرناک بن چکے ہیں۔
اگر ہم ان حادثات کا غیر جذباتی، حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاحتی علاقوں میں مون سون کے دوران بغیر کسی نگرانی کے عوام کو جانے کی اجازت دینا دانشمندی ہے؟ جب متعلقہ اداروں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کئی دن پہلے موصول ہو جاتی ہے، توکیا یہ اداروں کی ذمے داری نہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں میں سیاحت پر وقتی پابندی عائد کریں؟ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پالیسی ہمیشہ ردعمل پر مبنی ہوتی ہے، پیشگی حکمتِ عملی کا فقدان ہمیں ہر بار انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے، بارشوں کا نظام غیر متوازن ہو چکا ہے، اور فلیش فلڈز اب ایک معمول بن چکے ہیں۔ برساتی جھیلوں اور تالاب کا رجحان بھی ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ یہ اگر ہوں تو ان سے زیر زمین سطح آب، جو ہمارے شہری علاقوں میں تیزی سے نیچے جارہی ہے، اسے بڑھانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
ہمیں اپنے موسمیاتی پیٹرن کا عمیق مطالعہ کر کے ضرورت کے مطابق منصوبے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال مون سون میں سیکڑوں جانوں اور اربوں روپے کے نقصانات کا سلسلہ رک سکے اور اربن فلڈنگ کا مستقل اور دیر پا حل تلاش کیا جائے۔ بارش سے ہونے والے حادثات کو دیکھا جائے تو ان میں انتظامی سے زیادہ انسانی غفلت نمایاں نظر آتی ہے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے مون سون سے قبل احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر شہریوں کی جانب سے حکومتی ہدایات کو نظر اندازکیا جاتا ہے، اگر عوام سب کچھ حکومت پر چھوڑنے کے بجائے اپنے تئیں بھی برسات کے موسم میں تھوڑی سی احتیاط کریں تو بارشوں سے ہونیوالے جانی نقصان کی شرح کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔
ملک میں حالیہ اموات صرف قدرتی آفات کی وجہ سے نہیں ہوئیں، بلکہ یہ ریاستی نااہلی، ناقص شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی بے حسی کا نتیجہ تھیں۔ ہم نے اپنے قدرتی نالوں پر تجاوزات قائم کیں، درخت کاٹ کر عمارتیں بنائیں، کھلی زمینوں کو سیمنٹ اور تارکول میں بدل دیا اور بارش کے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بند کردیا۔ جب پانی کا راستہ بند ہوتا ہے تو وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے، اور پھر اس کی راہ میں جو بھی آئے، وہ تباہی کی زد میں آ جاتا ہے۔اس المیے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتوں نے عوام کو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات کے بارے میں شعور دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
پارلیمان کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر باقاعدہ قانون سازی کرے، صوبائی اسمبلیاں اس کی توثیق کریں اور ہر سطح پر اس پر عملدرآمد کی نگرانی کی جائے۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ ان سانحات کے بعد بھی کوئی بڑی پالیسی تبدیلی یا سنجیدہ تجزیہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حادثات کے بعد چند روزہ اخباری بیانات، کچھ دکھاوے کی میٹنگز اور پھر حسبِ معمول خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ نہ ہی کوئی باقاعدہ انکوائری کی جاتی ہے، نہ ہی ذمے داران کا تعین ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، نئے موضوعات زیرِ بحث آجاتے ہیں اور پچھلے حادثات محض یاد داشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
شدید بارشیں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ سمجھی جا رہی ہیں، جو آنے والے وقت میں پاکستانیوں کی طرز زندگی کو بدل کر کے رکھ دے گی، اس بگڑتی ہوئی صورت حال کی ایک بڑی وجہ شمالی علاقوں، خاص طور پر گلگت بلتستان میں گلیشیئرزکے تیزی سے پگھلنے کو قرار دیا جا رہا ہے، ایک وقت میں ان گلیشیئرزکی تعداد سات ہزار سے زیادہ بتائی جاتی تھی، لیکن ان کا غیر متوقع طور پر تیزی سے ختم ہونا پاکستان بھر میں بدلتے موسموں کا واضح ثبوت ہے۔ درختوں کی تیزی سے کٹائی اور ان کی جگہ نئے درخت نہ لگانے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو مزید سنگین بنا دیا ہے، ایک غیر یقینی مستقبل کی جھلک 2010 میں ہنزہ وادی میں عطا آباد جھیل کے قیام کے ساتھ دیکھی گئی۔سیاحت کو اگر محفوظ بنایا جانا ہے تو اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے تو مون سون سیزن کے دوران حساس علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کی جائے۔ اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہے جس میں مقامی حکومت، پولیس، محکمہ موسمیات، اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارے باہم مربوط ہو کر فیصلے کریں۔ دوسرا، مقامی کمیونٹیز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے کہ وہ خود بھی قدرتی آفات میں بروقت ردعمل دے سکیں، اور باہر سے آنے والے سیاحوں کی حفاظت کر سکیں۔
تیسرا، سیاحوں کے لیے ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے جس میں سفر سے پہلے رجسٹریشن، راستوں کی معلومات اور خطرناک علاقوں سے اجتناب جیسی ہدایات لازمی ہوں۔ انفرا اسٹرکچرکی تعمیر میں پائیداری اور موسمی حالات کو مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ یہ بات اب بار بار ثابت ہو چکی ہے کہ کمزور پل، ناقص سڑکیں اور غیر محفوظ ہوٹل یا کیمپنگ ایریاز حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ اگر حکومت سیاحت کو معیشت کا انجن بنانا چاہتی ہے، تو اسے انفرا اسٹرکچر پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بھی ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان میں شفافیت اور پائیداری کو یقینی بنایا جائے۔موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بھی ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
درختوں کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کی تباہی اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات نے لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کی کمزوری میں اضافہ کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو نہ صرف ایک جامع نیشنل کلائمیٹ ایڈاپٹیشن پالیسی کی ضرورت ہے بلکہ اس پالیسی کو ضلعی سطح تک نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکیں۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی جان صرف ایک عدد نہیں، بلکہ ایک خاندان، ایک نسل اور ایک خواب کا نام ہوتی ہے۔
جب ایک سیاح کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے پیچھے رہ جانے والے افراد عمر بھر کے دکھ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگر ایک جان بھی محفوظ کی جا سکتی ہو تو اس کے لیے اقدامات کرنا حکومت اور معاشرے دونوں کی اخلاقی ذمے داری ہے۔آخر میں، ہمیں بحیثیتِ قوم یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم ہر سال مون سون میں سانحات کا سامنا کرنے کو اپنی تقدیر سمجھ چکے ہیں، یا ہم اس دائرے کو توڑ کر ایک ذمے دار، محفوظ اور منصوبہ بند معاشرہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کا آغاز آج، ابھی اور یہیں سے ہونا چاہیے۔ قدرتی آفات کو ہم نہیں روک سکتے، مگر اپنے رویوں، پالیسیوں اور ترجیحات کو ضرور بدل سکتے ہیں تاکہ قدرتی آفات سے جنم لینے والے مسائل پر جلد از جلد قابو پا سکیں۔