امریکی صدر سے جھڑکیاں کھانے کے بعد یوکرینی صدر کا برطانوی وزیراعظم نے لندن، ڈائوننگ سٹریٹ میں بڑی خوش دلی سے استقبال کیا۔ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے یورپی ممالک کے رہنمائوں پر مشتمل اہم اجلاس بلایا تھا جس میں یوکرین کی حمایت اور سلامتی کے حوالے سے جائزے کے بعد طے پایا کہ یورپ اور نیٹو ممالک جنگ کے خاتمے تک یوکرین کی مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔ یوکرین مشرقی یورپ میں آتا ہے جو روس کے بعد یورپ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی پچاسی فیصد آبادی عیسائی مذہب پر مشتمل ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے ہٹ کر اہل یورپ کا یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونا علاقائی امن و امان اور سلامتی کے لحاظ سے ایک سیاسی مجبوری ہے کیونکہ یوکرین روس اور یورپ کے درمیان ایک ’’بفر سٹیٹ‘‘ ہے۔
امریکہ کے وائٹ ہائوس میں جو واقعہ پیش آیا وہ قابل افسوس ضرور یے مگر صدر ٹرمپ کے علاوہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہ مجبوری ہے کہ وہ دنیا میں جنگوں کو فروغ دے کر اپنا اسلحہ بیچنے کے مواقع تلاش کرتا رہے اور خود کو ایک سپر پاور منوانے کا سلسلہ جاری رکھے۔
وائٹ ہائوس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ملاقات کے مناظر میں واضح طور پر ٹرمپ کے بائیں جانب بیٹھے ٹرمپ کے نائب جے ڈی وینس نے زیلنسکی پر تنقید کا آغاز کرتے ہوئے ان کو کھری کھری سنانا شروع کیں اور پھر اس میں ٹرمپ بھی شامل ہو گئے۔ اس میٹنگ میں ایسا لگا کہ وینس ٹرمپ کے منہ میں الفاظ دے رہا تھا کہ یوکرینی صدر کو کس طرح کے جواز کی بنیاد پر رسوا کرنا ہے جس کے بعد ٹرمپ نے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک اگلی کے اشارے سے دو تین بار زیلنسکی کو دھمکایا اور پھر کسی معاہدہ پر دستخط کیے بغیر اور انہیں کھانا تک کھلائے بغیر وائٹ ہائوس سے چلتا کر دیا۔
یوکرائن کے صدر امریکی صدر سے وائٹ ہائوس میں بے عزت ہونے کے باوجود شہرت کے بام عروج پر ہیں۔ دنیا کی اکثریت کو روس اور یوکرائن کی جنگ کا تو علم تھا مگر یوکرائن کے صدر کا نام بہت کم لوگ جانتے تھے۔ لیکن اب ہر طرف یوکرینی صدر زیلنسکی کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے کہ اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پوٹن کے بعد یوکرین کے صدر دنیا کی معروف ترین شخصیت بن گئے ہیں۔
اگرچہ یوکرینی صدر زیلنسکی پر الزام ہے کہ وہ ایک عامر حکمران ہے مگر روسی صدر پوٹن اس سے کئی گنا زیادہ آمریت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک 5 سالہ اقتدار میں رہنے والا زیلنسکی ایک 26 سالہ اقتدار پر چمٹے ڈکٹیٹر پوٹن سے بہتر ہی ہو سکتا ہے۔ روس کو پیوٹن سے جان چھڑانی چاہیے کہ جس طرح زیلنسکی اپنے ملک میں مخالف عوام اور سیاست دانوں وغیرہ کو پابند سلاسل رکھتا ہے پوٹن اس سے کئی گنا زیادہ بری سیاست سے اپنے مخالفین کو روندتا چلا آ رہا ہے جو 1999 ء سے ترامیم کر کر کے اقتدار پر قابض ہے اور آگے بھی اقتدار پر قابض رہنا چاہتا ہے۔
شاید آپ کو علم ہو کہ روس اور یوکرین کے صدور ہم نام ہیں۔ یوکرین کے صدر کا پورا نام ویلادومیر زیلنسکی ہے اور روس کے صدر کا پورا نام ویلادومیر پوٹن ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ، ’’نام میں کیا رکھا ہے۔‘‘ دنیا میں آج اصل اہمیت ذرائع اور پیسے کی ہے اور جو حسن سلوک ٹرمپ نے زیلنسکی کے ساتھ کیا ذرائع اور دولت کے اعتبار سے ایک کمزور ملک کے طور پر وہ اسی سلوک کا مستحق تھا کیونکہ امریکہ اور یورپ اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر اس صورتحال حال کو اب بھرپور طریقے سے کیش کرنا چاہتے ہیں۔
جب روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کے نتیجے میں یورپی یونین اور برطانیہ نے مجموعی طور پر روس کے 235 ارب ڈالرز منجمد کر لئے تھے۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران یورپی یونین اور برطانیہ نے مجموعی طور پر صرف 45ارب ڈالرز یوکرین کو دیئے ہیں جن میں 35ارب ڈالرز قرضے کی مد میں دیئے گئے تھے۔ مزید برآں امریکہ جس وجہ سے اب تلملا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ نے امریکہ سے ساڑھے تین سو ارب ڈالرز نیٹو سپورٹ کی مد میں لے لئے تھے۔ یورپ اور برطانیہ کیلئے یہ جنگ اپنی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کا ذریعہ ہے، جتنی زیادہ یہ جنگ لمبی ہو گی، اتنی ہی دیر تک روس کے ڈھائی سو ارب ڈالرز یورپ کے قبضے میں رہیں گے۔ اس کی آسان اور سادہ مثال یہ ہے کہ ڈھائی سو ارب ڈالرز پر 7فیصد شرح سود کے حساب سے یورپی یونین اور برطانیہ نے مجموعی طور پر 77ارب ڈالرز بطور منافع کما لیا ہو گا، جبکہ صرف 45ارب ڈالرز یوکرین کو دیئے جس کا زیادہ تر حصہ قرضہ ہے جس پر مزید سود کی شکل میں منافع یورپ اور برطانیہ کو جائے گا۔
