ماہ رمضان امسال بھی ہمارے نصیب کا حصہ بن گیا ہے ۔رب کریم کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اس مقدس عبادت کا ہمیں ایک بار پھر موقعہ فراہم کیا ہے ۔یہاں ایک امر کی وضاحت ضروری ہے کہ آخر اس ماہ مقدس کا نام ’’رمضان‘‘ ہی کیوں رکھا گیا کہ رمضان کے لغوی معنی تو تپش اور گرمی کے ہیں ۔
علمائے امت کا فرمانا ہے کہ ’’ اس لفظ کے معنی ہیں جھلسا دینے والا اور اس کی تعبیر یہ ہے کہ یہ ماہ معظم ہمارے گناہوں کو جھلسا کر مٹادیتا ہے ،انہیں خاکستر کردیتا ہے ۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ روزہ ہمیشہ سے ایک مقدس عبادت رہا ہے ،جو انسان کی روحانی پاکیزگی کا بڑا ذریعہ تو ہے ہی اس کے ساتھ ضبط نفس کا بھی کام کرتا ہے ،جس کی وجہ سے ہم اپنی خواہشات کے حصار سے نکل کر رب کے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں ۔اس پر مستزاد یہ کہ نبی آخرالزمان زمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو روزہ تفویض کیا گیا وہ نہایت متوازن اور رحمتوں سے لبریز ہے۔جو اللہ کے عدل و قسط اور حکمت کا بھی مظہر ہے کہ مریضوں ،مسافروں اور دیگر معذوریاں رکھنے والے افراد کو رخصت سے نوازا گیا ہے ۔
مفسرین قرآن کے مطابق سب سے پہلے اللہ کے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کی امت پر روزہ فرض کیا گیا جو کہ ہرقمری مہینے کی 13،14 اور 15 کو روزہ رکھتی تھی(ایام بیض) اس کے بعد میں مبعوث فرمائے جانے والے انبیا ئے کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں پر مختلف نوعیت سے روزے فرض گئے گئے ۔اس لئے قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت 183 میں فرمایا ’’ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جائو‘‘ حضرت نوح علیہ السلام کی امت طوفان نوح کے بعد شکرانے کے طور،پر روزے رکھتی تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت میں روزہ عبادت کے طور پر رکھا جاتا تھا۔حضرت موسی علیہ السلام کی امت بنی اسرائیل پر بھی روزہ فرض تھا۔حضرت عیسی علیہ السلام کی امت پر بھی روزہ فرض تھا۔یہ الگ بات اس کے احکام میں تحریف کردی گئی ۔
آج بھی بعض عیسائی فرقے روزوں کااہتمام کرتے ہیں ’’ لینٹ‘‘ (lent)کے دنوں میں مخصوص کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں۔عیسائی مذہب میں lent ایک ایسا مقدس عبادتی عرصہ گردانا جاتا ہے جو ایسٹر سے پہلے چالیس ایام پر پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔یہ عام طور پر “راکھ بدھ(Ash Wednesday )سے شروع ہوتا ہے اور ایسٹر سنڈے(Easter Sunday)تک جاری رہتا ہے مگر اتوار کے دنوں کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا۔
’’لنٹ‘‘ کا مقصد بھی خود احتسابی، دعا ، روزے اور قربانی کے ذریعے روحانی پاکیزگی کا حصول ہوتا ہے۔جہاں تک امت مسلمہ کا روزہ ہے اس کا تصور دیگر امتوں کے تصورات سے یکسر جدا اور بہت ہی خوشنما ہے۔ماہ رمضان اسلامی سال کا ایک انتہائی بابرکات مہینہ تصور کیا جاتا ہے جس میں تین عشروں کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔پہلا عشرہ رحمتوں کا ہوتا ہے ،دوسرا مغفرت کا اور تیسرا برکتوں کے نزول کا۔
اگر اس ماہ مقدس کی فضیلت پر نظر ڈالیں تو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں متعین فرمائی کہ ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ،جولوگوں کے لئے ہدایت اور حق وباطل میں فرق کرنے والا ہے(سورہ البقرہ 185)
یہ ماہ مقدس و معظم ہے جس میں نزول وحی کا آغاز ہوا ، اسی میں ،رحمت ،مغفرت کا عندیہ دیا گیااور جہنم سے نجات کی نوید دی گئی۔ اس ماہ میں سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے اور نیکیوں کے انعام کو بڑھایا جاتا ہے ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس ماہ میں شب قدر کا تحفہ خوش بخت مسلمانوں کو عطا کیا جاتا ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔قرب الٰہی کے لئے اعتکاف رکھ دیا گیا ہے کہ آخر ی عشرہ مرد مساجد میں اور خواتین گھروں میں معتکف ہوں۔ روزے کی بے شمار فضیلتوں کے ساتھ اس کے کچھ حقوق بھی ہیں۔کیونکہ یہ فقط بھوک پیاس سہارنے کانام ہی نہیں اس کے کچھ آداب اور حقوق بھی ہیں جنہیں پورا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً جھوٹ، غیبت ،بد گوئی،اعضائے جسمانی یعنی آنکھ اور،کان وغیرہ کی حفاظت یہ سب روزے کے حقوق ہیں جو روحانی برکات کے لئے ضروری ہیں ۔ روزے کا حاصل یہی ہے جو ہماری قوت حیات کو تقویت دینے والے اعمال کا تقاضہ کرتا ہے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: علیہ السلام کی امت جاتا ہے ہوتا ہے گیا ہے اس ماہ
پڑھیں:
آمریت کے مقابلے میں انسانی حقوق کا تحفظ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری، یو این چیف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی آمریت، شدت اختیار کرتی عدم مساوات اور انسانی تکالیف پر خطرناک بے اعتنائی دنیا کو لاحق اخلاقی بحران کی علامت ہیں۔ رکن ممالک کو بدترین حالات میں بھی بین الاقوامی قانون قائم رکھنا اور انسانی حقوق کا دفاع کرنا ہو گا۔
