سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے کینٹ میں بزدلانہ دہشت گرد حملہ ناکام بنا کر 16 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا۔ شدید جھڑپ کے دوران 5 بہادر فوجی مادرِ وطن پر قربان ہوگئے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 4 مارچ کو خوارج عناصر نے بنوں کینٹ پر بزدلانہ دہشت گرد حملے کی کوشش کی، دہشت گردوں نے کینٹ کی سیکیورٹی کو توڑنے کی کوشش کی، تاہم پاکستان کی مستعد اور بہادر سیکیورٹی فورسز نے ان کے ناپاک عزائم کو فوری اور فیصلہ کن کارروائی کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ حملہ آوروں نے بارود سے بھری دوگاڑیاں حفاظتی دیوار سے ٹکرا دیں۔
پاک فوج کے جوانوں نے بے مثال جرات اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ آوروں کو نشانہ بنایا اور 16 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا، جن میں 4 خودکش بمبار بھی شامل ہیں۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس شدید جھڑپ میں 5 بہادر فوجی مادرِ وطن پر قربان ہو گئے، خودکش دھماکوں کی وجہ سے حفاظتی دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا، جس سے ملحقہ عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ بیان میں کہا گیا کہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس سے ایک مسجد اور رہائشی عمارت بھی تباہ ہو گئی، جس کے نتیجے میں 13 بے گناہ شہری شہید ہوگئے جب کہ 32 زخمی ہو گئے۔یوں دہشت گردوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو لیکن وہ مسلمان ہرگز نہیں ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق خفیہ اداروں کی تحقیقات میں واضح طور پر ثابت ہوا ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے میں افغان شہری براہِ راست ملوث تھے، شواہد سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانی افغانستان میں موجود خوارج کے سرغنہ کر رہے تھے۔
پاکستان اب بھی یہ امید رکھتا ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے گی اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی، پاکستان اپنی سرحدوں کے پار سے ہونے والے ان خطرات کے جواب میں ہر ممکن اقدامات اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم پر قائم ہیں، ہمارے بہادر فوجیوں اور بے گناہ شہریوں کی قربانیاں ہمارے اس غیر متزلزل عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں، ہم اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر قیمت چکانے کو تیار ہیں۔
افطارکے وقت معصوم شہریوں اور مسجدکو نشانہ بنانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان خارجیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بنوں پشاور سے 197 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی سرحد شمالی وزیرستان سے ملتی ہے اور یہ شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ کے بہت قریب ہے، جہاں سے دہشت گردی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جب وہاں سے کسی ناخوش گوار واقعے کی اطلاع نہ آتی ہو۔ دہشت گردی کے ناسور نے ملک میں دوبارہ سر اٹھایا ہے ۔
پاکستان اس ناسورکا بوجھ اٹھا کر ہی نئے سال میں داخل ہوا ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں سب سے آگے ہیں، وہ دہشت گردوں کے خلاف مسلسل انٹیلی جنس بیسڈ فوجی آپریشنز کر رہے ہیں اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں مصروف ہیں۔ قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ تاہم ان کی کوششوں کے باوجود دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنا ایک مشکل کام ہے۔
اس کی وجوہات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ سابق دور میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو واپس آنے کی اجازت دینا اور ان کی آباد کاری میں مدد فراہم کرنا، ایک بھیانک غلطی ثابت ہوئی ہے، اس کی قیمت سیکڑوں جانوں کی صورت میں ادا کی گئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ خیبر پختونخوا کی انتظامیہ کی کارکردگی ، صلاحیت،اہلیت اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیسا ہے، اس کا بھی سب کو پتہ ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیاسی بیانیہ ہو یا مذہبی قیادت کا بیانیہ ، کئی نظریاتی کمزوریوں کا شکار ہے جب کہ علاقائی مفادات اور علاقائی نفسیات اور علاقائی طبقاتی تقسیم نے بھی انتہاپسند بیانئے کی بقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی کاؤنٹرسیاسی بیانیہ تشکیل دیا اور نہ نظریاتی طور پر اپنے کارکنوں کی تربیت کی ہے ، محض بیانات دینے سے انتہاپسندی کا کلچر اور نفسیات ختم نہیں کی جاسکتی۔
