غیرت کے نام پر قتل کا کیس، بانو بی بی کی والدہ دو روزہ ریمانڈ پر تحقیقاتی ونگ کے حوالے
اشاعت کی تاریخ: 25th, July 2025 GMT
کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی عدالت (ATC) نے بانو بی بی کی والدہ گل جان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر سیریئس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کر دیا ہے۔ گل جان کو ایک روز قبل گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ: غیرت کے نام پر قتل، کہانی کا نیا موڑ، مقتولہ بانو کی مبینہ والدہ کا ویڈیو بیان منظرِ عام پر آگیا
انگریزی روزنامے میں شائع محمد ظفر بلوچ کی خبر کے مطابق گل جان کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ قرآن پاک اٹھائے ہوئے اپنی بیٹی کے قتل کا اقرار کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
ویڈیو میں گل جان کا کہنا تھا کہ بانو بی بی کو غیرت کے نام پر اور بلوچ قبائلی روایات کے مطابق قتل کیا گیا۔
تحقیقات کے افسر جاوید بزدار کے مطابق، گل جان نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے میں قبائلی عمائدین کا کوئی کردار نہیں اور ان کی طرف سے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کا بیان قرآن و سنت کے خلاف ہے، پاکستان علما کونسل
یاد رہے کہ ڈیگاری کے علاقے میں تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل بانو بی بی اور احسان اللہ کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: گل جان
پڑھیں:
بلوچستان واقعہ، غیرت کے نام پر قتل کی گئی خاتون کی والدہ کا متنازع بیان، مبینہ قاتلوں کی رہائی کا مطالبہ
کوئٹہ(نیوز ڈیسک)بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں پیش آنے والا غیرت کے نام پر قتل کا افسوسناک واقعہ اس وقت سوشل میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قومی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ڈیگاری غیرت قتل کیس نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا آج کے دور میں بھی رسم و رواج انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں؟
واقعے کی تفصیلات ، ایک المناک کہانی
یہ افسوسناک واقعہ عید الاضحیٰ سے تین روز قبل پیش آیا۔
بانو بی بی اور احسان اللہ کو مبینہ طور پر ایک مقامی قبائلی جرگے کے حکم پر قتل کیا گیا۔
پولیس کے مطابق پندرہ افراد تین گاڑیوں میں مقتولین کو ایک ویرانے میں لے گئے۔
واردات کے دوران فائرنگ کی گئی اور ویڈیو بھی بنائی گئی، جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
مقتولہ کی ماں کا متنازع بیان
مزید حیرت انگیز پہلو تب سامنے آیا جب مقتولہ بانو بی بی کی والدہ نے ویڈیو بیان میں کہا:
“یہ قتل بلوچی رسم و رواج کے تحت کیا گیا اور یہ سزا تھی۔”
ان کے مطابق بانو کے مبینہ تعلقات ایک لڑکے سے تھے، جس کی ٹک ٹاک ویڈیوز نے گھر والوں کو مشتعل کر دیا تھا۔
انہوں نے سردار شیر باز ساتکزئی سمیت گرفتار افراد کی رہائی کا مطالبہ بھی کر دیا۔
یہ بیان سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہے، جہاں لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ماں کو بیٹی کی جان سے زیادہ رسم و رواج عزیز ہو گئے؟
سردار شیر باز کا مؤقف: ’میری سربراہی میں کوئی جرگہ نہیں ہوا‘
سردار شیر باز ساتکزئی، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے جرگے کی صدارت کی، نے بی بی سی اردو سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی:
“میری سربراہی میں کوئی جرگہ منعقد نہیں ہوا۔”
“لوگوں نے گاؤں کی سطح پر خود ہی فیصلہ کیا۔”
یہ تضاد کیس کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاید قانون سے بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پولیس کی کارروائی اور قانونی پیشرفت
پولیس نے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ شامل دفعات:
دفعہ 302 (قتل)
7-ATA (انسداد دہشت گردی ایکٹ)
اب تک کی پیشرفت:
20 افراد گرفتار
11 افراد، جن میں سردار بھی شامل ہیں، ریمانڈ پر ہیں
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
بانو کے قتل پر انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ:
ملزمان کو سخت سزا دی جائے
غیرت کے نام پر قتل کو رسم و رواج سے جوڑنے کا سلسلہ بند کیا جائے
متاثرہ خاندان کو تحفظ اور انصاف فراہم کیا جائے
غیرت کے نام پر قتل: ایک قومی المیہ
پاکستان میں ہر سال درجنوں لڑکیاں اور خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔ ان کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں:
شادی سے انکار
تعلقات کے شبہات
ذاتی دشمنیاں
یہ جرائم اکثر جرگوں یا پنچایتوں کے فیصلوں کی آڑ میں کیے جاتے ہیں، جن کی نہ قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی انسانی بنیادوں پر جواز۔
ہماری ذمہ داری ایک اجتماعی سوچ کی ضرورت
یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں:
قانون کو بالا دستی دیں، نہ کہ قبائلی فیصلوں کو
خواتین کی جان و مال کو تحفظ فراہم کریں
مذہب اور ثقافت کے نام پر ظلم کو جائز نہ ٹھہرائیں
ڈیگاری کیس ایک امتحان ہے – ریاست خاموش نہ رہے
ڈیگاری غیرت قتل کیس صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمارے معاشرتی، قانونی اور اخلاقی رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے آواز نہ اٹھائی تو نہ جانے کتنی “بانو بیبیاں” رسم و رواج کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