Islam Times:
2025-06-09@11:03:13 GMT

خطاب بہ اراکین کانگریس

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

خطاب بہ اراکین کانگریس

اسلام ٹائمز: امریکی صدر نے اپنی تقریر میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ”ایک دہشتگرد“ جو امریکی فوجیوں پر ایک ایسے حملے کا اصل ذمے دار تھا جس میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس شخص کو پکڑنے میں پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا جسے اب امریکہ لایا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے لیے عمران خان کی نسبت پاکستان کی موجودہ حکومت زیادہ اہم ہے جو ” حاضر سروس“ ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مشرق وسطیٰ کو ”پرتشدد پڑوس“ اور روس یوکرین جنگ کو ”سفاکانہ تنازعہ“ کہا اور کہا کہ وہ اس کے خاتمے کے لیے ”انتھک محنت“ کر رہے ہیں۔ تحریر: سید تنویر حیدر

وہائٹ ہاؤس میں اپنے 43 دن گزارنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کے پہلے مشترکہ اجلاس میں حسب معمول اپنا طویل خطاب کیا۔ تالیوں کی گونج میں انہوں نے اعلان کیا کہ”امریکہ واپس آگیا ہے“ گویا امریکہ کو اس سے پہلے چار سال کے لیے کسی نے اغوا کر لیا تھا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشششوں سے وہ اپنے گھر واپس آگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھے ہفتے قبل ”کیپیٹل ہل“ کے گنبد کے نیچے  کھڑے ہو کر انہوں نے یہ کہ دیا تھا کہ ”امریکہ کے سنہری دور کی صبح کا آغاز ہوگیا ہے“۔  اگرچہ اس نئی صبح کو اگر کوئی یوکرین کے صدر زیلنسکی کی آنکھ سے دیکھے تو اس کی نوک زباں پر فیض احمد فیض کا یہ شعر بے ساختہ آ جائے گا کہ:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
اپنی کامیابیوں کی تاریخ دہراتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے حوالے سے کہا کہ ”ہماری صدارت قومی تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب صدارت ہے“ اور جارج واشنگٹن کی صدارت کو انہوں نے دوسرے نمبر کی صدارت قرار دیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارا کوئی سیاسی لیڈر یہ کہے کہ قائداعظم کے بعد وہ قائداعظم ثانی ہے۔ اپنی زبان سے میاں مٹھو بننے کے لیے کسی خاص قسم کی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دیکھ قدرت کے کارخانے میں
مجھ سا کوئی نہیں زمانے میں
ایک جانب جہاں انہوں نے اپنی صدارت کو امریکہ کے افق پر ابھرتی ہوئی نئی صبح سے تعبیر کیا وہاں انہوں نے امریکہ کے جنوبی سرحدی افق پر ”قومی ایمرجنسی“ کا اعلان بھی کردیا اور انکشاف کیا کہ ”ہم نے اپنی اس سرحد پر امریکی فوج اور سرحدی گشتی دستوں کو تعینات کر دیا ہے جو ہمارے ملک پر کسی بھی حملے کو پسپا کریں گے“۔ انہوں نے جوبائیڈن کو امریکی تاریخ کا بدترین صدر کہا اور ان پر الزام لگایا کہ ان کے دور حکومت میں ہر ماہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ غیرقانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوتے تھے۔ انہوں نے حاضرین کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ”خلیج میکسیکو“ کے نام کو ”خلیج آف امریکہ“ کے نام سے بدلنے کے آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں۔

اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے مخصوص انداز میں طنز کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”میں آج کی شب اپنے سامنے ڈیموکریٹک قانون سازوں کو دیکھ رہا ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ میں آج ایسا کچھ نہیں کہ سکتا جس کو سن کر وہ خوش ہو جائیں، اپنے بنچوں سے کھڑے ہو جائیں اور تالیاں بجائیں“۔ ٹرمپ جو اپنی انتخابی جیت پر شادیانے بجا رہے تھے اور اسے اپنی ایک عظیم فتح قرار دے رہے تھے، ان کی تقریر کے درمیان ٹیکساس کے ڈیموکریٹک نمائندے ایل گرین نے یہ کہ کر واک آوٹ کر دیا کہ ”آپ کے پاس مسائل کا کوئی علاج نہیں ہے“۔ ٹرمپ نے جہاں جو بائیڈن پر کئی الزامات لگائے وہاں ان پر یہ الزام بھی لگایا کہ انہوں نے انڈوں کی قیمتوں کو کنٹرول سے باہر جانے دیا اور وہ انہیں دوبارہ کنٹرول میں لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

گویا ایک کاروبای ذہن رکھنے والے ٹرمپ کے نذدیک انڈوں کی تجارت ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ عمران خان نے قوم کو جو مرغیاں پالنے کا مشورہ دیا تھا اسے غیرسنجیدگی سے لینا یقیناً بین الاقوامی مارکیٹ سے لاعلمی کا مظہر ہے۔ ٹرمپ کی تقریر کے دوران متعدد امریکی ایوان نمائندگان واک آوٹ کر گئے۔ ان میں سے اکثر ”خواتین اور خاندانوں پر ٹرمپ انتظامیہ کے منفی اثرات“ پر احتجاجاً گلابی رنگ کے لباس پہنے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی معتضرین اپنے اپنے انداز میں احتجاج کر رہے تھے۔ امریکی صدر نے کانگریس سے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ امریکہ کے دفاع کے لیے ”گولڈن ڈوم میزائل دفاعی سسٹم“ کے لیے فنڈ منظور کرے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ ”گرین لینڈ“ کو جس طرح چاہیں حاصل کریں گے۔ ان کے کہنے کے مطابق ان کی حکومت ”پاناما کینال“ پر دوبارہ دعویٰ کرے گی۔

امریکی صدر نے اپنی تقریر میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ”ایک دہشتگرد“ جو امریکی فوجیوں پر ایک ایسے حملے کا اصل ذمے دار تھا جس میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس شخص کو پکڑنے میں پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا جسے اب امریکہ لایا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے لیے عمران خان کی نسبت پاکستان کی موجودہ حکومت زیادہ اہم ہے جو ” حاضر سروس“ ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مشرق وسطیٰ کو ”پرتشدد پڑوس“ اور روس یوکرین جنگ کو ”سفاکانہ تنازعہ“ کہا اور کہا کہ وہ اس کے خاتمے کے لیے ”انتھک محنت“ کر رہے ہیں۔

انہوں نے مغربی ایشیا کے خطے میں ”ابراھیمی معاہدے“ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ صیہونی حکومت اور بعض حکومتوں کے مابین تعلقات کی استواری کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق وہ صیہونی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ سب باتوں کے باوجود حیران کن طور پر انہوں نے اپنے اس لمبے خطاب میں مریخ پر امریکی پرچم لہرانے کا ذکر تو کیا لیکن ایران کا ذکر گول کر گئے۔ حالانکہ ایران کا ذکر گزشتہ کئی صدور کا پسندیدہ ٹاپک رہا ہے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے اس خطاب کو سامنے رکھ کر ان کے آئندہ کے کسی اقدام کے بارے میں درست پیشینگوئی اس لیے ناممکن ہے کیونکہ ٹرمپ کسی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی فوجیوں ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں اور کہا کہ امریکہ کے کہا کہ وہ انہوں نے دیا اور نے اپنے نے اپنی کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 

اسلام ٹائمز: ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیشرفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اسکی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کیلئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کریگا، کیونکہ اسکے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیشرفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔ تحریر: عادل فراز

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایران میں اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ شاہ ایران امریکہ کا حلیف اور اس کا قابل اعتماد آلۂ کار تھا، جس نے ایران میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے قیام کے بعد ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا، جس نے اس کے ناجائز وجود کو تسلیم کیا تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے موقف میں واضح تبدیلی آئی اور امام خمینیؒ نے اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دیتے ہوئے فلسطین کے استقلال اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے آواز بلند کی۔ انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو عالمی سطح پر منعکس کیا اور آج پوری دنیا اگر مسئلۂ فلسطین پر متوجہ ہے تو یہ امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے۔