اس کے لیے تعلیمی نصاب میں جوہری تبدیلی لانا ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پرانے اور بوسیدہ سماجی و معاشرتی نظام میں تبدیلی لانا ضروری ہے، جس طرح شمالی و وسطی پنجاب کے شہری علاقوں میں درمیانے طبقے کا پھیلاؤ ہوا ہے، تعلیم یافتہ اور ہنرمند طبقات وسیع ہوئے ہیں اور ان کا معاشرے میں اثر ورسوخ بڑھا ہے، کراچی اور حیدر آباد میں درمیانہ طبقہ مضبوط ہوا ہے، اسی طرح خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی ایسے اقدامات اور پالیسیوں کی ضرورت ہے جس سے پڑھے لکھے درمیانے طبقے کا حجم بڑھے۔
اقوام متحدہ بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کرچکا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد حملے بڑھنے کی وجہ ٹی ٹی پی کے لیے افغان طالبان کی مسلسل مالی اور لاجسٹک مدد ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور طاقت برقرار ہے، 2024کے دوران اْس نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ بھاری رقم فراہم کررہے ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں ٹی ٹی پی کے نئے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغان حکومت پر مسلسل اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ طالبان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں لیکن اس کے باوجود افغان سرحد سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد مسلسل پاکستان میں حملے کر رہے ہیں اور پاکستان دہشت گردی میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی افغان حکومت کو پیش کرچکا ہے۔
صوبہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی نئی لہر کے خلاف صوبے کے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کے واقعات اور امن و امان کی غیر تسلی بخش صورت حال کے خلاف عوامی سطح کا احتجاج بھی زور پکڑ رہا ہے۔ پاکستان تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے بہت سے جنگجوؤں کی واپسی کے بعد جنوبی وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں، اغوا، قتل اور بھتہ خوری میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا، جب کہ سوات اور دیر میں پاکستانی طالبان کی موجودگی سے متعلق ناقابل تردید شواہد سامنے آئے۔
بڑے واقعات کے علاوہ پورے صوبہ خیبر پختونخوا میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور خصوصاً سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ امریکی فوج کے انخلا کے بعد ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ہاتھوں جو جدید اسلحہ لگا، اس کے بعد شدت پسندوں کی کارروائیاں زیادہ پُراثر اور منظم انداز میں ہونے لگی ہیں۔ فوج متعدد آپریشنز کرچکی اور ہزاروں شہدا قربان کرچکی ہے۔
خیبر پختونخوا کے حالات پر مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ جس وقت پاکستانی فوج 2014 میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف فوجی آپریشن کررہی تھی اس وقت انھیں صرف ایک ہی گروہ کا سامنا تھا لیکن اب حافظ گل بہادرگروپ سمیت دیگرگروہ بھی متحرک ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں کثیر الجہتی ہیں ۔ سیاسی و معاشی مفاد پرستی نے بھی انتہا پسند نظریات اور عسکریت پسند گروہوں کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔ پاکستان کے اسٹرٹیجک محل وقوع نے اسے علاقائی اور بین الاقوامی تنازعات کے لیے میدان جنگ بننے کے لیے حساس بنا دیا ہے جو دہشت گردی کے پھیلاؤ کو مزید ہوا دے رہا ہے۔
سماجی و اقتصادی تفاوت، تعلیم کی کمی اور روزگارکے محدود مواقعے نے بہت سے لوگوں کو انتہا پسندانہ نظریات کے خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ دہشت گرد تنظیمیں نئے اراکین کی بھرتی کے لیے ان عوامل کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ملک کی پیچیدہ نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم نے بھی فرقہ وارانہ تشدد کو بڑھانے اور اس مسئلے کو پیچیدہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حالیہ برسوں میں پاکستانی معاشرہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف تیزی سے آواز اٹھا رہا ہے۔دہشت گرد گروہوں کے اثر و رسوخ کو روکنے اور پاکستان اور پورے خطے کے پرامن مستقبل کو فروغ دینے کے لیے سیکیورٹی فورسز، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی برادری کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی کوششیں ناگزیر ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیکیورٹی فورسز خیبر پختونخوا دہشت گردی کے دہشت گردی کی پاکستان میں ٹی ٹی پی کے کے خلاف رہا ہے نے بھی ہوا ہے کے لیے
