Daily Ausaf:
2025-09-18@15:58:09 GMT

نیٹو سربراہان کا بڑا ردعمل

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

امریکی صدر سے جھڑکیاں کھانے کے بعد یوکرینی صدر کا برطانوی وزیراعظم نے لندن، ڈائوننگ سٹریٹ میں بڑی خوش دلی سے استقبال کیا۔ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے یورپی ممالک کے رہنمائوں پر مشتمل اہم اجلاس بلایا تھا جس میں یوکرین کی حمایت اور سلامتی کے حوالے سے جائزے کے بعد طے پایا کہ یورپ اور نیٹو ممالک جنگ کے خاتمے تک یوکرین کی مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔ یوکرین مشرقی یورپ میں آتا ہے جو روس کے بعد یورپ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی پچاسی فیصد آبادی عیسائی مذہب پر مشتمل ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے ہٹ کر اہل یورپ کا یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونا علاقائی امن و امان اور سلامتی کے لحاظ سے ایک سیاسی مجبوری ہے کیونکہ یوکرین روس اور یورپ کے درمیان ایک ’’بفر سٹیٹ‘‘ ہے۔
امریکہ کے وائٹ ہائوس میں جو واقعہ پیش آیا وہ قابل افسوس ضرور یے مگر صدر ٹرمپ کے علاوہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہ مجبوری ہے کہ وہ دنیا میں جنگوں کو فروغ دے کر اپنا اسلحہ بیچنے کے مواقع تلاش کرتا رہے اور خود کو ایک سپر پاور منوانے کا سلسلہ جاری رکھے۔
وائٹ ہائوس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ملاقات کے مناظر میں واضح طور پر ٹرمپ کے بائیں جانب بیٹھے ٹرمپ کے نائب جے ڈی وینس نے زیلنسکی پر تنقید کا آغاز کرتے ہوئے ان کو کھری کھری سنانا شروع کیں اور پھر اس میں ٹرمپ بھی شامل ہو گئے۔ اس میٹنگ میں ایسا لگا کہ وینس ٹرمپ کے منہ میں الفاظ دے رہا تھا کہ یوکرینی صدر کو کس طرح کے جواز کی بنیاد پر رسوا کرنا ہے جس کے بعد ٹرمپ نے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک اگلی کے اشارے سے دو تین بار زیلنسکی کو دھمکایا اور پھر کسی معاہدہ پر دستخط کیے بغیر اور انہیں کھانا تک کھلائے بغیر وائٹ ہائوس سے چلتا کر دیا۔
یوکرائن کے صدر امریکی صدر سے وائٹ ہائوس میں بے عزت ہونے کے باوجود شہرت کے بام عروج پر ہیں۔ دنیا کی اکثریت کو روس اور یوکرائن کی جنگ کا تو علم تھا مگر یوکرائن کے صدر کا نام بہت کم لوگ جانتے تھے۔ لیکن اب ہر طرف یوکرینی صدر زیلنسکی کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے کہ اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پوٹن کے بعد یوکرین کے صدر دنیا کی معروف ترین شخصیت بن گئے ہیں۔
اگرچہ یوکرینی صدر زیلنسکی پر الزام ہے کہ وہ ایک عامر حکمران ہے مگر روسی صدر پوٹن اس سے کئی گنا زیادہ آمریت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک 5 سالہ اقتدار میں رہنے والا زیلنسکی ایک 26 سالہ اقتدار پر چمٹے ڈکٹیٹر پوٹن سے بہتر ہی ہو سکتا ہے۔ روس کو پیوٹن سے جان چھڑانی چاہیے کہ جس طرح زیلنسکی اپنے ملک میں مخالف عوام اور سیاست دانوں وغیرہ کو پابند سلاسل رکھتا ہے پوٹن اس سے کئی گنا زیادہ بری سیاست سے اپنے مخالفین کو روندتا چلا آ رہا ہے جو 1999 ء سے ترامیم کر کر کے اقتدار پر قابض ہے اور آگے بھی اقتدار پر قابض رہنا چاہتا ہے۔
شاید آپ کو علم ہو کہ روس اور یوکرین کے صدور ہم نام ہیں۔ یوکرین کے صدر کا پورا نام ویلادومیر زیلنسکی ہے اور روس کے صدر کا پورا نام ویلادومیر پوٹن ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ، ’’نام میں کیا رکھا ہے۔‘‘ دنیا میں آج اصل اہمیت ذرائع اور پیسے کی ہے اور جو حسن سلوک ٹرمپ نے زیلنسکی کے ساتھ کیا ذرائع اور دولت کے اعتبار سے ایک کمزور ملک کے طور پر وہ اسی سلوک کا مستحق تھا کیونکہ امریکہ اور یورپ اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر اس صورتحال حال کو اب بھرپور طریقے سے کیش کرنا چاہتے ہیں۔
