Daily Ausaf:
2025-09-18@13:55:17 GMT

ماہ صیام اور مہنگائی کا طوفان

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

یوں تو قمری سال کے بارہ مہینے اللہ رب العزت کے ودیعت کردہ ہیں لیکن ماہِ صیام عبادت و تقویٰ کا خاص مہینہ کہلایا جاتا ہے۔ یہ تیس دن برکتوں اور رحمتوں کا منبع رہتے ہیں، امت مسلمہ کے لیے تزکیۂ روح اور سکونِ قلب کا ذریعہ اور وسیلہ بنتے ہیں۔ یہ وہ مقدس و مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ کی آخری کتاب قرآنِ کریم کو اُتارا گیا جو ذریعۂ ہدایت اور مکمل ضابطۂ حیات بھی ہے۔ یہی وہ محترم مہینہ ہے جس میں دوزخ کے دروازے بند کرکے شیاطین پابندِ سلاسل کر دئیے جاتی ہیں اور جنت کے دروازے مومنوں کے لیے وا کردئیے جاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے کہ ’’رمضانِ المبارک میں شیاطین پابندِ سلاسل کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘ صبح و شام اللہ رب العزت کی رحمتیں نازل ہورہی ہوتی ہیں اور ہر روزہ روح و قلب کو پاک و شفّاف کردیتا ہے۔ رمضان کی آمد پر رسولِ کریمﷺ برکتوں، فضیلتوں اور نعمتوں پر مشتمل خطبے عطا فرماتے اور صحابہ کرام ؓکو ماہِ صیام کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
لیکن ہم اللہ رب العزت اور اس کے رسول ﷺ کے احکام اور ہدایت کے برعکس اس عظمت اور برکت والے مہینے سے جو مادّی فوائد حاصل کررہے ہیں، وہ انتہائی شرمناک اور دینِ حق سے رو گردانی کے مترادف ہیں۔
اس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ ہوشربا گرانی نے پہلے ہی غریب عوام کی کمر توڑ رکھی ہے لیکن رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ بالخصوص ایسی اشیاء جو ہر خاص و عام سحر وافطار میں کثرت سے استعمال کرتے ہیں، دیگر ضروریاتِ زندگی کا بھی کچھ یہی احوال ہے۔ پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ نہ جانے کہاں جاکر سو جاتا ہے کہ ہر ہول سیلر اور دکان دار اپنے پسند کی قیمتیں وصول کررہے ہوتے ہیں اور کوئی داد فریاد نہیں سنتا نظر آرہا ہوتا ہے۔ مذہبی تقدس کے اعتبار سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دکان دار اور متعلقہ تاجر حضرات اس مبارک مہینے میں رضا کارانہ طور پر اشیائے صَرف کی قیمتیں کم کردیتے یا بالفاظِ دیگر منافع میں کچھ کمی کرلیتے لیکن ہمارے یہاں تو اس متبرک مہینے کو ’’سیزن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے گویا سال بھر کی روٹیاں اس ایک مہینے میں سمیٹ لینے کی لگن نظر آرہی ہوتی ہے۔ جبکہ غیر مسلم ممالک میں تو مسلمانوں کے لیے خصوصی رعایتی قیمتیں رکھ دی جاتی ہیں تاکہ وہ اس مقدس ماہ میں آرام و سکون کے ساتھ اپنی عبادت کر پائیں اور ہمارے ملک میں اس کا الٹ ہی نظر آرہا ہوتا ہے کہ عوام عبادت کی جگہ اس فکر میں مبتلا نظر آرہے ہوتے ہیں کہ سحر و افطار کے لیے انتظام کیسے کر پائیں گے، اللہ رب العزت ہی بس ہدایت دیں ان منافع خوروں اور مفاد پرستوں کہ ان کے دلوں میں خوفِ الٰہی پیدا ہو پائے آمین۔
ہفتہ کی بات ہے، ہم نے ایک پھل فروش سے امرود کے دام پوچھے تو ’’دو سو پچاس روپے کلو ہیں جناب‘‘ وہ بڑی گرم جوشی سے بولا۔ ہم نے کہا میاں چند روز قبل ہم نے دو سو روپے کلو خریدے تھے، رمضان کا اعلان ہوتے ہی ایک دم قیمت بڑھ گئی۔ اس نے کڑی نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور بھنّا کر بولا۔ ’’کون سا غضب ہوگیا صاحب، پچاس ہی روپے تو بڑھائے ہیں۔‘‘ گویا گراں فروشی میں اب دھونس، دھاندلی اور زبردستی بھی چل پڑی ہے۔ ’’لینا ہے تو لو ورنہ گھر کا راستہ پکڑو، روزہ ہنڈیا والے نمک سے افطار کرلینا۔‘‘
اس موقع پر ہمیں اپنے ایک واقف کار یاد آرہے ہیں۔ وہ کسی مقصد سے اسرائیل گئے اور تل ابیب کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ یہودیوں کی فطرت، خصلت، منافع خوری اور موقع پرستی وغیرہ سے کون واقف نہیں ہے۔ ہوا یوں کہ ایک دن وہ صاحب ہوٹل سے نکل کر بازار پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عام دنوں کے مقابلے میں ہر چیز کم قیمت پر فروخت کی جا رہی تھی۔ آخر ایک دکان دار سے پوچھ لیا۔ ’’حضرت یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ اس یہودی نے بڑے فخر سے کہا۔ ’’آج ہمارا مذہبی تہوار ہے اور آج کے دن کے تقدس کے پیشِ نظر ہم منافع نہیں لیتے، ہر چیز اصل قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو یہودی جیسی مطعون قوم کے اس عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے مگر یہاں کون کرتا ہے ایسا۔ یہ تو دکان داروں کی بات تھی، کسی بھی طرف چلے جائیں ماہِ رمضان میں لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم نظر آرہا ہوتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں رشوت کے بھائو بڑھ جاتے ہیں۔ آخر ان بے چاروں نے بھی اپنے گھر والوں کے بھی تو عید کی تیاری کرنی ہوتی ہے ناں۔ حرام و حلال کے چکر میں پڑنے کی نہ انہیں فرصت ہے نہ ہوتی۔ درحقیقت جائز و ناجائز کا امتیاز کسی ملک کے ماحول اور معاشرے سے بنتا ہے جبکہ ہمارے یہاں سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے کوشاں نظر آرہے ہوئے ہیں۔ کسی شعبے میں کوئی سسٹم اور کوئی نظام نہیں ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز ہی کو لے لیجئے جن کی تعداد محض خانہ پُری کا حق ادا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں‘ آدمی روزہ رکھ کر یوٹیلیٹی اسٹور پر سودا خریدنے جاتا ہے اور روزہ کھول کر واپس آتا ہے۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی گھنٹوں لائن میں لگ کر منزلِ مقصود یعنی اسٹور تک پہنچتا ہے اور وہاں جاکر پتا چلتا ہے کہ اس کی مطلوبہ چیز ہی موجود نہیں ہے۔ یہ یوٹیلیٹی اسٹور جو غریبوں کے لیے قائم کئے گئے ہیں دراصل انہی کے لیے درد سر بنے نظر آرہے ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اللہ رب العزت ہوتا ہے جاتا ہے ہوتے ہی کے لیے

پڑھیں:

وزیراعلیٰ سندھ کی آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھنے اور غیرضروری مہنگائی روکنے کی ہدایت

کراچی:

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے میں گندم کے ذخائر اور فراہمی کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کے پاس فروری کے اختتام تک کے لیے وافر ذخائر موجود ہیں اور متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھی جائے اور غیرضروری مہنگائی روکی جائے۔

وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں اجلاس ہوا جہاں بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس وقت سندھ کے پاس 13 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے اور وزیراعلیٰ کے سوال پر بتایا گیا کہ سندھ اور بلوچستان کے لیے مشترکہ طور پر ماہانہ گندم کی ضرورت 4 لاکھ ٹن ہے جبکہ عام مارکیٹ میں مزید 6 لاکھ ٹن گندم دستیاب ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ ذخائر صوبے کو فروری 2026 تک سہارا دینے کے لیے کافی ہیں، اجلاس میں حکام نے بتایا کہ نئی فصل مارچ میں آنے کی توقع ہے جس سے سپلائی کا تسلسل قائم رہے گا۔

وزیراعلیٰ نے اسٹریٹجک ذخائر برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا اور ہدایت کی کہ فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے بروقت انتظامات کیے جائیں۔

انہوں نے محکمہ خوراک کو ہدایت کی کہ گندم اجرا پالیسی تیار کرکے حکومت کو منظوری کے لیے پیش کی جائے۔

مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ گندم کے آٹے کی قیمتوں کی سخت نگرانی کی جائے تاکہ دستیاب ذخائر کے باوجود کسی غیر ضروری اضافے سے بچا جا سکے اور عوام کو مناسب قیمت پر آٹا میسر رہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے صوبے کے عوام کے لیے غذائی تحفظ اور قیمتوں کا استحکام یقینی بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصداضافہ
  • ملائیشیا: طوفان کے باعث تودے گرنے سے 13 افراد جاں بحق
  • ملائیشیا میں تودے گرنے سے متعدد افراد جاں بحق
  • وزیراعلیٰ سندھ کی آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھنے اور غیرضروری مہنگائی روکنے کی ہدایت
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
  • ملائیشیا میں طوفانی بارشوں سے تودے گرنے کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک
  • شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز
  • سیلاب مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ‘ سٹیٹ بنک : شرح سود 11فیصدبرقرار
  •  امریکی ریاست یوٹا میں بگولوں سے کئی مکانات تباہ
  • امریکی ریاست میں بگولوں کے باعث کئی مکانات تباہ