پڑھیں:
داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
اسلام ٹائمز: اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔ پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ تحریر: محمد عامر رانا
بلوچ باغیوں کی جانب سے دہشتگردانہ حملوں میں اضافے اور اب داعش خراساں کی تنازع میں خاموش مگر حساب کے مطابق شمولیت کے بعد سے بلوچستان کا سیکیورٹی منظرنامہ تیزی سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک غیرمتوقع اقدام کے تحت داعش خراساں نے اپنے قوم پرست ایجنڈوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اپنی صفوں میں موجود باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ حال ہی میں داعش خراساں نے پاکستان میں نسلی لسانی قوم پرست تحریکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں واضح طور پر بلوچ اور پختون قوم پرست تحریکوں کو نشانہ بنایا گیا۔ گروپ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین پر بھی تنقید کی۔ ایسا کتابچہ جاری کیا جانا ہی اپنے آپ میں تشویش ناک تھا۔
تاہم اگلے دن داعش خراساں نے ایک آڈیو جاری کرکے معاملات کو مزید کشیدہ کیا جس میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اپنے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے الزام کو جواز بنا کر بلوچ باغیوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کیا۔ اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ 2016ء سے اب تک داعش خراساں بلوچستان میں 33 دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے جن کے نتیجے میں 436 افراد ہلاک اور 691 زخمی ہوئے۔ مزارات اور گرجا گھر اس کے بنیادی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ داعش خراساں نے مزارات اور گرجا گھروں پر 8 حملے کیے ہیں جبکہ سیاسی شخصیات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے وابستہ سیاستدان اس کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیو ہیلتھ ورکرز بھی اس کے اہداف میں شامل رہے ہیں۔
جے یو آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر داعش خراساں نے بلوچستان میں حملہ کیا گیا جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حمد اللہ اور مولانا عبدالواسع شامل ہیں۔ اس نے سبی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا جبکہ سب سے خطرناک حملہ سابق صدر عارف علوی پر قاتلانہ حملہ تھا، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس گروپ نے قوم پرست رہنماؤں اور ریاست نواز سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سراج رئیسانی کو 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ اس گروپ کی ایک اور اہم کارروائی مستونگ میں چینی شہریوں کا اغوا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی داعش خراساں کی کارروائیاں مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اس کی سرگرمیاں زیادہ تر قبائلی ضلع باجوڑ اور پشاور تک محدود ہیں جہاں اس نے بالترتیب 36 اور 19 حملے کیے ہیں۔ داعش خراساں، اسلام کی سلفی مکتبہ فکر کی سختی سے پیروی کرتا ہے جو باجوڑ اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں جیسے کنڑ اور نورستان میں بھی رائج ہے۔ یہ افغان علاقے جہاں داعش خراساں کی گرفت مستحکم ہے، ان کی پاکستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، تاہم بلوچستان میں اس کے آپریشنل حالات مختلف ہے۔
داعش خراساں کی سرگرمیاں صوبے کے وسطی مغربی حصے میں، کوئٹہ کے مضافات سے مستونگ، قلات اور خضدار کے کچھ حصوں پر مرکوز ہیں۔ مستونگ سے اس کی کارروائیاں بولان تک پھیلی ہوئی ہے اور سندھ کی سرحد سے متصل ضلع سبی تک اس کا دائرہ موجود ہے۔ ایک موقع پر سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی نے رپورٹ کیا کہ داعش خراساں نے صوبائی سرحد کے قریب بلوچستان میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں اور وہ سندھی نوجوانوں بالخصوص براہوئی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو استعمال کرکے سندھ میں دہشتگردی برآمد کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹس فروری 2017ء میں سیہون شریف کے مشہور مزار پر داعش خراساں کے دہشتگردانہ حملے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آئیں۔
