چین 2030 کے لگ بھگ مریخ سے نمونے حاصل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کرےگا
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
بیجنگ :چین کی قومی عوامی کانگریس کےنمائندے اور چائنا ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کارپوریشن سے تعلق رکھنے والے سن زے چو نے سی ایم جی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ چین 2030 کے لگ بھگ مریخ سے نمونے لینے اور زمین پر واپس آنے کے منصوبے پر عمل درآمد کرے گا۔سن زے چو کا کہنا تھا کہ مریخ سے نمونے لینے اور واپسی کا مشن 2030 کے لگ بھگ ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل چین چاند پر چار لینڈنگ، مریخ پر ایک لینڈنگ ، غیر زمینی نمونے لینے اور پھر زمین واپسی کے دو تجربات حاصل کرچکا تھا، جس سے مریخ کے نمونے لیکر زمین پر واپسی کے عمل درآمد کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ چونکہ مریخ اور چاند بہت مختلف ہیں، چاند پر اڑان زمین کی کشش ثقل کے ایک بٹہ چھ حصے کے اثرات پر قابو پانا ہے جبکہ مریخ پر زمین کی کشش ثقل کے ایک تہائی حصے کے اثرات پر قابو پانا ضروری ہے اور ایک ہی وزنی بوجھ کو مریخ کی سطح سے مریخ کے مدار تک لے جانے کے لیے زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے، لہذا اس حوالے سے اب بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔سن زے چو نے کہا کہ مریخ زمین سے سب سے زیادہ مماثلت رکھنے والا سیارہ ہے اور دنیا بھر کے ممالک مریخ کی کھوج کرنا چاہتے ہیں ، اس سے کرہ عرض جیسے سیاروں اور نظام شمسی کی تشکیل اور ارتقا ء کے بارےمیں معلومات میں اضافہ ہوگا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
جعلی بیج زراعت اور کلائیمیٹ چینج
جی آپ نے درست سنا کہ 19 جولائی کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بیج فراہم کرنے والی 400 کمپنیوں کے لائسنس معطل کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدام زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ کمپنیاں کسانوں کو جعلی بیج فراہم کرنے میں ملوث پائی گئیں۔ کسان ان کمپنیز کے بیجوں پر بھروسہ کرتے تھے لیکن اب یہ سن کر زمین اور کسان دونوں کو جھٹکا لگا ہوگا۔ زمین کے نیچے سے زمین سرک گئی ہوگی اور کسان کے سر پر سے سایہ چھن گیا ہوگا۔
جن کمپنیز پر آسرا کیا ہوا تھا معلوم ہوا کہ یہ وہی بیج ہیں جو مٹی میں جب مل جاتے تو ان بیجوں کی ناکامی سے زمین بانجھ ہو جایا کرتی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ جتنے بیج استعمال ہو رہے تھے اس کا نصف جعلی بیج کہلاتے تھے لیکن کسانوں کو کیا معلوم اور زمین خاموشی سے یہ ظلم کب سے سہے جا رہی تھی۔
ہر سال فی ایکڑ پیداوار میں کمی بھی ہو رہی تھی تو اس کا الزام ماہرین زراعت سے لے کر کسان اور کالم نگار سب بیج کے علاوہ دیگر امور کو مورد الزام ٹھہراتے۔ کسان ہر سال زمین کی تیاری پر پہلے سے زیادہ محنت کرتا، پانی ڈالتا، راتوں کو اٹھ اٹھ کر پانی کی باری لگاتا، خوب محنت و مشقت کرتا رہا لیکن جب فصل کم ہوتی تو پانی کی کمی کا رونا، کبھی زمین کی زرخیزی کی شکایت۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ کمپنیاں سالہا سال سے جعلی بیج زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں بیچ رہی تھیں۔ جس کے نتیجے میں کم پیداوار اور ملک کی مجموعی پیداوار میں زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
چند سالوں سے اب کلائیمیٹ چینج کا کاندھا بازار میں دستیاب ہے، جعلی بیج بونے کے بعد پیداوار میں کمی کا رونا رونے کے لیے موسمی تبدیلی کے کندھے پر سر رکھ کر رو لیتے ہیں۔ ٹھیک ہے کلائیمیٹ چینج کے اثرات اپنی جگہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن موسمی تبدیلی کو خواہ مخواہ دھر لینے کا فیشن بھی چل نکلا ہے۔
