ٹڈاپ کرپشن کیس، یوسف رضا گیلانی سمیت 40 ملزم بری
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
کراچی (سٹاف رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی اینٹی کرپشن عدالت نے ٹڈاپ کرپشن کیس میں 3 مقدمات میں چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی سمیت 40 سے زائد ملزمان کو بری کر دیا۔ ٹڈاپ کرپشن کیس کی وفاقی اینٹی کرپشن عدالت میں سماعت ہوئی۔ چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے کہا کہ گیلانی صاحب آپ کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہوا، آپ بس با عزت بری ہیں، آپ کے خلاف گواہی دینے والے اب خود ملزم بن گئے ہیں۔ بعدازاں وفاقی اینٹی کرپشن عدالت نے 3 مقدمات میں چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی سمیت 40 سے زائد ملزمان کو بری کر دیا۔ کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مجھ پر 2009 میں یہ کیس بنایا گیا، آج تمام وعدہ معاف گواہ ملزم بن گئے اور ملک سے فرار ہیں۔ مجھ پر کیس ہماری موجودہ اتحادی حکومت نے ہی بنایا تھا، ہمیں ان پر کوئی گلہ نہیں، ہم حکومت کی مکمل سپورٹ کریں گے، اتحادی حکومت کو بیک سٹیپ نہیں کریں گے، صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو مل کر اپنا مؤقف بیان کریں گے۔ علاوہ ازیں یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پنجاب حکومت گرفتار سینیٹرز کو پیش کرے ورنہ آج احتجاجاً اجلاس کی صدارت نہیں کروں گا۔ ٹڈاپ کیس میں وعدہ معاف گواہ آج ملزم ہے اور ملک سے فرار ہے، مجھ پر کیس بنانے والے ہماری اتحادی حکومت کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں ہمیشہ قانون کے مطابق چلتا ہوں، جو بھی کام کرتا ہوں آئین کے مطابق کرتا ہوں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کل کچھ ارکان کہہ رہے تھے کہ چیئرمین سینٹ سیر سپاٹے کرتے ہیں، ایوان میں نہیں آتے، سینٹ کا رکن پہلی بار نہیں بنا، کئی سالوں قومی اسمبلی اور سینٹ میں رہا ہوں۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اگر کوئی رکنِ سینٹ جیل میں ہے تو رول کے مطابق میں پروڈکشن آرڈر جاری کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا ایک اور ممبر کو بھی اٹھایا گیا ہے، پنجاب اور وفاق حکومت سے کہتا ہوں کہ دونوں ارکان کو پروڈیوس کریں، اگر نہ کیا تو میں پروڈکشن آرڈر جاری کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت گرفتار سینیٹر کو پیش کرے، گرفتار سینیٹر کو پیش نہ کیا تو احتجاجاً اجلاس کی صدارت پھر نہیں کروں گا۔ یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ میں نے ایک معزز رکن سینٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے تھے، معزز رکن سینٹ کا آئینی حق ہے کہ وہ سیشن میں آئے۔ گزشتہ روز جس معزز رکن سینٹ کو گرفتار کیاگیا ہے اسے بھی سینٹ میں لایا جائے۔ نہروں کا معاملہ میرٹ پر حل ہونا چاہئے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ 12 سال بعد کیس کا فیصلہ آیا جو ثبوت ہے انصاف مل گیا۔ علاوہ ازیں چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے سینیٹر اعجاز چودھری اور سینیٹر عون عباس بپی کے موجودہ سیشن کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیئے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین سینٹ ضروری سمجھتے ہیں کہ سینیٹر اعجاز چودھری اور سینیٹر عون عباس کی سینٹ کے 346 ویں اجلاس میں شرکت کو یقینی بنایا جائے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ
ثنا یوسف چترال سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت، تخلیقی اور خودمختار نوجوان لڑکی تھی جو سوشل میڈیا پر سرگرم تھی اور ایک بااثر ڈیجیٹل کریئیٹر کے طور پر ابھر رہی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس کی زندگی کا اختتام ایک ایسے المیے پر ہوا جو صرف ذاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک گہری سماجی بیماری کی علامت ہے۔
ثنا کو ایک 23 سالہ نوجوان عمر حیات نے صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے اس کی دوستی کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس میں سنسنی خیز انکشافات: قاتل کا اعتراف، رینٹ کی گاڑی، تحائف ٹھکرانے کا رنج
یہ معاملہ محض ‘غیرت’ یا وقتی غصے کا نہیں بلکہ ایک زہریلی سوچ کی پیداوار ہے۔ وہ سوچ جو عورت کے انکار کو جرم اور مرد کی انا کو انصاف کا پیمانہ سمجھتی ہے۔ دنیا اس سوچ کو ان سیل (In Cel) کے نام سے جانتی ہے۔