جب روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کے نتیجے میں یورپی یونین اور برطانیہ نے مجموعی طور پر روس کے 235 ارب ڈالرز منجمد کر لئے تھے۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران یورپی یونین اور برطانیہ نے مجموعی طور پر صرف 45ارب ڈالرز یوکرین کو دیئے ہیں جن میں 35ارب ڈالرز قرضے کی مد میں دیئے گئے تھے۔ مزید برآں امریکہ جس وجہ سے اب تلملا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ نے امریکہ سے ساڑھے تین سو ارب ڈالرز نیٹو سپورٹ کی مد میں لے لئے تھے۔ یورپ اور برطانیہ کیلئے یہ جنگ اپنی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کا ذریعہ ہے، جتنی زیادہ یہ جنگ لمبی ہو گی، اتنی ہی دیر تک روس کے ڈھائی سو ارب ڈالرز یورپ کے قبضے میں رہیں گے۔ اس کی آسان اور سادہ مثال یہ ہے کہ ڈھائی سو ارب ڈالرز پر 7فیصد شرح سود کے حساب سے یورپی یونین اور برطانیہ نے مجموعی طور پر 77ارب ڈالرز بطور منافع کما لیا ہو گا، جبکہ صرف 45ارب ڈالرز یوکرین کو دیئے جس کا زیادہ تر حصہ قرضہ ہے جس پر مزید سود کی شکل میں منافع یورپ اور برطانیہ کو جائے گا۔
اس طرح روس یوکرین جنگ کو جاری رکھنا یورپ کیلئے اپنی ڈوبتی معیشتوں کو بچانے کا ذریعہ ہے۔ اگر ٹرمپ اس جنگ سے امریکہ کو علیحدہ کر لیتا ہے تو روس ان تمام یورپی ممالک کیلئے ڈرانا خواب بن سکتا ہے۔ یوکرینی صدر کے برطانیہ میں برخلاف توقع استقبال کو کچھ تجزیہ کار امریکہ اور یورپ کے ٹھن جانے کے پیش نظر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں مگر آخر میں وہی ہو گا جو دوسری جنگ عظیم میں ہوا یعنی یورپ ایک مرتبہ پھر امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز تو ہو گا مگر امریکہ کی نظر میں اس جنگ سے امریکہ سے زیادہ یورپ نے فائدہ اٹھایا جس وجہ سے امریکی صدر نے نیا معاہدہ نئی شرائط کے ساتھ کرنے کے لیئے زیلنسکی کو دنیا بھر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی اور اسی پس منظر میں برطانوی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے زیلنسکی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے کیونکہ اس سے قبل یہ معاہدہ وائٹ ہاس میں دونوں صدور کی گرما گرم بحث کے باعث عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔
امریکہ اور یورپ ہی نے زیلنسکی کو یوکرین پر مسلط کیا تھا۔ کہا جاتا یے کہ زیلنسکی تو ایک ڈانسر اور جوکر تھا جسے امریکہ نے خصوصی طور پر صدارت کے عہدے پر بٹھانے میں مدد کی جو مطلب نکل جانے پر اس سے جان چھڑانا چاہتا ہے یا اندرون خانہ اسے مزید استعمال کر کے اپنا اسلحہ بیچنا چاہتا ہے۔
یورپ کا زیلنسکی کو اکیلا نہ چھوڑنے کا عہد بتاتا ہے کہ یہ جنگ مزید طول پکڑے گی۔ یورپ کا اس معاملے میں اتحاد کا مظاہرہ انتہائی اہم ہے جس میں پورے یورپ کے سربراہان نے شرکت کی اور یوکرین کی پیٹھ ٹھوکنے میں پولینڈ، لتھوینیا، ڈینمارک، فرانس، مالدووا، سویڈن، جرمنی، کروشیا، نیدرلینڈ لکسمبرگ اور دیگر یورپی ممالک کے سربراہان کے علاوہ کینیڈین، جاپانی، اور دیگر بہت سے ممالک نے بھی اپنے اپنے انداز میں یوکرین کے ساتھ کھڑا ہونے کے حق میں بیانات دیئے۔ یہ ایسی صورتحال ہے کہ جس سے امریکہ فائدہ اٹھائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منہ پھٹ اور جذباتی ضرور ہیں مگر انہوں سرخ بال دھوپ میں سفید نہیں کیئے ہیں کیونکہ زیلنسکی کے یوٹرن سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ کھیلنے کے لئے بال دوبارہ امریکہ کے کورٹ میں چلی گئی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اور برطانیہ یوکرینی صدر زیلنسکی کے وائٹ ہائوس امریکی صدر زیلنسکی کو یوکرین کی ارب ڈالرز یوکرین کے سے امریکہ اور یورپ نے اپنے ٹرمپ کے یورپ کا یورپ کے کے ساتھ روس اور کے صدر ہے اور روس کے کے بعد صدر کا