اس طرح روس یوکرین جنگ کو جاری رکھنا یورپ کیلئے اپنی ڈوبتی معیشتوں کو بچانے کا ذریعہ ہے۔ اگر ٹرمپ اس جنگ سے امریکہ کو علیحدہ کر لیتا ہے تو روس ان تمام یورپی ممالک کیلئے ڈرانا خواب بن سکتا ہے۔ یوکرینی صدر کے برطانیہ میں برخلاف توقع استقبال کو کچھ تجزیہ کار امریکہ اور یورپ کے ٹھن جانے کے پیش نظر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں مگر آخر میں وہی ہو گا جو دوسری جنگ عظیم میں ہوا یعنی یورپ ایک مرتبہ پھر امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز تو ہو گا مگر امریکہ کی نظر میں اس جنگ سے امریکہ سے زیادہ یورپ نے فائدہ اٹھایا جس وجہ سے امریکی صدر نے نیا معاہدہ نئی شرائط کے ساتھ کرنے کے لیئے زیلنسکی کو دنیا بھر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی اور اسی پس منظر میں برطانوی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے زیلنسکی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے کیونکہ اس سے قبل یہ معاہدہ وائٹ ہاس میں دونوں صدور کی گرما گرم بحث کے باعث عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔
امریکہ اور یورپ ہی نے زیلنسکی کو یوکرین پر مسلط کیا تھا۔ کہا جاتا یے کہ زیلنسکی تو ایک ڈانسر اور جوکر تھا جسے امریکہ نے خصوصی طور پر صدارت کے عہدے پر بٹھانے میں مدد کی جو مطلب نکل جانے پر اس سے جان چھڑانا چاہتا ہے یا اندرون خانہ اسے مزید استعمال کر کے اپنا اسلحہ بیچنا چاہتا ہے۔
یورپ کا زیلنسکی کو اکیلا نہ چھوڑنے کا عہد بتاتا ہے کہ یہ جنگ مزید طول پکڑے گی۔ یورپ کا اس معاملے میں اتحاد کا مظاہرہ انتہائی اہم ہے جس میں پورے یورپ کے سربراہان نے شرکت کی اور یوکرین کی پیٹھ ٹھوکنے میں پولینڈ، لتھوینیا، ڈینمارک، فرانس، مالدووا، سویڈن، جرمنی، کروشیا، نیدرلینڈ لکسمبرگ اور دیگر یورپی ممالک کے سربراہان کے علاوہ کینیڈین، جاپانی، اور دیگر بہت سے ممالک نے بھی اپنے اپنے انداز میں یوکرین کے ساتھ کھڑا ہونے کے حق میں بیانات دیئے۔ یہ ایسی صورتحال ہے کہ جس سے امریکہ فائدہ اٹھائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منہ پھٹ اور جذباتی ضرور ہیں مگر انہوں سرخ بال دھوپ میں سفید نہیں کیئے ہیں کیونکہ زیلنسکی کے یوٹرن سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ کھیلنے کے لئے بال دوبارہ امریکہ کے کورٹ میں چلی گئی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اور برطانیہ یوکرینی صدر زیلنسکی کے وائٹ ہائوس امریکی صدر زیلنسکی کو یوکرین کی ارب ڈالرز یوکرین کے سے امریکہ اور یورپ نے اپنے ٹرمپ کے یورپ کا یورپ کے کے ساتھ روس اور کے صدر ہے اور روس کے کے بعد صدر کا
پڑھیں:
ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہو گئے ہیں۔ دونوں اطراف کہہ رہے ہیں کہ معاہدہ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ایران اپنا نیو کلئیر پروگرام بند کرنے اور امریکا معاشی پابندیاں ختم کرنے کے اشارے دے رہا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر اس کے ساتھ ا چھی ڈیل کی جائے تو وہ ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ اگر ڈیل نہ کی گئی توپھر اس کے پاس ایٹم بم بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اب کیا یہ ڈیل ہو جائے گی۔
ویسے تو یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوکرین کے پاس تو ایٹمی صلاحیت موجود تھی۔ اس وقت یوکرین پر بھی ایسے ہی دباؤ ڈالاگیا۔اس سے اس کی ایٹمی صلاحیت واپس لے لی گئی۔ ا س وقت یوکرین کو بھی یہی یقین دلایا گیا تھا کہ یوکرین کی سیکیورٹی دنیا کے ذمے ہوگی۔ امریکا سمیت سب نے یوکرین کو اس کے دفاع کی ضمانت دی۔
یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت کے سبز باغ بھی دکھائے گئے۔ لیکن آج یوکرین کی حالت دیکھیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ امریکا اس تنازع سے پیچھے ہٹ چکا ہے، یورپ بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے۔ یوکرین کو یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے۔ یوکرین کے ایک بڑے حصہ پر روس قبضہ کر چکا ہے۔ اور دنیا یوکرین کی مزید مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب یوکرین کو سرنڈر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یوکرین کو شکست تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ یوکرین تنہا نظر آرہا ہے۔
اگر آج یوکرین کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی تو کیا روس یوکرین پر حملہ کر سکتا تھا۔ ایٹمی طاقت دفاع کی ضامن ہے۔ پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے۔ جب سے پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کی ہے۔ بھارت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کئی دفعہ جنگ کے قریب آئے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کی ایٹمی طاقت ہی جنگ روک رہی ہے۔
ایرن اور امریکا کے درمیان معاہدہ کو ان مثالوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے کافی قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران چھ ماہ میں چار ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں۔ اسی لیے ایران سے فوری ڈیل کی بات کی جا رہی ہے۔ اسرائیل بھی ایران سے ڈیل کے حق میں نظر آرہا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج ایران سے ڈیل کے لیے امریکا کیوں بے تاب ہے۔ ایٹمی ایران ایک خطرناک ملک ہوگا۔
ایران اس وقت امریکا سے صلح کرے گا۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ایران کے سب اتحادی بری طرح مارے گئے ہیں۔ حماس بھی ایران کا اتحادی ہے۔ حماس کی لڑائی بھی ایران کی لڑائی تھی۔ لیکن ایران نے حماس کا کوئی خاص ساتھ نہیں دیا۔ ایران غزہ کی جنگ سے دوررہا۔ اس نے اسرائیل سے جنگ سے اجتناب کیا ہے۔
ایران اور اسرائیل جنگ کے قریب آئے لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ اسی طرح حزب اللہ بھی ایران کا اتحادی ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے اور ایران، اسرائیل حزب اللہ جنگ سے دور رہا۔ اس نے عملی طورپر حزب اللہ کا کوئی ساتھ نہیں دیا پھر آپ حوثیوں کو دیکھ لیں۔ انھیں بھی ایران کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اب جب امریکا حوثیوں پر حملے کر رہا ہے تو بھی ایران خاموش ہے۔
حال ہی میں سعودی وزیر دفاع نے ایران کا دورہ کیا۔ ان کی ایرانی سپریم لیڈر آئت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری پر بات ہوئی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی حوثیوں پر ہی تنازعہ تھا۔
ایسے میں اس جنگ میں ایران حوثیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن اب جب امریکا نے حوثیوں پر حملے شروع کیے ہیں تو ایران نے حوثیوں کی ویسی مدد نہیں کی جیسی توقع تھی۔ ایران نے حوثیوں کے ساتھ بھی وہی پالیسی رکھی جو اس نے حزب اللہ اور حماس کے ساتھ رکھی۔ ایران نے ہر دفعہ خود جنگ سے بچنے کے لیے اتحادیوں کی قربانی دی ہے۔ ایران نے خود کو بچانے کی ضرورت کو اہم رکھا ہے۔
آج بھی ایران جنگ سے بچنے کے لیے امریکا سے معاہدہ کا خواہش مند لگ رہا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ اگر جنگ کے بادل ایران سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے۔ اس لیے ایران امریکا سے صلح کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکا سے ڈیل میں اسرائیل سے ڈیل بھی شامل ہوگی۔ ایران امن کی ضمانت چاہے گا۔ ایران یہ تو نہیں چاہے گا کہ وہ ایٹمی پروگرام بھی بند کر دے۔ امریکا سے معاہدہ بھی کر لے اور پھر اسرائیل حملہ بھی کر دے۔ اس لیے میری رائے میں ایران امریکا مذاکرات میں اسرائیل شامل ہے۔ ایران کا مفاد اسی میں ہے کہ اسرائیل سے امن کی شرط بھی شامل ہو۔
لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج جو معاہدہ ہوگا وہ قائم رہے گا۔ ایران نے تو دیکھا ہے کہ کیسے معاہدے یک طرفہ توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایران ایٹمی پروگرام ختم کر دیتا ہے پھر کیا ہوگا۔ کیا پھر اسرائیل سے حملہ نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ایران کے پاس ڈرون ہیں۔ روائتی ہتھیار بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے وہ روائتی ہتھیاوں سے ایران کا تحفظ کر سکتا ہے۔ لیکن روائتی ہتھیار اور ایٹم کی طاقت میں فرق ہے ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