’اذان کے وقت فوڈ ڈیلیوری کی لیکن کسی نے افطار کا نہ پوچھا‘
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
رمضان المبارک رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں نیکیوں کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور ہمیں اپنی عبادات کے ساتھ دوسروں کی مدد کرنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ رمضان المبار ک میں روزے داروں کے لیے سحری اور افطاری کا بندوبست کرنا ایک بڑی نیکی ہے۔ افطارکے وقت محنت کش طبقے کو خاص طور پر شامل کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی روزہ افطار کر سکیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ افطار کا وقت ہے اور ایک فوڈ رائیڈر کھانا ڈیلور کرنے کسی کے گھر کے باہر کھڑا ہے ، اسی اثنا میں مغرب کی اذان ہوجاتی ہے اور افطار کے لیے کچھ نہ ہونے کے باعث وہ ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے پانی سے ہی روزہ افطار کر رہاہے۔ ویڈیو وائرل ہوئی تو صارفین نے خوب تبصرے کیے اور عوام سے اپیل کی کہ افطار کے وقت ان محنت کشوں کو کھانے کے لیے ضرور پوچھ لیا کریں ۔ ایک صارف نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ’جب کوئی رائیڈر آپ تک آپ کا کھانا پہنچائے تو اس سے افطار کا پوچھ لیں،ہوسکتا ہے وہ رزق کمانے کی محنت میں روزہ تک نا کھول سکا ہو۔ ‘
جب کوئی رائیڈر آپ تک آپ کا کھانا پہنچائے تو اس سے افطار کا پوچھ لیں،ھوسکتا ھے وہ رزق کمانے کی محنت میں روزہ تک نا کھول سکا ھو۔ pic.
— صحرانورد (@Aadiiroy2) March 7, 2025
ایک اور صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ــ’میں 10 سال اسلام آباد میں رائیڈر رہا ہوں کئ بار ایسا ہوا اذان کے ٹائم پر ڈیلیوری دی لیکن کسی نے افطار کا نہیں پوچھا۔‘
میں 10 سال اسلام آباد میں رائیڈر رہا ہوں کئ بار ایسا ہوا اذان کے ٹائم پر ڈیلیوری دی لیکن کسی نے افتار کا نہیں پوچھا
— Shapall kiani (@shapall21010) March 7, 2025
جہاں صارفین نے انسانی ہمدری اور احساس کا پیغام دیا وہیں کچھ صارفین کو لگا کہ شاید یہ ویڈیو رمضان کی نہیں ہے کیونکہ ویڈیو میں روشنی ہے اور افطار کا وقت نہیں لگ رہا۔ ایک صارف نے لکھا’دن کھڑا ہوا ہے اور روزہ افطار کر دیتے ہیں یہ کیا عجیب تماشا لگایا ہوا ہے؟‘
دن کھڑا ہوا ہے اور روزہ افطار کر دیتے ہیں یہ کیا عجیب تماشا لگایا ہوا ہے؟
— Gada Hussain Junejo (@gada_junejo) March 7, 2025
ایک اور صارف جو پیشے سے فوڈ رائیڈر رہ چکے ہیں نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’میں یہ کام دو ایک سال تک کر چکا ہوںاکثر کوشش ہوتی کہ اذان سے پہلے ڈیلیور کر لوں اور کسی نزدیکی مسجد میں جا کے افطار کر لوں ،میں شہر دور دیہات سے آتا تھا اور کوشش یہی ہوتی تھی کہ ایسی مسجد ملے جہاں کھانا مل جائے اور میں سحری کے وقت گھر پہنچتا تھا اور کھانا کھاتا تھا۔‘
میں یہ کام دو ایک سال تک کر چکا ہوں
اکثر کوشش ہوتی کہ ازان سے پہلے ڈیلیور کر لوں اور کسی نزدیکی مسجد میں جا کے افطار کر لوں
میں شہر دور دیہات سے آتا تھا اور کوشش یہی ہوتی تھی کہ ایسی مسجد ملے جہاں کھانا مل جائے اور میں سحری کے وقت گھر پہنچتا تھا اور کھانا کھاتا تھا
— Irفan Hئےder (@HydrLnga) March 7, 2025
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ہمیں انسانیت کے ناطے ہمدردی اور خدمت کے جذبے سے سر شار ہونا چاہیے اور نہ صرف رمضان المبارک بلکہ اس کے علاوہ بھی اپنے آس پاس سفید پوش لوگوں کی مدد کرنی چاہیے ۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افطار رائیڈرز رمضان روزہ فوڈ ڈیلیوریذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افطار رائیڈرز فوڈ ڈیلیوری روزہ افطار کر ا تھا اور افطار کا ہے اور کے لیے کے وقت ہوا ہے کر لوں
پڑھیں:
اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر تین روزہ اہم کانفرنس آج سے شروع
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال ستمبر میں اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا۔ فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والی یہ کانفرنس جون میں اس وقت ملتوی کر دی گئی تھی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تھا۔ درجنوں ملکوں کے وزراء اس کانفرنس میں شریک ہوں گے، جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کے لیے پیش رفت کرنا ہے، تاہم امریکہ اور اسرائیل اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب غزہ میں انسانی صورت حال بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
