ڈے لائٹ سیونگ، گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کردی گئیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
امریکہ(نیوز ڈیسک) امریکا میں ایک مرتبہ پھر گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے کئی امریکیوں کو ایک گھنٹہ پہلے ہی نیند سے بیدار ہونا پڑا ہے۔اتوار کو جب بعض امریکی صبح سات بجے سو کر اٹھے تو گھڑیوں میں سات نہیں بلکہ آٹھ بج رہے تھے۔ کیوں کہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب دو بجے سرکاری طور پر گھڑیوں کی سوئیاں ایک گھںٹہ آگے ہو چکی تھیں۔
ہر سال مارچ کے آغاز میں امریکا کی کئی ریاستوں میں گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے اور نومبر میں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جاتی ہیں۔مارچ میں گھڑی کی سوئیاں آگے کرنا موسمِ گرما کی آمد کا پیغام ہوتا ہے جس کا مقصد سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔اسی طرح نومبر میں گھڑی کی سوئیاں پیچھے کرنا موسمِ سرما کی آمد کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔امریکی ریاست ہوائی اور ایریزونا کے بیشتر علاقوں کے سوا امریکہ بھر میں ہر سال دو مرتبہ گھڑیوں کی سوئیوں کی یہ مشق ہوتی ہے۔ البتہ امریکا کے زیرِ انتظام علاقوں پورٹو ریکو اور ورجن آئی لینڈ میں گھڑی ہر سال ایک ہی وقت کے مطابق چلتی ہے۔
ڈے لائٹ سیونگ پاکستان میں ناکام
ڈے لائٹ سیونگ کے لیے گھڑیوں کو آگے پیچھے صرف امریکہ میں ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یورپ، کینیڈا کے بیشتر علاقوں سمیت آسٹریلیا کے کچھ حصوں میں بھی یہ عمل کیا جاتا ہے۔ البتہ روس اور ایشیا میں ایسا نہیں کیا جاتا۔پاکستان میں بھی دو دہائی قبل سال 2002 میں توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ڈے لائٹ سیونگ کو اپنایا گیا تھا لیکن وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔
ڈے لائٹ سیونگ ہے کیا؟
سن 1890 کی دہائی میں نیوزی لینڈ کے ماہرِ فلکیات جارج ورنن ہڈسن نے موسمِ گرما و سرما کے آغاز پر سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے گھڑیوں کو آگے پیچھے کرنے کا تصور پیش کیا تھا۔سن1900 کے اوائل میں برطانوی ماہرِ تعمیرات ولیم ویلیٹ نے بھی اسی طرح کی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم دونوں ماہرین کے اس خیال کو پذیرائی نہ مل سکی۔ تاہم جرمنی نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران ڈے لائٹ سیونگ کے تصور کو اپنایا تھا جس کے بعد امریکا سمیت کئی دیگرممالک میں بھی یہ رائج ہونا شروع ہوا۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکا نے ایک مرتبہ پھر ڈے لائٹ سیونگ پر عمل کیا اور اس مرتبہ اسے ملک بھر میں “جنگ کا وقت” قرار دیا گیا۔
امریکیوں کی اکثریت ڈے لائٹ سیونگ کے خلاف
بیشتر امریکی کہتے ہیں کہ وہ سارا سال ایک ہی وقت میں اپنے شب و روز گزارنا پسند کرتے ہیں۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک سروے کے مطابق صرف 25 فی صد امریکی دن اور رات کا وقت گھٹانے کو پسند کرتے ہیں جب کہ 43 فی صد کہتے ہیں کہ وہ سارا سال ایک ہی وقت پسند کرتے ہیں۔سروے کے مطابق 32 فی صد امریکی چاہتے ہیں کہ پورے سال وہی وقت رہے جو موسمِ گرما میں ہوتا ہے یعنی ڈے لائٹ سیونگ ٹائم۔
جنوبی افریقی آل راؤنڈر کا پی ایس ایل چھوڑ کر آئی پی ایل جانیکا امکان
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ڈے لائٹ سیونگ کی سوئیاں ا ایک گھنٹہ میں گھڑی سے زیادہ ہوتا ہے ہی وقت
پڑھیں:
حج کیلئے گھوڑوں پر 6 ہزار کلومیٹر کا سفر: 3 ہسپانوی مسلمانوں نے صدیوں پرانی روایت زندہ کردی
تین ہسپانوی مسلمانوں عبداللہ رافائیل ہرنانڈیز مانچا، عبدالقادر حرقاسی اور طارق روڈریگز نے سات ماہ کے طویل سفر کے بعد مکہ مکرمہ پہنچ کر حج کی سعادت حاصل کی، اور یوں صدیوں پرانے اندلسی مسلمانوں کی روایت کو زندہ کر دیا۔
یہ روح پرور سفر اکتوبر 2024 میں اسپین کے صوبے اندلس سے شروع ہوا۔ عبداللہ ہرنانڈیز نے اسلام قبول کرتے وقت 35 سال قبل جو وعدہ کیا تھا، وہ پورا کرتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہوکر مکہ جانے کا عزم کیا۔
سفر کے دوران انہوں نے 6,000 کلومیٹر سے زائد فاصلہ طے کیا، جس میں پیرنیز، برف سے ڈھکے الپس اور بلقان کے پہاڑی علاقوں کو بھی پار کیا۔
مالی مشکلات کے باوجود، یہ قافلہ فرانس، اٹلی، سلووینیا، کروشیا، بوسنیا، سربیا، ترکی، شام اور اردن سے گزرا۔ بہت سے مسلمان علاقوں میں مقامی لوگوں نے انہیں نہ صرف کھانا، رہائش بلکہ مالی مدد بھی فراہم کی۔
ایک سعودی سوشل میڈیا انفلوئنسر کے ساتھ شامل ہونے اور ان کے سفر کی کہانی کو وائرل کرنے کے بعد ان کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ شام میں نئی حکومت کے وزراء نے ان کا استقبال کیا، جبکہ ترکی اور اردن میں روزہ افطار کے لیے روزانہ میزبان ملتے رہے۔
سعودی عرب میں حج کے دوران گھوڑوں پر داخلے کی اجازت نہ ہونے کے باعث انہیں وہاں سے سپورٹ فراہم کی گئی، اور وہ اپنی آخری منزل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
9 جون کو حج مکمل کرنے کے بعد وہ طیارے کے ذریعے اسپین واپس روانہ ہوں گے، تاہم ان کے ساتھ وفادار عربی نسل کی گھوڑیوں کو وہیں چھوڑنا پڑے گا۔
ان کا یہ ناقابلِ فراموش سفر، جسے "ریحلہ" بھی کہا جا سکتا ہے، نہ صرف اسلامی تاریخ کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اسپین کے موجودہ مسلمان معاشرے کی خوبصورت تصویر بھی دنیا کے سامنے لایا ہے۔