ایف بی آر نے کلکٹر آف کسٹمز کو ریگولیٹری اتھارٹی قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے آئرن اور اسٹیل اسکریپ کی درآمد پر متعدد پابندیاں عائد کرتے ہوئے مصنوعات کے سیمپل لینے کا نیا نظام متعارف کروا دیا اور کلکٹر آف کسٹمز کو ریگولیٹری اتھارٹی قرار دے دیا ہے۔
ایف بی آر سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کسٹمز رولز 2001 میں اہم ترامیم کردی گئی ہے اور ان ترامیم کا مقصد تجارتی سہولیات میں بہتری، شفافیت اور صنعتی ترقی کو فروغ دینا ہے۔
کسٹمز رولز میں کی گئی ترامیم میں انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کی منظوری سے متعلق متعدد شقوں کو حذف کر دیا گیا ہے جبکہ آئرن اور اسٹیل سکریپ کی درآمد پر بعض پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
ترامیم کے تحت ریگولیٹری اتھارٹی کی نئی تعریف کئی گئی ہے، جس کےمطابق متعلقہ کلکٹر آف کسٹمز جس کی حدود میں درخواست دہندہ کا کاروباری یا پیداواری یونٹ واقع ہو، اسے ریگولیٹری اتھارٹی تسلیم کیا جائے گا۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی درخواست دہندہ کے متعدد پیداواری یونٹس مختلف دائرہ اختیار میں ہوں تو اس کے ہیڈ آفس یا بنیادی پیداواری یونٹ کے دائرہ اختیار میں آنے والا کلکٹر ریگولیٹری اتھارٹی ہوگا۔
ایف بی آرکے نوٹیفکیشن کے مطابق ناقص کارکردگی پر فوری کارروائی ہوگی اور ترمیم شدہ قواعد کے تحت وہ درخواست گزار جو ماضی میں کسی بھی قسم کی قانونی خلاف ورزیوں میں ملوث پایا گیا ہو یا جس پر کوئی وصولی یا فوجداری کارروائی زیر التوا ہو اس کا اجازت نامہ فوری طور پر معطل کیا جا سکے گا۔
مزید کہا گیا کہ ریگولیٹری کلکٹر نہ صرف اس کے اجازت نامے کی منسوخی کی کارروائی شروع کر سکتا ہے بلکہ دیگر قانونی کارروائیاں بھی عمل میں لا سکتا ہے، اسی طرح آئی او سی او کو بھی 60 دن میں درخواست پر کارروائی کا پابند بنا دیا گیا ہے۔
نئی ترامیم کے مطابق درخواست موصول ہونے کے بعد متعلقہ کیس کو فوری طور پر ان پٹ آؤٹ پٹ کوایفیشنٹ آرگنائزیشن (آئی او سی او) کے کلکٹریٹ بھیجا جائے گا جو 60 دن کے اندر پیداواری صلاحیت اور ان پٹ آؤٹ پٹ تناسب کا تعین کرے گا۔
اسی طرح اگر آئی او سی او مقررہ مدت میں فیصلہ نہ کر سکے تو درخواست گزار کو عارضی بنیادوں پر 25 فیصد تک ان پٹ گڈز درآمد کرنے کی اجازت دی جا سکے گی، جس کے لیے بینک گارنٹی جمع کروانا ہوگی۔
ایف بی آر نے مصنوعات کے سیمپل لینے کا نیا نظام بھی متعارف کروایا ہے تاکہ مصنوعات کے معیار کو یقینی بنایا جائے، جس کے تحت امپورٹ اور ایکسپورٹ کے وقت تین نمونے لیے جائیں گے، ایک نمونہ صارف یا اس کے نمائندے کو دیا جائے گا، دوسرا متعلقہ کلکٹریٹ میں محفوظ رکھا جائے گا اور تیسرا ریگولیٹری کلکٹریٹ کو بھیجا جائے گا۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی بھی مرحلے میں بے ضابطگی پائی گئی تو متعلقہ ادارے کو مطلع کیا جائے گا۔
ایف بی آر کے مطابق ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم کے تحت جو درخواست گزار اپنی مصنوعات کی تیاری کے لیے کسی وینڈر کے پاس خام مال بھیجنا چاہے گا، اسے پہلے ہی وینڈر کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی، اس دوران مصنوعات کی ترسیل، گاڑی کا رجسٹریشن نمبر اور دیگر تفصیلات آن لائن سسٹم میں اپ لوڈ کرنا لازمی ہوگا۔
نئےقواعد کے مطابق درآمد شدہ ان پٹ گڈز کو زیادہ سے زیادہ 9 ماہ میں استعمال کرنا ہوگا، اگر غیر معمولی حالات میں توسیع درکار ہو تو اس کا فیصلہ ایف بی آر کی تشکیل کردہ کمیٹی کرے گی۔
ترمیمی قواعد کے تحت بی گریڈ مصنوعات کی پیداوار 5 فیصد سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں درآمد شدہ معیار کے مطابق تصور کیا جائے گا اور اس پر عائد محصولات ادا کرنا ہوں گے۔