حقوق کے لیے کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پراگ (چیک ریپبلک) میں منعقدہ عالمی اسمبلی سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اب پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ عالمگیر اعتماد، وقار اور انصاف کی بحالی کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔
(جاری ہے)
Tweet URLانہوں نے دنیا بھر میں جاری متعدد بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ کوئی بھی فعل اس واقعے کے بعد غزہ میں جاری موت اور تباہی کا جواز نہیں ہو سکتا جس کی گزشتہ چند دہائیوں میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی برادری میں بہت سے ممالک کی جانب سے غزہ کے مسئلے پر جس طرح کی بے اعتنائی اور بے عملی دیکھنے کو ملی ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے اور اسے ہمدردی، سچائی اور انسانیت کا فقدان کہنا چاہیے۔
انسانی اور اخلاقی بحرانسیکرٹری جنرل نے بتایا کہ غزہ میں اقوام متحدہ کا عملہ ناقابل تصور حالات میں امدادی کام کر رہا ہے جن میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو زندگی اور موت کے درمیان کی کیفیت میں محسوس کرتے ہیں۔
مئی کے بعد 1,000 سے زیادہ فلسطینی خوراک کے حصول کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ علاقے کی پوری آبادی فاقوں کا شکار ہے۔ یہ انسانی بحران ہی نہیں بلکہ اخلاقی بحران بھی ہے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور بڑے پیمانے پر امداد کی آمد ضروری ہے۔
اس کے ساتھ مسئلے کے دو ریاستی حل کی جانب بھی فوری، ٹھوس اور ناقابل واپسی قدم اٹھانا ہوں گے۔انہوں نے سوڈان سمیت دیگر مسلح تنازعات کا تذکرہ بھی کیا اور یوکرین کے خلاف روس کے حملے پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور ادارے کی متعلقہ قراردادوں کی بنیاد پر ملک میں منصفانہ اور پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیا۔
بڑھتی ہوئی آمریتسیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ دنیا بھر میں آمرانہ اقدامات زوروں پر ہیں۔ انسانی حقوق سلب کرنے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اختلافی سیاسی تحریکوں کو کچلا جا رہا ہے، جوابدہی کے طریقہ کار ختم کیے جا رہے ہیں، صحافیوں اور حقوق کے کارکنوں کو خاموش کرایا جا رہا ہے، شہری آزادیوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اور اقلیتوں کو ناکردہ گناہوں پر مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر سنگین حملے ہو رہے ہیں اور یہ سب کچھ اکا دکا واقعات نہیں بلکہ اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں کیا جا سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی کا بطور ہتھیار استعمالانتونیو گوتیرش نے کہا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم بطور ہتھیار استعمال ہونے لگے ہیں اور مصںوعی ذہانت کے الگورتھم جھوٹ، نسل پرستی، خواتین کے خلاف نفرت اور تقسیم کو ہوا دے رہے ہیں۔
انہوں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمگیر ڈیجیٹل معاہدے پر عمل کریں جسے رکن ممالک نے گزشتہ سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر منظور کیا تھا، اور آن لائن نفرت، تعصب اور گمراہ کن اطلاعات کی بیخ کنی کے لیے مضبوط اقدامات اٹھائیں۔
موسمیاتی انصاف کی ضرورتسیکرٹری جنرل نے ہنگامی موسمیاتی حالات کو انسانی حقوق کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ غریب ترین ممالک اور لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے۔
انہوں نے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے رواں ہفتے اس مسئلے پر دی گئی مشاورتی رائے کا خیرمقدم کیا جس میں کہا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی موسمیاتی نظام کو تحفظ دینے کے لیے بلاتاخیر ضروری اقدامات اٹھائیں۔
سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ غیرمنصفانہ انداز میں اور انسانی حقوق کو پامال کر کے ماحول دوست توانائی کی جانب مراجعت ناقابل قبول ہو گی۔
دنیا کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ہنگامی بنیاد پر کمی لانا ہو گی، معدنی ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی یقینی بنانا ہو گی اور ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل مہیا کرنا ہوں گے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا قابل قدر کردارخطاب کے آخر میں انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی عالمگیر مہم میں اس ادارے نے ناگزیر کردار ادا کیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہونے کا مطلب سچائی کے لیے کھڑا ہونا ہےیاد رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو 1961 میں قائم کیا گیا تھا جو حقوق کی پامالیوں کو روکنے اور انصاف کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ ادارے نے گزشتہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں اس مقصد کو لے کر اقوام متحدہ کے اشتراک سے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
آج انتونیو گوتیرش کا خطاب ایمنسٹی انٹرنیشنل کی عالمی اسمبلی میں اقوام متحدہ کے کسی سیکرٹری جنرل کی جانب سے کی جانے والی پہلی تقریر تھی۔