اِن سیل کلچر: ایک خطرناک ذہنیت‘ان سیل’ (Involuntary Celibate) یعنی ‘بغیر اپنی مرضی کے غیررومانوی زندگی گزارنے والے افراد’ کی اصطلاح مغرب میں ایک آن لائن کمیونٹی سے وابستہ رہی ہے، جو جنسی یا رومانوی تعلق سے محرومی کے باعث عورتوں کے خلاف شدید نفرت اور غصے میں مبتلا ہوتے ہیں۔
یہ لوگ عورتوں کے ‘نہ’ کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں اور اس انکار کو ‘انتقام’ کے قابل جرم مانتے ہیں۔ ان کی گفتگو، آن لائن فورمز، یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا گروپس میں عورت دشمنی عام سی بات ہے۔
اگرچہ پاکستان میں اس اصطلاح سے واقفیت عام نہیں لیکن اس کی روح اور ذہنیت ہمارے معاشرے میں کئی انداز سے موجود ہے:
مردانگی کو تسلیم کروانے کے لیے تعلق کا ‘حاصل ہونا’ ضروری سمجھا جاتا ہے؛
عورت کا انکار مرد کی تذلیل کے مترادف سمجھا جاتا ہے؛
خودمختار عورت کو ‘مغرور’ یا ‘قابلِ سزا’ قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کون تھیں؟
یہ وہ معاشرتی سانچے ہیں جو عمر حیات جیسے نوجوانوں کی سوچ کی تشکیل کرتے ہیں۔ وہ شعوری طور پر خود کو ‘ان سیل’ نہ بھی سمجھتے ہوں، تب بھی ان کی سوچ اسی زہریلے سانچے سے جنم لیتی ہے۔
ثنا کا ‘نہ’ اور معاشرتی انا کا زخمثنا یوسف کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے تعلق سے انکار کیا، اپنی پسند اور اپنی آزادی کا استعمال کیا۔ عمر نے اس انکار کو نہ صرف انا کا مسئلہ بنایا، بلکہ اسے ‘سزا دینے’ کی حد تک پہنچا دیا۔ اس نے اسے قتل کیا ، وہ بھی دن دیہاڑے۔
یہ ردعمل محض ایک فرد کی نفسیاتی بے چینی نہیں تھی، بلکہ ایک پوری سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ سوچ جو عورت کو انسان نہیں، ایک شے یا ‘حق’ سمجھتی ہے۔
عمر، ان سیل تھا؟ شاید خود بھی نہ جانتا ہویہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ضروری ہے: عمر شاید کبھی Reddit یا 4chan پر نہ گیا ہو، نہ ہی ‘ان سیل’ کے نظریے سے واقف ہو۔ مگر اس کے طرزِ فکر میں وہ تمام علامات موجود تھیں جو ان سیل کلچر کی بنیاد ہیں:
عورت کا انکار ناقابلِ برداشت؛
تعلق پر ‘حق’ کا تصور؛
مسترد کیے جانے پر غصہ اور انتقام کی جبلّت۔
یہ بھی پڑھیے: بیگم جہاں آرا شاہنواز سے نسیم جہاں تک، جدوجہدِحقوقِ نسواں کی اَن کہی داستان
یہی وہ ذہنیت ہے جو ہمارے نوجوانوں میں غیر محسوس طریقے سے سرایت کرتی جا رہی ہے، کبھی واٹس ایپ گروپس، کبھی یوٹیوب پر ‘مردانہ طاقت’ کے نام پر ویڈیوز، اور کبھی روزمرہ لطیفوں اور گفتگو میں۔
سوشل میڈیا اور زہریلا مردانہ بیانیہسوشل میڈیا پر مردوں کے لیے مخصوص کئی وی لاگرز، ‘ریڈ پِل’ چینلز اور آن لائن گروپس موجود ہیں جو عورت کو ناقابلِ بھروسا، چالاک یا کمتر ثابت کرتے ہیں۔ وہ مرد کو یہ سکھاتے ہیں کہ عورت کو کیسے ‘جیتا’ جائے، کیسے ‘قابو’ میں رکھا جائے، اور کیسے اس کے انکار کو اپنی طاقت سے شکست دی جائے۔
یہی وہ بیانیہ ہے جو مسترد کیے جانے کو مرد کی شکست اور عورت کی غلطی بنا دیتا ہے اور آخر کار ثنا یوسف کے قتل جییسے سانحات کو جنم دیتا ہے۔
حل کہاں ہے؟ہمیں فرد کو سزا دینے سے آگے بڑھ کر، اس ذہنیت کا احتساب کرنا ہوگا جو ہر گھر، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ہر کلاس روم میں جنم لے رہی ہے۔
عورت کے انکار کو حق تسلیم کرنا — یہ نصاب، میڈیا اور والدین کی تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ مردوں کی جذباتی تربیت — لڑکوں کو یہ سکھانا کہ انکار زندگی کا ایک عام تجربہ ہے، نہ کہ انا کا زخم۔ سوشل میڈیا پر عورت دشمن مواد کی روک تھام — پلیٹ فارمز کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے مواد سے حقیقی دنیا میں کیا اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ معاشرتی گفتگو کی اصلاح — ہر وہ جملہ، مذاق، یا تصور جو عورت کو کمتر یا مرد کو غالب ظاہر کرے، اسی ذہنیت کو فروغ دیتا ہے جس نے ثنا کو مارا۔ ثنا کی یاد، ایک سوال بن کر باقی ہےثنا یوسف کا قتل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عورتوں کی خودمختاری، انکار اور انتخاب کو صرف قانون نہیں، معاشرتی سوچ بھی خطرہ سمجھتی ہے۔ جب تک ہم اس سوچ کو جڑ سے نہیں اکھاڑتے، ‘نہیں’ کہنا کئی عورتوں کے لیے جان لیوا فیصلہ بنا رہے گا۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب میں با اختیار خواتین کی کامیابیوں کی متاثر کن کہانیاں
اب وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں:
کیا ہم واقعی عورتوں کے ‘نہ’ کہنے کے حق کا احترام کرتے ہیں؟
یا ہم اسے مرد کی شکست، اور سزا کے قابل جرم سمجھتے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں