Daily Ausaf:
2025-11-03@06:37:36 GMT

ڈے لائٹ سیونگ، گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کردی گئیں

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

امریکہ(نیوز ڈیسک) امریکا میں ایک مرتبہ پھر گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے کئی امریکیوں کو ایک گھنٹہ پہلے ہی نیند سے بیدار ہونا پڑا ہے۔اتوار کو جب بعض امریکی صبح سات بجے سو کر اٹھے تو گھڑیوں میں سات نہیں بلکہ آٹھ بج رہے تھے۔ کیوں کہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب دو بجے سرکاری طور پر گھڑیوں کی سوئیاں ایک گھںٹہ آگے ہو چکی تھیں۔

ہر سال مارچ کے آغاز میں امریکا کی کئی ریاستوں میں گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے اور نومبر میں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جاتی ہیں۔مارچ میں گھڑی کی سوئیاں آگے کرنا موسمِ گرما کی آمد کا پیغام ہوتا ہے جس کا مقصد سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔اسی طرح نومبر میں گھڑی کی سوئیاں پیچھے کرنا موسمِ سرما کی آمد کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔امریکی ریاست ہوائی اور ایریزونا کے بیشتر علاقوں کے سوا امریکہ بھر میں ہر سال دو مرتبہ گھڑیوں کی سوئیوں کی یہ مشق ہوتی ہے۔ البتہ امریکا کے زیرِ انتظام علاقوں پورٹو ریکو اور ورجن آئی لینڈ میں گھڑی ہر سال ایک ہی وقت کے مطابق چلتی ہے۔

ڈے لائٹ سیونگ پاکستان میں ناکام
ڈے لائٹ سیونگ کے لیے گھڑیوں کو آگے پیچھے صرف امریکہ میں ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یورپ، کینیڈا کے بیشتر علاقوں سمیت آسٹریلیا کے کچھ حصوں میں بھی یہ عمل کیا جاتا ہے۔ البتہ روس اور ایشیا میں ایسا نہیں کیا جاتا۔پاکستان میں بھی دو دہائی قبل سال 2002 میں توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ڈے لائٹ سیونگ کو اپنایا گیا تھا لیکن وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔

ڈے لائٹ سیونگ ہے کیا؟
سن 1890 کی دہائی میں نیوزی لینڈ کے ماہرِ فلکیات جارج ورنن ہڈسن نے موسمِ گرما و سرما کے آغاز پر سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے گھڑیوں کو آگے پیچھے کرنے کا تصور پیش کیا تھا۔سن1900 کے اوائل میں برطانوی ماہرِ تعمیرات ولیم ویلیٹ نے بھی اسی طرح کی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم دونوں ماہرین کے اس خیال کو پذیرائی نہ مل سکی۔ تاہم جرمنی نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران ڈے لائٹ سیونگ کے تصور کو اپنایا تھا جس کے بعد امریکا سمیت کئی دیگرممالک میں بھی یہ رائج ہونا شروع ہوا۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکا نے ایک مرتبہ پھر ڈے لائٹ سیونگ پر عمل کیا اور اس مرتبہ اسے ملک بھر میں “جنگ کا وقت” قرار دیا گیا۔

امریکیوں کی اکثریت ڈے لائٹ سیونگ کے خلاف

بیشتر امریکی کہتے ہیں کہ وہ سارا سال ایک ہی وقت میں اپنے شب و روز گزارنا پسند کرتے ہیں۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک سروے کے مطابق صرف 25 فی صد امریکی دن اور رات کا وقت گھٹانے کو پسند کرتے ہیں جب کہ 43 فی صد کہتے ہیں کہ وہ سارا سال ایک ہی وقت پسند کرتے ہیں۔سروے کے مطابق 32 فی صد امریکی چاہتے ہیں کہ پورے سال وہی وقت رہے جو موسمِ گرما میں ہوتا ہے یعنی ڈے لائٹ سیونگ ٹائم۔

جنوبی افریقی آل راؤنڈر کا پی ایس ایل چھوڑ کر آئی پی ایل جانیکا امکان

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ڈے لائٹ سیونگ کی سوئیاں ا ایک گھنٹہ میں گھڑی سے زیادہ ہوتا ہے ہی وقت

پڑھیں:

اسرائیل اور امریکی کمپنیوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کی حیران کُن تفصیلات سامنے آگئیں

اسرائیل اور امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں گوگل اور ایمازون کے درمیان 2021ء میں طے پانے والے اربوں ڈالر کے ’پروجیکٹ نیمبس‘ معاہدے کی خفیہ تفصیلات منظرِ عام پر آگئی ہیں۔