اس کی آڑ میں وہ جعلی بیج فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنا دامن بچائے جا رہی تھیں۔ حکومت کو دیر بلکہ بہت زیادہ دیر سے معلوم ہوا کہ اصل مجرم تو یہ ناقص بیج ہیں جو زمین میں مل کر دھرتی کو خون کے آنسو رلا دیتے ہیں۔ اصلی کھاد ہاتھ جوڑ لیتی کہ آپ کے کیے دھرے کا الزام اب میرے سر لگے گا۔ بات کچھ یوں ہے کہ جعلی کھاد بھی دستیاب ہے جو کم دام میں مل جائے اور جب جعلی بیج اور جعلی کھاد مل کر کھیتوں میں خوب دھما چوکڑی مچاتے ہیں کہ اس جرم کے پیچھے ہر کوئی موسمیاتی تبدیلی کا ذکر لے بیٹھتا ہے۔ بات مکمل نہیں ہوتی جب تک مثلث کو مکمل نہ کیا جائے۔ حیران نہ ہوں کسان بھائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیسے بچانے کی خاطر سستی ادویات کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
اب تینوں جب مل جاتے ہیں تو نتائج کا ذمے دار آج کل صرف اور صرف کلائیمیٹ چینج کو قرار دیا جاتا ہے اب یہ حقیقت بھی بنتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کلائیمیٹ چینج کے اثرات ہیں جو زمین کی اداسی کو بڑھا رہی ہے اسے گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ زمین ان اثرات کے زیر اثر بہے چلی جا رہی ہے اور کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جس طرح جعلی بیجوں کا خیال حکومت کو 15 سے 20 سال کے بعد آیا اسی طرح کچھ نہ کچھ اب موسمیاتی تبدیلی کا خیال بھی آ ہی گیا ہے لیکن اسے ایک فی صد کہہ سکتے ہیں۔
اسی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث چکوال میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تھا۔ 450 ملی میٹر بارش ہوئی۔ نصف درجن سے زائد ڈیمز ٹوٹ گئے۔ پورے شہر میں اور ارد گرد کے مختلف گاؤں دیہاتوں میں لوگوں کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ اس کلائیمیٹ چینج کے اثرات زمینوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں چند ایک تنظیمیں ہیں جو اس پر کام کر رہی ہیں بلکہ ملک کے ایک نام ور ماہر کلائیمیٹ چینج جناب مجتبیٰ بیگ اپنے ذاتی وسائل اور قیمتی وقت خرچ کرکے کلائیمیٹ جرنلسٹ تیار کر رہے ہیں جوکہ موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہر اول دستے کا کام کریں گے۔
اب زراعت کو بچانے کے لیے بھی کلائیمیٹ چینج کے اثرات کم کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ اب پاکستان کی زراعت کو جعلی بیجوں، جعلی کھاد اور جعلی ادویات کے ساتھ ساتھ کلائیمیٹ چینج کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے جعلی بیجوں کے سلسلے میں 400کمپنیوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح اب جعلی کھاد کے علاوہ جب کھاد کا سیزن ہوتا ہے تو اصلی کھاد چھپا لی جاتی ہے۔ کئی عشرے قبل یہ کام ذخیرہ اندوز کیا کرتے تھے۔ وہ لالچ کے تحت معمولی منافع کے عوض پھر کھاد فروخت بھی کر دیتے تھے۔
اسی طرح جعلی ادویات کا اسٹاک ختم ہوتا تو مارکیٹ میں اصلی ادویات تھوڑے مہنگے داموں فروخت کر دیتے۔ اب بات ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھ سے نکل کر مافیا کے ہاتھ آ گئی ہے۔ جو انتہائی ذہانت، مہارت اور سائنسی انداز میں بڑے کیلکولیشن کے ساتھ مارکیٹ پر قبضہ کرتے ہیں اور سائنسی اصولوں کے تحت بڑی ذہانت کے ساتھ اپنے حق میں نتائج حاصل کرتے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے حکام کے پاس کار سرکار کے ہزاروں کام ہوتے ہیں، ان کا ایک ایک منٹ ، ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہوتا ہے اور اب موسمیاتی تبدیلی کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے لہٰذا اتنا وقت نہیں ہوتا کہ توجہ دی جائے لہٰذا جب تک زراعت کو ترجیح نہیں دی جائے گی اسی طرح جعلی بیج ادویات کھاد مہنگی ہو کر ملتی رہیں گی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کسانوں اور شہروں میں شہریوں تک سب کو شدید متاثر کرتے رہیں گے۔ لہٰذا موسمیاتی تبدیلی کو بھی ترجیحات میں شامل کیا جائے اور اس کے لیے فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