(جاری ہے)
اس کانفرنس سے چند روز قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اعلان کیا تھا کہ پیرس ستمبر میں باقاعدہ طور پر فلسطین کو تسلیم کرے گا، جس کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی نئی تحریک کو تقویت ملی ہے۔
کانفرنس کا مقصد ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے روڈمیپ کے خد و خال وضع کرنا ہے، جبکہ اسرائیل کی سکیورٹی کو بھی یقینی بنانا اس کا ایک اہم جزو ہے۔
سعودی عرب نے کیا کہا؟کانفرنس سے قبل سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’مملکت ہر اس کوشش کی مکمل حمایت کرتی ہے جو خطے اور دنیا میں منصفانہ امن کے قیام کے لیے کی جا رہی ہو۔
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ اسی نظریے کے تحت سعودی عرب نے فرانس کے ساتھ مل کر اس بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت سنبھالی ہے تاکہ فلسطینی تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد مشرقی یروشلم (القدس) کو دارالحکومت بنانے والی 1967ء کی سرحدوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے سے منصفانہ اور جامع امن قائم کرنا ہے۔
فرانس کا بیانفرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے اتوار کو ایک فرانسیسی اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ اس کانفرنس کو اس مقصد کے لیے بھی استعمال کریں گے کہ دیگر ممالک کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے قائل کیا جا سکے۔
بارو نے کہا، ’’ہم نیویارک میں ایک اپیل کا آغاز کریں گے تاکہ دیگر ممالک بھی ہمارے ساتھ شامل ہوں اور ایک ایسی مزید پُرعزم اور مؤثر سفارتی تحریک کی ابتدا کریں جو 21 ستمبر کو اپنے عروج پر پہنچے۔
‘‘خیال رہے کہ صدر ایمانوئل ماکروں نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
بارو نے نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس وقت تک عرب ممالک بھی فلسطینی عسکری گروہ حماس کی مذمت کریں گے اور اس کے غیر مسلح کیے جانے کا مطالبہ کریں گے۔
امریکہ اور اسرائیل کانفرنس میں شریک نہیںامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ میں ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ ترجمان کے مطابق یہ کانفرنس ’’حماس کے لیے ایک تحفہ ہے، جو تاحال ان جنگ بندی تجاویز کو مسترد کر رہا ہے جنہیں اسرائیل منظور کر چکا ہے اور جو یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں امن کے قیام کا باعث بن سکتیں۔
‘‘ترجمان نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے گزشتہ سال جنرل اسمبلی میں اس کانفرنس کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا اور’’ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت نہیں کرے گا جو اس تنازعے کے طویل المدتی اور پرامن حل کے امکانات کو خطرے میں ڈالے۔‘‘
اسرائیل بھی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی مشن کے ترجمان جوناتھن ہارونوف نے کہا، ’’یہ کانفرنس سب سے پہلے فوری طور پر حماس کی مذمت اور باقی تمام یرغمالیوں کی واپسی جیسے اہم مسائل کو حل نہیں کرتی، اسی لیے اسرائیل اس میں شرکت نہیں کر رہا۔
‘‘ پاکستان کا ردعملکانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’’میں نیو یارک میں منعقدہ اس اعلیٰ سطح بین الاقوامی کانفرنس میں فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ، اصولی اور مستقل مؤقف کا اعادہ کروں گا۔‘‘
اسحاق ڈار نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا،’’ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ کانفرنس فلسطینی ریاست کے قیام، 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانے، غزہ کے تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو اور فلسطینی عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات فراہم کرے گی۔
‘‘پاکستان کے نائب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’’یہ مسئلہ سنبھالنے میں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ سعودی عرب اور فرانس کی کوشش قابل ستائش ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے کہتا آیا ہے کہ فلسطین کا حل صرف دو ریاستی فارمولہ ہے۔‘‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس فوری جنگ بندی، خوراک، ادویات اور دیگر امداد کی روانی کی راہ ہموار کرے گی اور فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کروانے میں مددگار ہو گی۔
ادارت: صلاح الدین زین