یہ بھی

اس انکشافات کے مطابق اسرائیل نے ان کمپنیوں کو اپنے ہی سروس معاہدوں اور قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی پر مجبور کیا ہے۔

رشیا ٹوڈے کے مطابق 1.2 ارب ڈالر مالیت کے اس معاہدے میں ایک شق شامل ہے جو گوگل اور ایمازون کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ اسرائیلی حکومت کی کلاؤڈ سروسز تک رسائی محدود کر سکیں، چاہے وہ ان کے ’ٹرمز آف سروس‘ کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرے۔

ونکنگ میکانزم‘ کے ذریعے خفیہ اطلاع کا نظام

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی عدالت یا حکومت اسرائیل کے ڈیٹا تک رسائی کی درخواست کرے، تو گوگل یا ایمازون اسرائیل کو ایک مخصوص مالی اشارے کے ذریعے خفیہ طور پر آگاہ کریں۔

اس طریقہ کار کو ’ونکنگ میکانزم‘ کہا گیا ہے، جس کے تحت کمپنی اسرائیل کو 1000 سے 9999 شیکل کے درمیان رقم ادا کرتی ہے۔ جس کا ہندسہ متعلقہ ملک کے بین الاقوامی ڈائلنگ کوڈ کے برابر ہوتا ہے۔

اس نظام کے ذریعے اسرائیل کو غیر ملکی ڈیٹا درخواستوں کی خفیہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جو عام حالات میں سخت رازداری کے زمرے میں آتی ہیں۔

معاہدہ منسوخ کرنے پر بھاری جرمانے

معاہدے میں یہ بھی درج ہے کہ اگر گوگل یا ایمازون نے اسرائیل کو سروس فراہم کرنا بند کیا، تو انہیں بھاری مالی جرمانے ادا کرنے ہوں گے۔

اسرائیلی حکومت کو ان سروسز کے غیر محدود استعمال کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ اسرائیلی قوانین یا کاپی رائٹ کی خلاف ورزی نہ کرے۔

یہ شق خاص طور پر اس امکان کے پیشِ نظر شامل کی گئی کہ اگر کمپنیوں پر ملازمین، شیئر ہولڈرز یا انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے دباؤ بڑھا تو بھی اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات ختم نہ ہوں۔

گوگل ملازمین کے احتجاج اور برطرفیاں

گزشتہ 2 برسوں کے دوران گوگل کے درجنوں ملازمین نے اسرائیل کے ساتھ کمپنی کے تعلقات کے خلاف احتجاج کیا۔ اپریل 2024 میں گوگل نے ایسے 30 سے زائد ملازمین کو برطرف کر دیا جن پر کام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام تھا۔

بعد ازاں جولائی 2025 میں گوگل کے شریک بانی سرگے برن نے اقوامِ متحدہ پر الزام عائد کیا کہ وہ کھلم کھلا یہودی مخالف رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، کیونکہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں، بشمول گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ، غزہ جنگ سے منافع حاصل کر رہی ہیں۔

یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اقوامِ متحدہ سمیت متعدد عالمی تنظیمیں اسرائیل کے 7 اکتوبر 2023 کے بعد کے فوجی اقدامات کو نسل کشی (Genocide) قرار دے چکی ہیں، جن میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ’پروجیکٹ نیمبس‘ اسرائیل کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر امریکی کلاؤڈ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے، جس سے انسانی حقوق کے ماہرین اور ڈیجیٹل آزادی کے حامیوں نے شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • چین نے پاکستان کے لئے لاکھوں ڈالر کی رقم جاری کردی
  • اسلام آباد : بھاری گاڑیاں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئیں
  • کراچی، گلستان جوہر میں 200 سے زائد جھگیاں آگ لگنے کے باعث جل گئیں، مویشی بھی ہلاک
  • شادی کی خوشیاں غم میں بدل گئیں
  • اینکر خاتون عروج فاطمہ وفات پا گئیں
  • رکن قومی اسمبلی علی گوہر مہر اور علی نواز مہر کی والدہ انتقال کر گئیں
  • استنبول مذاکرات:پاک افغان معاہدہ کی مزید تفصیلات سامنے آگئیں
  • ایک ساتھ دو چھٹیاں مل گئیں
  • باہوبلی کے مداحوں کے لیے بڑا سرپرائز، پروڈیوسر نے تصدیق کردی
  • اسرائیل اور امریکی کمپنیوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کی حیران کُن تفصیلات سامنے آگئیں