کیا یورپ امریکہ سے طلاق کیلئے تیار ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: نیٹو کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر روس نے کسی نیٹو کے رکن یورپی ملک پر حملہ کیا تو امریکہ کو فوری طور پر یورپ میں تعینات اپنی 1 لاکھ فوج بڑھا کر 3 لاکھ کرنا پڑے گی۔ لہذا امریکہ سے خودمختار ہونے کی صورت میں یورپ کو روس کے ممکنہ فوجی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم 3 لاکھ امریکی فوجیوں جنتی فوج درکار ہو گی جس کے لیے یورپ کو 50 نئے بریگیڈ تشکیل دینے پڑیں گے۔ دوسری طرف یورپی ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی کمان کا فقدان بھی پایا جاتا ہے جس کے باعث دفاعی امور مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ روس کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپ کو 1400 ٹینک، 2000 فوجی گاڑیاں اور 700 توپیں درکار ہوں گی۔ اس مقدار کے حصول کے لیے یورپ کو اپنی فوجی پیداوار میں شدید اضافہ کرنا پڑے گا۔ تحریر: حسین مہدی تبار
"کیا ہمارے بغیر روس کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟"۔ یہ سوال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم سے پوچھا۔ اگرچہ ٹرمپ کے اس سوال کا مقصد صرف یورپی رہنماوں کی تحقیر تھی لیکن اس مسئلے نے کافی عرصے سے یورپی حکمرانوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کر رکھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں یورپ امریکہ کی فوجی مدد کے بغیر اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ اگر امریکہ یوکرین کی مدد نہ کرتا تو جنگ دو ہفتوں کے اندر اندر روس کی فتح کے ساتھ ختم ہو جاتی۔ دوسری طرف بعض یورپی رہنما مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمونوئیل میکرون یورپ کے لیے علیحدہ سے فوجی اتحاد کی تشکیل پر زور دیتے ہیں جبکہ جرمنی کے آئندہ ممکنہ صدر فریدرش مرتس بھی سیکورٹی شعبے میں امریکہ سے علیحدگی کا تصور پیش کرتے ہیں۔
معروف سیاسی ماہر اسٹیفن والٹ اس بارے میں کہتے ہیں کہ جغرافیائی لحاظ سے کسی خطرے کو زیادہ قریب سمجھنا امریکہ اور یورپ کے درمیان اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے۔ یورپی حکمران روس کو اپنے لیے اصل خطرہ تصور کر رہے ہیں جبکہ امریکہ میں دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی اس بات پر اتفاق رائے رکھتی ہیں کہ مستقبل قریب میں امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ چین ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے اپنی تمام تر طاقت اور وسائل چین کے خلاف جمع کرنا شروع کر دیے ہیں اور عین ممکن ہے روس کے مقابلے میں یورپ کو اکیلا چھوڑ دے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی حکمران اس بات سے شدید پریشان ہیں کہ یوکرین جنگ میں روس کی کامیابی کی صورت میں پیوتن کی جرات بڑھ جائے گی اور وہ یورپ کے خلاف مزید اقدامات انجام دے سکتے ہیں۔
لہذا یورپی حکمران اپنے دفاع میں خودمختار ہونے پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ان کے لیے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ یورپ کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونا چاہیے اور ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ امریکہ کی مدد ہمیشہ جاری رہے گی۔ لیکن براعظم یورپ جس نے گذشتہ 75 برس سے اپنے دفاع کے لیے امریکہ پر انحصار کیا ہے اس کے لیے اب دفاعی شعبے میں خودمختار ہونا آسان کام نہیں ہے۔ یورپ اس مسئلے میں کئی چیلنجز سے روبرو ہے۔ یورپی پالیسیوں کا تجزیہ و تحلیل کرنے والا تحقیقاتی ادارہ CEPA اس بارے میں اپنی رپورٹ میں کہتا ہے کہ امریکہ سے خودمختار ہونے میں یورپ کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے: اسٹریٹجک صلاحیتیں، آپریشنل توانائیاں اور فوجی طاقت۔
اس تحقیقاتی ادارے کی نظر میں یورپ کی سب سے بڑی دفاعی کمزوری "اسٹریٹجک توانائیوں" میں مضمر ہے۔ یعنی اس کی صلاحیتیں، فوجی ذخائر اور وسائل اس حد تک نہیں ہیں جو فوجی آپریشن کو اثربخش اور نتیجہ خیز ثابت کر سکیں۔ امریکہ کے پاس بہت سی فوجی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جن میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کے اسٹریٹجک سسٹمز، انٹیلی جنس وسائیل اور نظارت اور جاسوسی کے آلات ہیں اور اگر امریکہ ان شعبوں میں یورپ کی مدد چھوڑ دیتا ہے تو یورپ شدید مسائل کا شکار ہو جائے گا۔ یورپ کو درپیش دوسرا بڑا مسئلہ اپنی جنگ میں فوجی آپریشنز انجام دینے کی صلاحیت ہے۔ نیٹو میں فضائی، بری اور مشترکہ کمانڈ امریکی افسروں کے پاس ہے جس کے باعث یوں دکھائی دیتا ہے کہ یورپی کمانڈرز امریکی افسروں کے بغیر فوجی اقدامات انجام دینے سے قاصر ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ گذشتہ 75 برس میں صرف امریکہ نے ہی نیٹو کے ذریعے حقیقی جنگیں لڑی ہیں۔