خطے میں موجود مزاحتمی محاذ کی تقویت میں بھی ایران کا کلیدی کردار رہا ہے، جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی رہی ہے۔ البتہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور استعمار نوازی نے مسئلۂ فلسطین کے حل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ غزہ کی تباہی اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے بھی مسلم حکمرانوں کو سبکدوش نہیں کیا جاسکتا، جو امریکہ نوازی میں انتفاضہ القدس سے بے پرواہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کا مشاہدہ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بھی کیا گیا۔ مسلم حکمران ٹرمپ نوازی میں مرے جا رہے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر ہے، اس لئے ان سے مسئلۂ فلسطین یا عالم اسلام کے زندہ موضوعات پر کسی دلیرانہ موقف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

ایران کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور عمان کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ البتہ امریکہ کی ظاہری اور باطنی پالیسیوں میں نمایاں فرق موجود ہے۔ ظاہری طور پر ٹرمپ ایران کو دھمکا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ایران امریکہ سے خوف زدہ ہوکر مذاکرات کی میز پر آیا ہے، جبکہ باطنی طور پر ٹرمپ ایران سے تصادم نہیں چاہتا اور سفارتی طور پر ایران سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایران کی حکمت عملی ہمیشہ امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا رہی ہے۔ مذاکرات سے پہلے اور بعد میں بھی امریکہ کے تئیں ایران کا موقف واضح ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ایران کو دھمکایا نہیں جاسکتا اور اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، جبکہ ٹرمپ نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی ایران کو دھمکانا شروع کر دیا تھا کہ اگر مذاکرات نہیں ہوئے تو ایران کو فوجی کارروائی کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔

جبکہ ٹرمپ بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران پر حملے کے لئے ہزار بار نہیں لاکھوں بار سوچنا پڑے گا، کیونکہ یہ حملہ نئی علاقائی جنگ کا باعث بنے گا، جس کی اجازت علاقائی ممالک بھی نہیں دیں گے۔ ایران پر حملے سے دنیا کو ناقابل بیان اقتصادی نقصان پہنچے گا، کیونکہ پہلی فرصت میں آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جائے گا، جہاں سے دنیا کی ضرورت کا بیس فیصد تیل گذرتا ہے۔ گویا کہ ایران کے ساتھ جنگ عالمی سطح پر نئے اقتصادی بحران کا سبب بنے گی، جس کی اجازت امریکی حلیف طاقتیں بھی نہیں دیں گی۔ عالمی معیشت یوں بھی روبہ زوال ہے اور امریکہ نت نئے ٹیرف عائد کرکے اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں امریکہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ایران کے ساتھ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو استعماری میڈیا کے ذریعے ایران پر نفسیاتی دبائو کے لئے حملے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سی این این سمیت تمام میڈیا اداروں نے یہ خبر نشر کی کہ اسرائیل عنقریب ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا، جس کی تیاری اسرائیل کر رہا ہے۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جنگ کی یہ دھمکیاں صرف نفسیاتی دبائو کے لئے ہیں، جن کا ایران پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ ایران تو ایک مدت سے جنگ کے محاذ پر ہے۔ گو کہ ابھی ایران کے ساتھ براہ راست فوجی جنگ شروع نہیں ہوئی، مگر اقتصادی اور نفسیاتی جنگ تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد چھیڑ دی گئی تھی۔ لہذا ایران کو استعماری طاقتوں کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس پر رہبر انقلاب اسلامی کا امریکہ کے خلاف صریح موقف عالمی استکبار کے لئے پریشان کن ہے۔