ایف بی آر کے مطابق ان ترامیم کا مقصد تجارتی ماحول کو بہتر بنانا، صنعتوں کو درپیش مشکلات کم کرنا اور ایکسپورٹ سیکٹر کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا ہے، ان ترامیم کے نفاذ کے بعد کاروباری برادری کو ایک شفاف اور مؤثر نظام میسر آئے گا، جس سے ملکی معیشت کو فروغ ملے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریگولیٹری اتھارٹی ایف بی آر کے مطابق جائے گا کے تحت
پڑھیں:
امریکا کا فلسطین نواز طالبِ علم محمود خلیل کو جلاوطن کرنے کا حکم
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی ریاست لوئزیانا کی ایک امیگریشن عدالت نے فلسطین نواز احتجاجی رہنما اور کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالب علم محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق خلیل کو الجزائر یا متبادل طور پر شام بھیجا جائے گا۔
عرب نیوز کے مطابق امیگریشن جج جیمی کومانز نے 12 ستمبر کو جاری کیے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ خلیل نے گرین کارڈ کی درخواست پر دانستہ طور پر بعض اہم حقائق چھپائے اور ’یہ عمل محض لاعلمی یا غفلت نہیں بلکہ جان بوجھ کر کی گئی غلط بیانی تھی، جس کا مقصد امیگریشن عمل کو دھوکہ دینا اور درخواست کے مسترد ہونے کے امکانات کو کم کرنا تھا۔‘ جج نے مزید کہا کہ اگر ایسی غلط بیانی کے باوجود رعایت دی جائے تو مستقبل کے درخواست گزار بھی یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوں گے۔
کومانز نے خلیل کی وہ درخواست بھی مسترد کر دی جس میں انہوں نے ملک بدری سے استثنیٰ دینے کی اپیل کی تھی۔ عدالت کے مطابق ’یہ اقدام مستقبل کے درخواست گزاروں کے لیے غلط پیغام ہوگا۔‘
دوسری جانب خلیل کی قانونی ٹیم نے نیو جرسی کی ایک فیڈرل کورٹ کو خط جمع کرا دیا ہے، جس میں جج کومانز کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کے وکلاء نے کہا ہے کہ اپیل دائر کی جائے گی اور قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔
امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU)، جو اس مقدمے میں خلیل کی نمائندگی کر رہی ہے، نے عدالت کے الزامات کو ”بے بنیاد اور انتقامی“ قرار دیا ہے۔ تنظیم کے مطابق ”misrepresentation“ یعنی غلط بیانی کے یہ الزامات دراصل خلیل کی حراست کے بعد انتقامی بنیادوں پر شامل کیے گئے۔
محمود خلیل نے اپنے ردعمل میں کہا: ”یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میری آزادیِ اظہار کی سزا دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ان کی تازہ ترین کارروائی، کانگرو کورٹ کے ذریعے، ان کے اصل عزائم کو ایک بار پھر ظاہر کرتی ہے۔“
انہوں نے مزید کہا: ”جب ان کی پہلی کوشش ناکام ہونے لگی تو انہوں نے مجھے خاموش کرانے کے لیے جھوٹے اور مضحکہ خیز الزامات گھڑ لیے۔ لیکن ایسے ہتھکنڈے مجھے اپنی قوم کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے اور فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے سے روک نہیں سکتے۔“
یاد رہے کہ محمود خلیل امریکا کے قانونی مستقل رہائشی ہیں، ان کی شادی ایک امریکی شہری سے ہوئی ہے اور ان کا ایک بیٹا بھی امریکا میں پیدا ہوا ہے۔ رواں سال مارچ میں انہیں امیگریشن حکام نے تین ماہ تک حراست میں رکھا تھا، بعد ازاں جون میں رہا کیا گیا، مگر وہ مسلسل ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہیں۔
خلیل کا تعلق کولمبیا یونیورسٹی سے رہا ہے، خلیل ملک گیر فلسطین نواز احتجاجی تحریک کے نمایاں رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ وہ ملک بھر میں فلسطین نواز کیمپس احتجاجات کے سب سے نمایاں رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
Post Views: 4