بھارت جھوٹ پر مبنی بیانیے کے ذریعے جموں و کشمیر کے زمینی حقائق ہرگز تبدیل نہیں کر سکتا، ڈی ایف پی
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
ترجمان ڈی ایف پی کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جس کے ایک بڑے حصے پر بھارت نے غیر قانونی طور پر قبضہ جما رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کی اکائی تنظیم ڈیموکرٹیک فریڈم پارٹی (ڈی ایف پی) نے کہا کہ بھارت ہٹ دھرمی اور جھوٹ پر مبنی اپنے بیانیے کے ذریعے جموں و کشمیر کے زمینی حقائق ہرگز تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے آزاد جموں کشمیر کے بارے میں حالیہ بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی ہنما اس طرح کے گمراہ کن بیانات سے عالمی برادری کی آنکھوں میں ہرگز دھول نہیں جھونک سکتے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جس کے ایک بڑے حصے پر بھارت نے غیر قانونی طور پر قبضہ جما رکھا ہے اور وہ کشمیریوں کی آواز کو دبانے کیلئے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں تعینات تقریباً دس لاکھ بھارتی فورسز اہلکاروں نے نہتے کشمیریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ترجمان نے کہا کہ خطے میں دیرپا امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تنازعہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ ڈی ایف پی
پڑھیں:
بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