Daily Ausaf:
2025-11-03@16:56:50 GMT

نیٹو سربراہان کا بڑا ردعمل

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

امریکی صدر سے جھڑکیاں کھانے کے بعد یوکرینی صدر کا برطانوی وزیراعظم نے لندن، ڈائوننگ سٹریٹ میں بڑی خوش دلی سے استقبال کیا۔ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے یورپی ممالک کے رہنمائوں پر مشتمل اہم اجلاس بلایا تھا جس میں یوکرین کی حمایت اور سلامتی کے حوالے سے جائزے کے بعد طے پایا کہ یورپ اور نیٹو ممالک جنگ کے خاتمے تک یوکرین کی مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔ یوکرین مشرقی یورپ میں آتا ہے جو روس کے بعد یورپ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی پچاسی فیصد آبادی عیسائی مذہب پر مشتمل ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے ہٹ کر اہل یورپ کا یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونا علاقائی امن و امان اور سلامتی کے لحاظ سے ایک سیاسی مجبوری ہے کیونکہ یوکرین روس اور یورپ کے درمیان ایک ’’بفر سٹیٹ‘‘ ہے۔
امریکہ کے وائٹ ہائوس میں جو واقعہ پیش آیا وہ قابل افسوس ضرور یے مگر صدر ٹرمپ کے علاوہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہ مجبوری ہے کہ وہ دنیا میں جنگوں کو فروغ دے کر اپنا اسلحہ بیچنے کے مواقع تلاش کرتا رہے اور خود کو ایک سپر پاور منوانے کا سلسلہ جاری رکھے۔
وائٹ ہائوس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ملاقات کے مناظر میں واضح طور پر ٹرمپ کے بائیں جانب بیٹھے ٹرمپ کے نائب جے ڈی وینس نے زیلنسکی پر تنقید کا آغاز کرتے ہوئے ان کو کھری کھری سنانا شروع کیں اور پھر اس میں ٹرمپ بھی شامل ہو گئے۔ اس میٹنگ میں ایسا لگا کہ وینس ٹرمپ کے منہ میں الفاظ دے رہا تھا کہ یوکرینی صدر کو کس طرح کے جواز کی بنیاد پر رسوا کرنا ہے جس کے بعد ٹرمپ نے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک اگلی کے اشارے سے دو تین بار زیلنسکی کو دھمکایا اور پھر کسی معاہدہ پر دستخط کیے بغیر اور انہیں کھانا تک کھلائے بغیر وائٹ ہائوس سے چلتا کر دیا۔
یوکرائن کے صدر امریکی صدر سے وائٹ ہائوس میں بے عزت ہونے کے باوجود شہرت کے بام عروج پر ہیں۔ دنیا کی اکثریت کو روس اور یوکرائن کی جنگ کا تو علم تھا مگر یوکرائن کے صدر کا نام بہت کم لوگ جانتے تھے۔ لیکن اب ہر طرف یوکرینی صدر زیلنسکی کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے کہ اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پوٹن کے بعد یوکرین کے صدر دنیا کی معروف ترین شخصیت بن گئے ہیں۔
اگرچہ یوکرینی صدر زیلنسکی پر الزام ہے کہ وہ ایک عامر حکمران ہے مگر روسی صدر پوٹن اس سے کئی گنا زیادہ آمریت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک 5 سالہ اقتدار میں رہنے والا زیلنسکی ایک 26 سالہ اقتدار پر چمٹے ڈکٹیٹر پوٹن سے بہتر ہی ہو سکتا ہے۔ روس کو پیوٹن سے جان چھڑانی چاہیے کہ جس طرح زیلنسکی اپنے ملک میں مخالف عوام اور سیاست دانوں وغیرہ کو پابند سلاسل رکھتا ہے پوٹن اس سے کئی گنا زیادہ بری سیاست سے اپنے مخالفین کو روندتا چلا آ رہا ہے جو 1999 ء سے ترامیم کر کر کے اقتدار پر قابض ہے اور آگے بھی اقتدار پر قابض رہنا چاہتا ہے۔
شاید آپ کو علم ہو کہ روس اور یوکرین کے صدور ہم نام ہیں۔ یوکرین کے صدر کا پورا نام ویلادومیر زیلنسکی ہے اور روس کے صدر کا پورا نام ویلادومیر پوٹن ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ، ’’نام میں کیا رکھا ہے۔‘‘ دنیا میں آج اصل اہمیت ذرائع اور پیسے کی ہے اور جو حسن سلوک ٹرمپ نے زیلنسکی کے ساتھ کیا ذرائع اور دولت کے اعتبار سے ایک کمزور ملک کے طور پر وہ اسی سلوک کا مستحق تھا کیونکہ امریکہ اور یورپ اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر اس صورتحال حال کو اب بھرپور طریقے سے کیش کرنا چاہتے ہیں۔
