Juraat:
2025-04-25@11:19:10 GMT

دہلی میں مسلم املاک پر انتہا پسندوں کا قبضہ

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

دہلی میں مسلم املاک پر انتہا پسندوں کا قبضہ

ریاض احمدچودھری

دہلی کے مضافات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کی 300 سے زائد املاک کو مسمار کردیا گیا تھادہلی کے مضافات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کی 300 سے زائد املاک کو مسمار کردیا گیا تھا۔اس سے قبل قومی دارالحکومت دہلی کے مضافات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کی 300 سے زائد املاک کو مسمار کردیا گیا تھا۔ 2021 میں اترپردیش کے بارہ بنکی ضلع میں 100سال قدیم مسجد کو منہدم کردیا گیا جب کہ 2023 میں پریاگ راج شہر میں سڑک کی توسیع کے نام پر سولہویں صدی کی ایک مسجد مسمار کردی گئی ہے۔بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلڈوزر بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی علامت بن چکا ہے۔ بالخصوص یوگی آدیتیہ ناتھ کے اترپردیش کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے، جنہوں نے فوری انصاف کی فراہمی کے نام پر ملزمین کی املاک کو مسمار کردینے کی پالیسی شروع کی۔ ان کے بعد بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں بھی اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
قانونی ماہرین اسے بھارتی قانون کے خلاف قرار دیتے ہیں اور عدالت عظمیٰ نے بھی اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن’بلڈوزر انصاف’ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔حالانکہ بی جے پی کے رہنماوں کا دعویٰ ہے کہ مسماری کے یہ واقعات دراصل غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ہیں اور صرف مجرموں یا بدمعاشوں کی ملکیت کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ افراد مسماری کے واقعات پر جشن بھی مناتے ہیں۔
سول سوسائٹی کے اراکین، سماجی کارکنان اور اپوزیشن کے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ عمارتوں کو اس طرح مسمار کرنا مسلمانوں جیسی اقلیتی برادری کے خلاف "ٹارگیٹیڈ وائلنس” کی ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے۔بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے تعلق رکھنے والی سابق رکن پارلیمان برندا کرات نے دہلی میں مسماری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلڈوزر کو تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسماری مناسب قانونی عمل کی پیروی کے بغیر کی گئی۔ عمارتوں کے مکینوں کو مسمار کرنے سے پہلے انتباہ نہیں کیا گیا یا انہیں اپنی جائیدادیں چھوڑنے اور اپنا سامان بچانے کے لیے کافی وقت نہیں دیا گیا۔ ایمنسٹی نے مسماری سے متاثر ہونے والے 75 افراد سے بات چیت کی جن میں سے صرف چھ کو حکام کی جانب سے کسی قسم کی پیشگی اطلاع موصول ہوئی تھی۔
ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جے سی بی اس بات کا تعین کرنے کے لیے ذمہ دار ہے کہ آیا اس کی مشینری کو تعزیری انہدام کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور اس کے فروخت کے معاہدوں میں ایسی شقیں شامل کی گئی ہیں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کم کرتی ہیں۔ ایمنسٹی نے مزید کہا کہ "کمپنی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے اپنی مشینری کے استعمال کی عوامی سطح پر مذمت کرنی چاہئے۔ ”
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے متعلق رپورٹیں جاری کی ہیں۔ اور بھارتی حکام سے مسلمانوں کی املاک کی "غیر قانونی” مسماری کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ایمنسٹی کے مطابق مذہبی تشدد یا حکومت کی تفریقی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے بعد "سزا” کے طورپر ان کی املاک مسمار کی گئیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے املاک کی مسماری کو ماورائے عدالت سزا کی ایک شکل قراردیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تمام متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے کیونکہ مودی حکومت کے اس اقدام نے سینکڑوں لوگوں کو، جن میں بیشتر مسلمان ہیں، بے گھر اور ان کا ذریعہ معاش تباہ کردیا ہے۔
ایمنسٹی نے جے سی بی تعمیراتی سازو سامان تیار کرنے والی کمپنی سے بھی مطالبہ کیاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے اپنی مشینوں کے استعمال کی عوامی مذمت کریں۔ اسی کمپنی کے بلڈوزر”بطور سزا” املاک کو مسمار کرنے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے ہیں۔
ایمنسٹی نے دو رپورٹوں Bulldozer Injustice in India اور JCB’s Role and Responsibility in Buldozer Injustice in India میں صرف تین ماہ یعنی اپریل سے جون 2022کے درمیان کم ا ز کم 128 املاک کو مسمار کیے جانے کی دستاویز بندی کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے کم از کم 617 لوگ یا تو بے گھر ہوگئے یا ان کا ذریعہ معاش تباہ ہو گیا۔اس میں کہا گیا ہے کہ پانچ ریاستوں، آسام، گجرات، مدھیا پردیش، اترپردیش اور دہلی میں حکام نے مذہبی تشدد یا حکومت کی تفریقی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے واقعات کے بعد "سزا” کے طورپر ان کی املاک مسمار کیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، جس پر مسلم مخالف بیان بازی کا الزام لگایا جاتا ہے، کی ان ریاستوں میں حکومت ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل ایگنیس کالمارڈ کا کہنا تھا،”بھارتی حکام کی جانب سے مسلمانوں کی املاک کی غیر قانونی مسماری، جسے سیاسی لیڈران اور میڈیا ‘بلڈوزر انصاف’ کہتی ہے، ظالمانہ اور خوفنا ک ہے… وہ خاندانوں کو تباہ کررہے ہیں۔ اسے فوری طورپر روکا جانا چاہئے۔””حکام نے نفرت، ایذارسانی، تشدد اور جے سی بی بلڈوزر کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرکے بار بار قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا، گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو تباہ کیا۔ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر فوراً توجہ دی جانی چاہئے۔”