مستونگ اور کوئٹہ کے مضافات داعش خراساں کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں اس نے بالترتیب 12 اور 10 حملے کیے ہیں۔ یہ قلات، بولان اور خضدار میں بھی موجود ہے جو قریب ہی واقع ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بلوچ کمیونٹیز آباد ہیں جن میں سے اکثر مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ جے یو آئی کو یہاں مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے اور کچھ ماہرین اس مذہبی جھکاؤ کو پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست قلات کی دیوبندی مدارس کی سرپرستی کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ خیر وجوہات سے قطع نظر، بلوچستان میں مختلف اسلامی تحریکوں بشمول تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور شیعہ تنظیموں کے درمیان مسابقت بڑھ رہی ہے۔
شیعہ مدارس نے گزشتہ 15 سالوں میں خطے میں اپنی موجودگی کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ بالخصوص لشکر جھنگوی (جو بعد میں داعش خراساں میں ضم ہوگئی) جیسے گروہوں کی جانب سے شیعہ زائرین پر حملے، مستونگ اور نوشکی اضلاع سے گزرنے والے راستوں پر کیے گئے۔ ماضی میں اکثر یہاں قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ٹی ایل پی نے بھی اس خطے میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر کراچی سے، کوئٹہ-کراچی ہائی وے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ کراچی میں رہنے والے اس علاقے کے کچھ بلوچ باشندوں نے اس اثر و رسوخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بہر حال، جے یو آئی خطے میں ایک غالب سیاسی قوت ہے اور اس کے پاس اہم انتخابی طاقت موجود ہے۔
داعش خراساں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کو نشانہ کیوں بناتا ہے، یہ انتہائی واضح ہے۔ یہ گروپ جے یو آئی کو پاکستان میں طالبان کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغان طالبان اور داعش خراساں کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں گروہوں کے درمیان اہم فرق ریاستی ڈھانچے اور خلافت کے تصور کے حوالے سے ان کے خیالات میں ہے۔
داعش خراساں کا ماننا ہے کہ طالبان قوم پرست تحریک ہے جو مغرب کی اتحادی ہے جبکہ پاکستان، دیگر مسلم ریاستوں اور طالبان کے طاقتور اشرافیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داعش خراساں کے نزدیک قوم پرستی غیراسلامی تصور ہے اور اب اس نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو ملک میں پُرتشدد اور پُرامن دونوں طرح کی قوم پرست تحریکوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہ پیشرفت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرستوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے خطرے کو بڑھا دے گی جبکہ اسلام پسند عسکریت پسندوں اور قوم پرست باغیوں کے درمیان ممکنہ جھڑپوں کو بھی متحرک کرے گی۔
اب تک دونوں فریقین نے تصادم سے گریز کیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایسے علاقوں میں سرگرم ہیں کہ جہاں بیک وقت دونوں گروپس کارروائیاں کررہے ہیں۔ تاہم ان حرکیات میں تبدیلی کا امکان ہے۔ اگرچہ بی ایل اے نے اپنی آپریشنل کارروائیوں کو صوبے کے بیشتر حصوں میں وسعت دی ہے لیکن داعش خراساں بنیادی طور پر مستونگ اور اس کے اردگرد کے علاقوں تک محدود ہے۔ اس سب کے باوجود اس کی موجودگی بی ایل اے کے لیے ایک اہم خلفشار بن سکتی ہے۔
یہ غیر یقینی ہے کہ آیا یہ ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے لیے اچھی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے ایک تنازع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو بیک وقت دو مخالفین کو کمزور کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ داعش خراساں کی جانب سے اپنی آپریشنل حکمت عملی کو ترک کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ گروہ حالات سے موافق ہوسکتا ہے اور خود کو مزید بڑھا سکتا ہے جو بلوچستان میں پہلے سے غیر مستحکم سیکیورٹی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنے گا۔
اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914647/is-k-in-balochistan