امسال انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں جوہری توانائی کی افزودگی پر امریکی مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ایرانی قوم کا انتخاب اس کے اختیار میں ہے۔ امریکہ کون ہوتا ہے، جو ہماری خود مختاری اور جوہری افزودگی میں رکاوٹ بن رہا ہے اور کس قانون کے تحت وہ یہ کام کر رہا ہے۔ آخر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی جوہری صلاحیت کا تعین کرنے کی ذمہ داری کس نے دی ہے۔؟ اس کے پاس تو دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں تو اس کی قانونی یا اخلاقی حیثیت کیا ہے کہ وہ دوسروں کے جوہری پروگرام کے بارے میں رائے پیش کرے۔؟ انہوں نے امریکی جنگی جرائم اور عالمی نقض امن پر دوٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ کس منہ سے امن کی بات کرسکتا ہے، جبکہ بیسویں صدی میں جنگوں اور بغاوتوں کو سب سے بڑا جنم دینے والا وہ خود ہے۔"

آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی چودھراہٹ پر ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ "ایران کو امریکہ سے (جوہری پروگرام پر) اجازت کیوں لینی چاہیئے؟ کیا صہیونی حکومت اپنے جوہری ہتھیاروں اور حالیہ جاری نسل کشی کے حوالے سے ہر طرح کی نظارت سے مستثنیٰ ہے۔؟" ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ایران نہ تو امریکی چودھراہٹ کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنی خود مختاری میں کسی مداخلت کو برداشت کرے گا۔ ان کا یہ کہنا کہ "ایرانی قوم کی خود مختاری ان کے ہاتھ میں ہے" امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیتا ہے، کیونکہ امریکہ ایران کی خود مختاری پر ضرب لگانا چاہتا ہے، جس کو رہبر انقلاب نے مسترد کرتے ہوئے امریکی چودھراہٹ پر ہی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی ایران کے موقف کو واضح کر دیا، جس کے بعد اب مذاکرات میں جوہری پروگرام کو ختم یامحدود کرنے پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔

جوہری افزودگی ہر ملک کا بنیادی حق ہے، جس کو امریکہ سلب نہیں کرسکتا، جبکہ امریکہ نے حالیہ مذاکرات میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شراکت سے علاقائی کنسورشیم تشکیل دیا جائے۔ اس تجویز میں جو امریکہ کی طرف سے عمان کے ذریعے ایران کو موصول ہوچکی ہے، کے مطابق امریکہ نے ایرانی سرزمین پر جوہری افزودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی تجویز، جس کو رہبر انقلاب اسلامی نے مسترد کر دیا ہے، اس کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ایک کنسورشیم کی تشکیل سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ جوہری افزودگی کو روکنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جوہری توانائی کو روک کر باہر سے کنسورشیم کے ذریعے یورینیم کو حاصل کرنے کی تجویز ایران کبھی قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس طرح ایران اپنے پاور پلانٹس کو چلانے کے لئے جوہری ایندھن کی فراہمی کے لئے دوسرے ملکوں پر منحصر ہو جائے گا۔

گویا کہ اس تجویز کا مقصد ایران کو خود کفیل بننے سے روکنا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ایران کی ترقی سے خوف زدہ ہے۔ اس کا مقصد جوہری مذاکرات کے ذریعے ایران کے جوہری افزودگی کے منصوبے کو روکنا نہیں بلکہ ایران کی ترقی اور خود کفیل بننے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے، جس کو ایرانی قیادت بخوبی سمجھ رہی ہے۔ ایران پر مسلسل بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کا راز بھی یہی ہے۔ اس کے باوجود ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیش رفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اس کی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیش رفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • ریاست منی پور کے لوگ مودی کی بے رخی اور غیر حساسیت کی قیمت چکا رہے ہیں، جے رام رمیش
  • منشیات سمگلنگ، امریکی عدالت نے پاکستانی تاجر کو 16 برس کی سزا سنا دی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول
  •   یکجہتی، قربانی اور ایثار کے جذبے کو اپنانا ہو گا، شہباز شریف کا عید پر قوم کے نام پیغام
  • امریکہ چین کے خلاف اٹھائے گئے منفی اقدامات کو واپس لے، چینی صدر