جب روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کے نتیجے میں یورپی یونین اور برطانیہ نے مجموعی طور پر روس کے 235 ارب ڈالرز منجمد کر لئے تھے۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران یورپی یونین اور برطانیہ نے مجموعی طور پر صرف 45ارب ڈالرز یوکرین کو دیئے ہیں جن میں 35ارب ڈالرز قرضے کی مد میں دیئے گئے تھے۔ مزید برآں امریکہ جس وجہ سے اب تلملا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ نے امریکہ سے ساڑھے تین سو ارب ڈالرز نیٹو سپورٹ کی مد میں لے لئے تھے۔ یورپ اور برطانیہ کیلئے یہ جنگ اپنی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کا ذریعہ ہے، جتنی زیادہ یہ جنگ لمبی ہو گی، اتنی ہی دیر تک روس کے ڈھائی سو ارب ڈالرز یورپ کے قبضے میں رہیں گے۔ اس کی آسان اور سادہ مثال یہ ہے کہ ڈھائی سو ارب ڈالرز پر 7فیصد شرح سود کے حساب سے یورپی یونین اور برطانیہ نے مجموعی طور پر 77ارب ڈالرز بطور منافع کما لیا ہو گا، جبکہ صرف 45ارب ڈالرز یوکرین کو دیئے جس کا زیادہ تر حصہ قرضہ ہے جس پر مزید سود کی شکل میں منافع یورپ اور برطانیہ کو جائے گا۔
اس طرح روس یوکرین جنگ کو جاری رکھنا یورپ کیلئے اپنی ڈوبتی معیشتوں کو بچانے کا ذریعہ ہے۔ اگر ٹرمپ اس جنگ سے امریکہ کو علیحدہ کر لیتا ہے تو روس ان تمام یورپی ممالک کیلئے ڈرانا خواب بن سکتا ہے۔ یوکرینی صدر کے برطانیہ میں برخلاف توقع استقبال کو کچھ تجزیہ کار امریکہ اور یورپ کے ٹھن جانے کے پیش نظر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں مگر آخر میں وہی ہو گا جو دوسری جنگ عظیم میں ہوا یعنی یورپ ایک مرتبہ پھر امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز تو ہو گا مگر امریکہ کی نظر میں اس جنگ سے امریکہ سے زیادہ یورپ نے فائدہ اٹھایا جس وجہ سے امریکی صدر نے نیا معاہدہ نئی شرائط کے ساتھ کرنے کے لیئے زیلنسکی کو دنیا بھر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی اور اسی پس منظر میں برطانوی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے زیلنسکی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے کیونکہ اس سے قبل یہ معاہدہ وائٹ ہاس میں دونوں صدور کی گرما گرم بحث کے باعث عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔
امریکہ اور یورپ ہی نے زیلنسکی کو یوکرین پر مسلط کیا تھا۔ کہا جاتا یے کہ زیلنسکی تو ایک ڈانسر اور جوکر تھا جسے امریکہ نے خصوصی طور پر صدارت کے عہدے پر بٹھانے میں مدد کی جو مطلب نکل جانے پر اس سے جان چھڑانا چاہتا ہے یا اندرون خانہ اسے مزید استعمال کر کے اپنا اسلحہ بیچنا چاہتا ہے۔
یورپ کا زیلنسکی کو اکیلا نہ چھوڑنے کا عہد بتاتا ہے کہ یہ جنگ مزید طول پکڑے گی۔ یورپ کا اس معاملے میں اتحاد کا مظاہرہ انتہائی اہم ہے جس میں پورے یورپ کے سربراہان نے شرکت کی اور یوکرین کی پیٹھ ٹھوکنے میں پولینڈ، لتھوینیا، ڈینمارک، فرانس، مالدووا، سویڈن، جرمنی، کروشیا، نیدرلینڈ لکسمبرگ اور دیگر یورپی ممالک کے سربراہان کے علاوہ کینیڈین، جاپانی، اور دیگر بہت سے ممالک نے بھی اپنے اپنے انداز میں یوکرین کے ساتھ کھڑا ہونے کے حق میں بیانات دیئے۔ یہ ایسی صورتحال ہے کہ جس سے امریکہ فائدہ اٹھائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منہ پھٹ اور جذباتی ضرور ہیں مگر انہوں سرخ بال دھوپ میں سفید نہیں کیئے ہیں کیونکہ زیلنسکی کے یوٹرن سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ کھیلنے کے لئے بال دوبارہ امریکہ کے کورٹ میں چلی گئی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اور برطانیہ یوکرینی صدر زیلنسکی کے وائٹ ہائوس امریکی صدر زیلنسکی کو یوکرین کی ارب ڈالرز یوکرین کے سے امریکہ اور یورپ نے اپنے ٹرمپ کے یورپ کا یورپ کے کے ساتھ روس اور کے صدر ہے اور روس کے کے بعد صدر کا