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: املاک کو مسمار انسانی حقوق کی مسلمانوں کی خلاف ورزیوں ایمنسٹی نے استعمال کی کردیا گیا کی املاک میں کہا کے خلاف گیا تھا کے بعد کے لیے

پڑھیں:

پہلگام حملہ: وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے نئی دہلی پہنچ گئے

مقبوضہ جموں و کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرتے ہوئے بدھ کی صبح نئی دہلی لوٹ گئے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم  نے پہلگام کے دہشت گردانہ حملے کے پس منظر میں نئی دہلی پہنچنے  کے فوراً بعد وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول، خارجہ سیکریٹری وکرم مصری اور دیگر حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ سعودی عرب کیا معاہدے طے پائے؟

وزیر اعظم نریندر مودی بدھ کی رات اپنی اصل طے شدہ وطن واپسی کے بجائے منگل رات گئے جدہ سے واپس وطن روانہ ہوئے، میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم نے سعودی حکام کی جانب سے دیے گئے سرکاری عشائیے میں بھی شرکت نہیں کی۔

بھارتی وزیر اعظم کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بارے میں بریفنگ دی، جس کے بعد وزیر اعظم نے وزیر داخلہ کو مناسب اقدامات سمیت جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کی ہدایت کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں نریندر مودی نے لکھا کہ حملہ آوروں کو بخشا نہیں جائے گا۔

مزید پڑھیں:

‘میں پہلگام، جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں، ان لوگوں کے سے تعزیت کرتا ہوں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے، میں دعا کرتا ہوں کہ زخمی جلد صحت یاب ہو جائیں، متاثرہ افراد کو ہر ممکن مدد فراہم کی جا رہی ہے۔’

وزیراعظم نریندرمودی کے مطابق اس گھناؤنے فعل کے پیچھے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، انہیں بخشا نہیں جائے گا، ان کا شیطانی ایجنڈا کبھی کامیاب نہیں ہوگا، دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا ہمارا عزم غیر متزلزل ہے اور یہ مزید مضبوط ہوگا۔

پہلگام میں سیاحوں پر یہ حملہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سب سے بدترین حملہ ہے، جو منگل کی دوپہر 2.30 بجے کے قریب اس وقت ہوا جب دہشت گردوں کے ایک گروپ نے پہلگام سے 5 کلومیٹر دور وادی بیسران میں، جسے منی سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے، سیاحوں پر فائرنگ کی۔

مزید پڑھیں:

میڈیا رپورٹس کے مطابق انٹیلی جنس ذرائع نے منگل کے حملے میں 5 سے 6 دہشت گردوں کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے، مبینہ طور پر اس گروپ میں غیر ملکی دہشت گرد شامل تھے، جنہوں نے سیاحوں پر حملہ کرنے سے چند دن پہلے وادی میں دراندازی کی۔

ایجنسیوں کو شبہ ہے کہ ہڑتال کی منصوبہ بندی احتیاط سے کی گئی تھی، عسکریت پسند خاموشی سے کسی مناسب لمحے کے منتظر تھے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے مطابق ہلاکتوں کا ابھی تک پتا لگایا جا رہا ہے اور انہوں نے اس حملے کو ‘حالیہ برسوں میں عام شہریوں کیخلاف کسی بھی واقعے سے کہیں زیادہ بڑا’ قرار دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بیسران پہلگام ڈاکٹر ایس جے شنکر سعودی عرب عسکریت پسند مقبوضہ جموں و کشمیر منی سوئٹزرلینڈ نئی دہلی وزیر خارجہ وزیراعظم نریندرمودی

متعلقہ مضامین

  • ارشد ندیم کو انڈیا آنے کی دعوت دینے پر بھارتی انتہا پسند نیرج چوپڑا کے پیچھے پڑ گئے
  • غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی پر غاصبانہ قبضہ جمانا چاہتی ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • بھارت کے انتہا پسندوں نے ملک میں موجود کشمیری طلبا کی زندگی اجیرن کردی
  • بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا، نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن بند کرنے کا اعلان
  • گلگت میں لینڈ سلائیڈنگ، املاک تباہ، متعدد رابطہ سڑکیں بند، شاہراہ قراقرم کھول دی گئی
  • بھارت میں حقوق کیلیے احتجاج کرنا جرم قرار؛ پولیس کا مسلمانوں کیخلاف کریک ڈاؤن
  • امریکا: ٹیکساس کے گورنر نے مسلمانوں کو گھروں اور مساجد کی تعمیر سے روک دیا
  • پہلگام حملہ: وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے نئی دہلی پہنچ گئے
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • مسلم امہ کو کمزور کرنیکی سازشوں کے خلاف اتحاد کی ضرورت ہے، میرواعظ عمر فاروق