WE News:
2025-11-10@22:35:03 GMT

‘صدقہ اور خیرات دینے سے دل کو سکون ملتا ہے’

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

‘صدقہ اور خیرات دینے سے دل کو سکون ملتا ہے’

صدقہ اور خیرات دینے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور انسان کے گناہوں کو معاف کرتے ہیں۔ صدقہ اور خیرات دینے سے دل کو سکون ملتا ہے اور رزق میں برکت ہوتی ہے۔ پرندوں اور جانوروں کو کھانا کھلانا ایک نیک عمل ہے، اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔ پرندوں اور جانوروں کو کھانا کھلانے سے دل کو سکون ملتا ہے اور فطرت سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس نیکی کو مستقل عادت کیسے بنایا جائے جانتے ہیں عائشہ امجد سے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

پڑھیں:

تجدید وتجدّْد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251110-03-9

 

(5)

مفتی منیب الرحمن

جْمہورِ امت کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن وحدیث لازم وملزوم ہیں۔ رسول اللہؐ کا فرمان ہے ’’سنو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اْس کی مثل بھی اْس کے ساتھ ہے‘ وہ وقت دور نہیں کہ ایک شخص شکم سیر اپنی مَسند پر ٹیک لگائے ہوگا اور کہے گا: اس قرآن کو لازم پکڑو‘ پس جو کچھ تم اْس میں حلال پائو اْسے حلال مانو اور جو کچھ تم اْس میں حرام پائو‘ اْسے حرام مانو۔ سنو! تمہارے لیے پالتو گدھا‘ کْچلیوں (سامنے کے دانتوں) سے شکار کرنے والے درندے (اور دوسری روایت میں پنجوں سے شکار کرنے والے پرندے) حلال نہیں ہیں‘‘ (ابودائود) ’’آپؐ نے فرمایا: وہ وقت دور نہیں کہ ایک شخص کو میری حدیث پہنچے گی‘ وہ اپنی مَسند پر ٹیک لگائے ہوگا اور کہہ رہا ہوگا: ہمارے اور تمہارے درمیان (فیصَل) کتاب اللہ ہے‘ سو ہم اْس میں جو حلال پائیں گے اْسے حلال جانیں گے اور جو حرام پائیں گے‘ اْسے حرام جانیں گے‘ حالانکہ رسول اللہؐ کا کسی چیز کو حرام قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے اللہ کا حرام قرار دینا‘‘۔ (ترمذی) خود قرآنِ کریم نے بتایا کہ حلال وحرام کو طے کرنے کا تشریعی اختیار رسول اللہؐ کے پاس ہے؛ چنانچہ ارشاد ہوا: ’’(اْس نبی کی شان یہ ہے کہ) وہ اْن کے لیے پاک چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں‘‘ (الاعراف: 157)۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ قرآن نہ ہم پر نازل ہوا ہے‘ نہ ہم نے اترتے دیکھا ہے‘ یہ بھی اللہ کے رسول نے بتایا: یہ اللہ کا کلام ہے۔ پس جن صحابہ کرامؓ کی نقل وروایت سے ہمیں قرآن کا قرآن ہونا معلوم ہوا‘ اْنہی کے واسطے سے احادیثِ مبارکہ کا کلامِ رسول ہونا معلوم ہوا‘ اگر رسول اللہؐ اور صحابہ کرامؓ کے تواترِ قولی اور فعلی کو نظر انداز کر دیا جائے تو فرض عبادات پر عمل کرنا بھی مشکل ہو جائے۔

بعض متجدِّدین جن دینی امور کو عہدِ رسالت مآبؐ تک محدود رکھتے ہیں‘ اْن میں جہاد بھی ہے اور کافر کو کافر نہ کہنا بھی ہے‘ جبکہ اْن کے نزدیک اتمامِ حجت کے بعد جہاد بمعنی قتال منسوخ ہو گیا ہے۔ چنانچہ خورشید ندیم صاحب لکھ چکے ہیں کہ پاکستان کی بھارت کے خلاف جنگ جہاد نہیں ہے‘ بلکہ یہ ملکی دفاع کی جنگ ہے‘ جبکہ ہماری مسلّح افواج کا ماٹو ہے: ’’ایمان‘ تقویٰ اورجہاد فی سبیل اللہ‘‘۔

کون کافر ہے‘ کون مسلمان‘ متجددین کے نزدیک یہ اللہ کی عدالت میں قیامت میں طے ہو گا‘ ہم یہ طے کرنے والے کون ہیں‘ پس لازم ہے کہ آپ کفر کو کفر اور کافر کو کافر بھی نہ کہیں‘ اْن کے نزدیک جھوٹے مْدّعیِ نبوت مرزا غلام قادیانی کے لیے بھی گنجائش موجود ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے کہا کہ مرزا غلام قادیانی کے اقوال کو بھی شیخِ اکبر اور دوسرے صوفیہ کرام کے شطحیات پر محمول کیا جائے۔ متجددین کے نزدیک سنّت کی تعریف جمہورِ امت سے جدا ہے‘ اْن کے نزدیک سْنّت ابراہیمؑ سے لے کر خاتم النبیینؐ تک چند امور کا نام ہے‘ پہلے انہوں نے سنّتوں کی تعداد 27 مقرر کی اور پھر بتدریج کم کرتے کرتے 17 تک آ گئے اور جمہورِ امّت کے نزدیک رسول اللہؐ نے شارع کی حیثیت سے جو شعار قائم کیے‘ وہ سب سنّت ہیں؛ البتہ آپؐ کے امتیازات وخصائص اتباع کے لیے نہیں ہیں بلکہ آپؐ کے مقام ومرتبہ کو پہچاننے کے لیے ہیں۔ قرآن کی صریح آیت ہے: ’’ان سب رسولوں (میں سے) ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘‘۔ (البقرہ: 253) اور خود سید المرسلینؐ کا فرمان ہے: ’’مجھے (دیگر) انبیائے کرامؑ پر چھے چیزوں میں فضیلت عطا کی گئی ہے (اور پھر آپؐ نے اْن کا بیان فرمایا)‘‘۔ (مسلم) جبکہ متجددین انبیائے کرامؑ کے درمیان تفضیل وتفاضل کے قائل نہیں ہیں۔

رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’(اے میرے امتیو!) تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو‘ اْن کو داڑھ سے مضبوطی سے پکڑ لو اور ہاں! ایسے نئے امور سے (جن کی اصل سنّت میں نہ ہو) بچے رہو‘ کیونکہ ہر وہ بدعت (جو کسی سنّت کو مٹا دے) گمراہی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ) اسی لیے جمہورِ امت کے نزدیک دین قرآن تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ دین قرآن وسنّت کے مجموعے کا نام ہے۔ سنّت قرآن کی ضد یا قرآن کے مقابل نہیں ہے‘ بلکہ یہ قرآنِ کریم کی تبیِین ہے‘ تشریح ہے اور اس کی عملی تعبیر اور تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے رسولِ مکرّم!) آپ (وحیِ ربانی کو) جلد یاد کرنے کے شوق میں اپنی زبان کو جلدی حرکت نہ دیا کیجیے‘ اسے آپ کے (دل ودماغ میں) محفوظ کرنا اور اسے آپ کو پڑھانا ہمارے ذمۂ کرم پر ہے‘ پس جب ہم (بزبانِ جبرائیل) اسے پڑھ لیں تو آپ (اطمینان وقرار کے ساتھ) ان کی متابعت میں پڑھ لیا کیجیے‘ پھر اس (کے معانی) کو آپ پر ظاہر کرنا بھی ہمارے ذمے ہے‘‘۔ (القیامہ: 16 تا 19) اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں معانی کا جو بحرِ زَخّار موجود ہے‘ اس کی تفصیل وتشریح رسول اللہؐ کے قول وفعل سے معلوم ہو گی‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جابجا نماز کا حکم دیا‘ متفرق مقامات پر اس کے بعض ارکان تکبیر‘ قیام‘ قرآت‘ رکوع اور سجود کا ذکر فرمایا‘ لیکن نماز پڑھنے کا پورا طریقہ قرآنِ کریم نے تعلیم نہیں فرمایا‘ یہ امت کو رسول اللہؐ کے تعامل سے معلوم ہوا؛ چنانچہ آپؐ نے فرمایا: ’’تم جیسے مجھے نماز پڑھتا دیکھو‘ ویسے ہی نما ز پڑھو‘‘۔ (بخاری)