پڑھیں:

’استغفراللہ کہنا مناسب نہیں تھا‘، صبا قمر کے کراچی سے متعلق بیان پر حنا بیات کا ردعمل

سینئر اداکارہ حنا خواجہ بیات نے اداکارہ صبا قمر کے کراچی سے متعلق بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’استغفراللہ کہنا مناسب نہیں تھا‘ اور شہریوں کے درمیان تفریق کے بجائے ملک کے اتحاد پر زور دیا۔

گزشتہ دنوں ایک پوڈکاسٹ میں گفتگو کے دوران صبا قمر نے کہا تھا کہ انہیں کراچی پسند نہیں، وہ وہاں صرف کام کے سلسلے میں جاتی ہیں اور کام مکمل ہوتے ہی واپس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد چلی جاتی ہیں۔

میزبان نے جب ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے کبھی مستقل طور پر کراچی منتقل ہونے کا سوچا ہے؟ تو صبا قمر نے فوراً ’استغفراللہ‘ کہتے ہوئے جواب دیا کہ انہیں سندھ کا دارالحکومت پسند نہیں۔

اداکارہ کی جانب سے کراچی کو ناپسند کرنے اور اس کے ذکر پر ’استغفراللہ‘ پڑھنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین سمیت شوبز شخصیات نے بھی انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جب کہ کئی افراد نے ان کی حمایت بھی کی۔

اسی تنازع پر معروف اداکارہ حنا خواجہ بیات نے حال ہی میں اپنے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ردعمل دیا۔

ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ ایک پرانی کہاوت ہے ’پہلے تولو پھر بولو‘، کیونکہ بعض اوقات ہم مذاق میں ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جن کے پیچھے کوئی تلخ حقیقت یا منفی رویہ چھپا ہوتا ہے۔

حنا خواجہ بیات کے مطابق لوگ درست کہہ رہے ہیں کہ صبا قمر کو کراچی کے بارے میں اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے تھی، کیونکہ ’استغفراللہ‘ کہنا کراچی کے شہریوں کی دل آزاری کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خود اپنے اردگرد ایسے کئی لوگوں کو جانتی ہیں جو کراچی والوں کے لہجے، شہر کی بدبو اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اداکارہ کے مطابق وہ ساری عمر کراچی میں رہی ہیں، یہ ان کا شہر اور ان کا گھر ہے، انہوں نے کراچی کی بربادی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اور روز دیکھ بھی رہی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لاہور کی خوبصورتی اور ہریالی کی تعریف نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ وہ لاہور کی تعریف کرتی ہیں مگر اس کی اسموگ یا فضائی آلودگی کا مذاق نہیں اڑاتیں، کیونکہ کسی کو نیچا دکھا کر آپ بہتر نہیں بن سکتے۔

ان کے مطابق شہروں کے درمیان یہ تفریق ایک غیر ضروری لڑائی بن چکی ہے۔

حنا بیات نے کہا کہ کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں ملک کے ہر حصے سے لوگ اور مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں، یہ ایک ثقافتی امتزاج ہے جو پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ کراچی میں کام کرنے آتے ہیں، انہیں شہر پر تنقید کا حق ضرور ہے، مگر وہ تعمیری ہونی چاہیے۔

اپنے پیغام کے اختتام پر حنا بیات نے کہا کہ پاکستان ہمارا گھر ہے اور تمام شہر اس گھر کے مختلف کمرے ہیں، ہم چاہے کسی بھی شہر میں رہیں، ہمیں پورے ملک کا مالک بننا چاہیے، نہ کہ صرف اپنے اپنے شہر کا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی والوں کی روایت رہی ہے کہ وہ پاکستان کے ہر حصے کے لوگوں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، اس لیے دوسرے شہروں کے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ کراچی کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔

View this post on Instagram

A post shared by Hina Bayat (@hinakhwajabayatofficial)

متعلقہ مضامین

  • خفیہ ایٹمی تجربہ کرنیکا الزام، صدر ٹرمپ کے بیان پر چین کا ردعمل سامنے آگیا
  • خفیہ ایٹمی تجربہ کرنے کا الزام؛ صدر ٹرمپ کے بیان پر چین کا ردعمل سامنے آگیا
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعوی
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • ’استغفراللہ کہنا مناسب نہیں تھا‘، صبا قمر کے کراچی سے متعلق بیان پر حنا بیات کا ردعمل
  • پاکستان آئیڈل میں جج بننے پر تنقید، فواد خان کا ردعمل آگیا
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • پینٹاگون نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنیوالے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنےکی منظوری دیدی
  • ای چالان یورپ جیسا اور سڑکیں کھنڈر، کراچی کے شہریوں کی تنقید