پڑھیں:

31 سالہ فلسطینی نوجوان غزہ سے جیٹ اسکی پر یورپ پہنچ گیا

غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے دو ساتھیوں کے ہمراہ جیٹ اسکی کے ذریعے خطرناک سمندری سفر کرتے ہوئے یورپ پہنچنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ سفر ایک سال سے زائد عرصے پر محیط تھا، جس میں ہزاروں ڈالر، کئی ناکام کوششیں اور غیر معمولی ہمت شامل تھی۔ ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں نے لیمپیڈوسا (اٹلی) کے قریب سمندر میں ایندھن ختم ہونے کے بعد مدد کے لیے کال کی، جس کے بعد ریسکیو آپریشن کے ذریعے انہیں بحفاظت ساحل تک پہنچایا گیا۔

ابو دخہ نے بتایا کہ انہوں نے جیٹ اسکی لیبیا سے خریدی اور جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس کے ساتھ سفر کیا۔ ان کے ساتھ دو اور فلسطینی ضیا اور باسم بھی شامل تھے۔ تینوں نے تقریباً 12 گھنٹے مسلسل سمندر میں سفر کیا اور تیونس کی گشت کرتی کشتیوں سے بچتے رہے۔

لیمپیڈوسا پہنچنے کے بعد انہیں اٹلی سے برسلز اور پھر جرمنی پہنچایا گیا، جہاں انہوں نے پناہ کی درخواست دی ہے۔ ابو دخہ نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو بھی جرمنی بلا سکیں گے۔ ان کا خاندان اب بھی خان یونس کی خیمہ بستی میں مقیم ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • ڈرون کا مقابلہ کرنے کیلیے ناٹو کا مزید اقدامات پر غور
  • اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
  • ہمارے منجمد اثاثوں کو یوکرین کی جنگی امداد کیلئے استعمال کرنے پر سخت کارروائی کریں گے، روس
  • مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
  • نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائن دھماکوں کے ملزم کی جرمنی حوالگی
  • 31 سالہ فلسطینی نوجوان غزہ سے جیٹ اسکی پر یورپ پہنچ گیا
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • روس پر پابندیاں لگانے کیلیے تیار ہیں، امریکا کے قطر کیساتھ خاص تعلقات ‘ اسرائیل کو محتاط رہنا ہوگا‘ ٹرمپ
  • غزہ سے جیٹ اسکی پر یورپ پہنچنے والے فلسطینی کی سنسنی خیز کہانی
  • یورپ میں امریکا چین تجارتی ملاقات بہت کامیاب رہی، ڈونلڈ ٹرمپ