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’پس جب تم زمین میں سفر کرو اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں مشکل میں ڈال دیں گے تو تم پر کوئی حرج نہیں کہ نماز میں قصر کر دو‘‘۔ (النسآء: 101) اس سے بظاہر یہ سمجھ میں آتا تھا کہ خطرات کی صورت میں تو مسافر نماز میں قصر کر سکتا ہے‘ لیکن حالتِ امن میں کیا یہی حکم ہے‘ صورتِ حال واضح نہیں ہو رہی تھی‘ حدیث پاک میں ہے: ’’یعلیٰ بن اْمیّہ نے سیدنا عمرؓ بن خطاب سے پوچھا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اگر تمہیں کفار کی جانب سے خطرات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز کو قصر کر دو‘ اور اب لوگ محفوظ ہو گئے ہیں‘‘ تو سیدنا عمرؓ نے کہا: جس بات پر تمہیں تعجب ہوا‘ مجھے بھی ہوا تھا‘ میں نے رسول اللہؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا: یہ صدقہ (رعایت) ہے جو اللہ نے تمہیں عطا کیا تو اس کے اس صدقے کو قبول کرو‘‘۔ (ترمذی) سیدہ عائشہؓ کا معمول تھا کہ دین کی کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو رسول اللہؐ سے معلوم کرتیں‘ پس جب نبیؐ نے فرمایا: جس سے حساب لیا گیا‘ وہ مبتلائے عذاب ہو گا‘ وہ بیان کرتی ہیں: میں نے پوچھا: اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: عنقریب ان سے آسان حساب لیا جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا: یہ اْن کی بابت ہے جن کی محض پیشی ہوئی‘ لیکن جس پر تفصیلی جرح ہوئی تو وہ ہلاک ہو جائے گا‘‘۔ (بخاری) آج کل کی زبان میں اسے ’’منی ٹریل‘‘ کہتے ہیں۔

علامہ سید شریف جرجانی لکھتے ہیں: ’’شریعت میں سنّت سے مراد وہ راستہ ہے جو دین میں اْن امور کی بابت مقرر کیا گیا ہے جو فرض اور واجب نہیں ہیں۔ پس سنّت وہ ہے جس پر نبیؐ نے ہمیشگی فرمائی اور کبھی چھوڑ بھی دیا‘ اگر یہ ہمیشگی عبادت کے طور پر ہو تو انہیں’’ سْنَنِ ہْدیٰ‘‘ کہتے ہیں اور اگر عادت کے طور پر ہو تو انہیں ’’سننِ زوائد‘‘ کہتے ہیں۔ سْنَنِ ہْدیٰ کو تکمیلِ دین کے لیے قائم کیا جاتا ہے اور اس کا ترک کراہت یا اِسائَ ت کا سبب بنتا ہے اور سْنَنِ زوائد وہ ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہونا اچھی بات ہے اور ان کا ترک کراہت اور اِسائَ ت کا باعث نہیں ہوتا‘ جیسے رسول اللہؐ کی نشست وبرخاست‘ لباس اور کھانے پینے کی عادات وغیرہ۔ سْنَنِ ہْدیٰ کو سنن مؤکدہ بھی کہتے ہیں‘ جیسے اذان‘ اقامت‘ کْلّی کرنا‘ ناک میں پانی ڈالنا اور سننِ زوائد جیسے: منفرد کا اذان کہنا‘ مسواک کرنا اور نماز اور خارجِ نماز میں بعض امور کی رعایت کرنا‘ اس کا ترک سزا کا موجب نہیں ہوتا‘‘۔ (کتاب التعریفات)

 

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • کراچی: مستقبل کے ڈاکٹروں میں ذہنی سکون اور نیند کی ادویات کے استعمال کا انکشاف
  • 27ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے کر پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے استعفیٰ دے دیا
  • پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے پارٹی اراکین کے خلاف کارروائی کا اعلان
  • آئینی ترمیم کو ووٹ دینے کے بعد پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ ابڑو مستعفی ہوگئے
  • پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ ابڑو آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے بعد مستعفی
  • فیلڈمارشل کو استثنیٰ دینے سے آرٹیکل 6ختم نہیں ہوتا،رانا ثنا اللہ
  • تجدید وتجدّْد
  • ڈیڑھ کروڑ میں 35 کلو سونا کہاں ملتا ہے؟ مشی خان نے ڈاکٹر نبیہا کو آڑے ہاتھوں لے لیا
  • شمالی دارفور میں ریپڈ سپورٹ فورسز کے مظالم، فرار ہوتے 150 سے زائد خواتین جنسی تشدد کا شکار