اس بارے میں تھنک ٹینک "بروگل" (Bruegel) اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: "یورپ کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ امریکہ بغیر روس کے مقابلے میں اپنا دفاع کر سکے"۔ روسی فوج اس وقت 2022ء کی نسبت بہت بڑی، تجربہ کار اور فوجی وسائل سے لیس ہو چکی ہے جب اس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ روس آرمی اور اس کے سربراہان اب بہت سی جنگوں سے تجربات حاصل کر چکے ہیں۔ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس کی فوجی مصنوعات میں 2022ء کی نسبت 220 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یورپ کو اپنی فوجی مصنوعات کی پیداوار اس حد تک بڑھانے کے لیے سالانہ طور پر 250 ارب یورو بڑھانے کا بجٹ درکار ہے۔ اس مقدار میں بجٹ میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ یورپ کا فوجی بجٹ اس کی جی ڈی پی کے 2 فیصد سے بڑھ کر 3.
نیٹو کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر روس نے کسی نیٹو کے رکن یورپی ملک پر حملہ کیا تو امریکہ کو فوری طور پر یورپ میں تعینات اپنی 1 لاکھ فوج بڑھا کر 3 لاکھ کرنا پڑے گی۔ لہذا امریکہ سے خودمختار ہونے کی صورت میں یورپ کو روس کے ممکنہ فوجی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم 3 لاکھ امریکی فوجیوں جنتی فوج درکار ہو گی جس کے لیے یورپ کو 50 نئے بریگیڈ تشکیل دینے پڑیں گے۔ دوسری طرف یورپی ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی کمان کا فقدان بھی پایا جاتا ہے جس کے باعث دفاعی امور مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ روس کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپ کو 1400 ٹینک، 2000 فوجی گاڑیاں اور 700 توپیں درکار ہوں گی۔ اس مقدار کے حصول کے لیے یورپ کو اپنی فوجی پیداوار میں شدید اضافہ کرنا پڑے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کا مقابلہ کرنے کے لیے خودمختار ہونے کے لیے یورپ کو کا مقابلہ کر میں یورپ کو امریکہ سے درکار ہو کرنا پڑے کی فوجی کہ یورپ روس کے
پڑھیں:
ٹرمپ بمقابلہ مسک: ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلئے تیار رہو،امریکی صدر
نیویارک(اوصاف نیوز)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایلون مسک کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ آئندہ انتخابات میں ڈیموکریٹس کی حمایت کرتے ہیں تو ان کے خلاف سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے امریکی میڈیا سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور مسک کے درمیان تعلقات بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جو حالیہ دنوں میں ایک عوامی بحران کی صورت میں سامنے آیا۔
اس دوران برنس ٹائیکون ایلون مسک نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کو مجرم جنسی حملہ آور جیفری ایپسٹین سے جوڑنے والی پوسٹ ہٹا دی۔
تاہم جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا مسک کے ساتھ تعلق مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں میں یہی سمجھتا ہوں۔
ٹرمپ نے مسک کے بارے میں ایک اور وارننگ بھی جاری کی، خاص طور پر اس قیاس آرائی کے درمیان کہ مسک 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی حمایت کر سکتے ہیں۔
اگرچہ صدر ٹرمپ نے ان نتائج کی تفصیل نہیں بتائی لیکن ان کے کاروبار کی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایلون مسک کی کمپنیوں پر سرکاری معاہدوں کے حوالے سے ردعمل ممکن ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ مسک کو متعدد بار رعایتیں دی تھیں اور ان کے لیے حکومت میں کام کرنے کے دوران فائدے فراہم کیے تھے، تاہم اب ان کے ساتھ بات چیت کا کوئی ارادہ نہیں۔
دوسرے بڑے شہر پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ، بڑا نقصان ہو گیا