ملٹری ٹرائل کیس، آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا: سپریم کورٹ بار
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کےد وران سپریم کورٹ بار نے تحریری معروفضات میں کہا ہے کہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کر رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ میں شامل ہیں، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بنچ کا حصہ ہیں ۔
سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کرا دی گئیں ۔
سپریم کورٹ بار کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریر معروضات میں کہا گیا کہ سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جاچکا ہے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
لاہور بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کا حوالہ دیا اور مؤقف اپنایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ بتائیں سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے، مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
ایڈووکیٹ حامد خان نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا، جب آرمی ایکٹ آیا اس وقت پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تھا، پاکستان میں پہلا آئین 1956 میں آیا، پہلے آئین میں بنیادی حقوق پہلی مرتبہ متعارف کرائے گئے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آرمی ایکٹ کی شقوں کو سپریم کورٹ بار ملٹری ٹرائل
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے عمران خان جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے وکلا درخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کے شیر افضل مروت سے متعلق سخت ریمارکس، وکلا سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے قرار دیا کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کا مؤقف تھا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی۔
جسٹس صلاح الدین پنور نے کیس سے متعلق ریمارکس دیے کہ کسی قتل اور زنا کے مقدمہ میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب جسٹس صلاح الدین پنور جسٹس ہاشم کاکڑ جسمانی ریمانڈ سپریم کورٹ عمران خان