دہشت گردی کے خلاف جنگ کا چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
پاکستان کا ایک بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا ہے۔دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ نئی نہیں ہے بلکہ پچھلی کئی دہائیوں سے ہمیں مختلف نوعیت کی دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔دہشت گردی سے جڑے مسائل کا تعلق ایک طرف ہماری داخلی سیاست سے ہے تو دوسری طرف ہمیں علاقائی اور عالمی سطح سے جڑے معاملات میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔
حالیہ کچھ برسوں میں پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردوں کی در اندازی کے خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان بار بار افغانستان کو یہ باور کرا چکا ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن نہ تو عالمی دنیا نے اور نہ ہی افغانستان نے اس معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت کی ہے۔ افغانستان سے ہمارے معاملات میں کافی بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ افغانستان وہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو پاکستان چاہتا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت زیادہ شدت بھی آئی ہے اور تیزی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025 میں پاکستان دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ میں گزشتہ 17 سال کے دوران دہشت گردی کے رجحانات اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
2023 میں 517 حملے رپورٹ ہوئے جو 2024 میں بڑھ کر 1099 ہو گئے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی میں سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے جو 2024 میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمے دار تھی۔گزشتہ برس ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے جو 2023 کی 293 ہلاکتوں کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد دہشت گردوں کو وہاں محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں اور اسی وجہ سے خیبر پختون خواہ دہشت گردی کا بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔
پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد تواتر کے ساتھ متحرک ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف یہ جنگ جیتنے کے لیے پاکستان کو عالمی اور علاقائی تعاون درکار ہے۔ علاقائی سطح پر اس جنگ سے نمٹنے کے لیے جو عملی اقدامات درکار ہیں، ان کا فقدان تمام سطح پر غالب نظر آتا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اگر امریکا اپنے چھوڑے ہتھیار افغانستان سے واپس لے تو خطے میں امن بحال ہو سکتا ہے۔ادھر افغانستان الٹا پاکستان کے خلاف الزام تراشی کررہی ہے ۔
اصولی طور پر تو اہل مستحکم اور پرامن افغانستان ہی اس خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہو اور وہ افغانستان میں موجود مسلح گروہوں کا خاتمہ کرے
۔پاکستان نے کئی بار افغان طالبان حکومت کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ان کی مدد اور تعاون کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔لیکن افغان طالبان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو ہمارے تحفظات ہیں ان پر کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ یقینی طور پر ہمیں افغان طالبان پر دوحہ معاہدے کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے اور یہ کام بڑی طاقتوں کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔
ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم داخلی معاملات میں بہت برے طریقے سے پھنسے ہوئے ہیں اور سیاسی کھینچا تانی بھی واضح ہے۔خیبر پختون خوا میں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ مگر سیاسی کھینچا تانی بھی اس صوبے میں واضح طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمارے داخلی حقائق کافی تلخ ہیں۔
سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرتے نظر نہیں آتی۔یہ معاملات ہم نے مکمل طور پر سیکیورٹی اداروں تک محدود کر دیے ہیں۔اس عمل میں سیاسی قیادت ،سیاسی جماعتیں، ارکان پارلیمنٹ اور خود پارلیمنٹ کا کوئی کردار واضح اور شفاف نظر نہیں آتا۔اس لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ محض سیکیورٹی ادارے نہیں جیت سکتے۔ اس کے لیے سیاسی قیادت سمیت دیگر فریقین کو فرنٹ فٹ پر اس جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔
سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پہ ہمیں ایک بڑی جنگ لڑنی ہے۔کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جو پاکستانی ریاست کا بیانیہ ہے اس کی قبولیت عالمی اور علاقائی ممالک اور فورم تک قبول کروانا ہے۔اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان داخلی سطح پر مضبوط ہو اور یہ ہی مضبوطی ہمیں سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر کھڑا کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔اگر ہم نے محض سیاسی اسکورنگ کی بنیاد پر اس جنگ کی ناکامی خیبر پختون خواہ کی پی ٹی ٹی آئی حکومت پر ڈالنی ہے تو اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔خیبر پختون خواہ حکومت اور وفاقی حکومت کا آپس میں بیٹھنا اور مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا دہشت گردی کے خاتمے میں مدد دے سکتا ہے۔
ہمیں ایسی کوششوں کو آگے بڑھانا ہوگا کہ ہم علاقائی ممالک کی حکومتوں کی مدد کے ساتھ ساتھ داخلی عزم اور اتحاد سے افغانستان کو یہ باور کروائیں کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملے میں پاکستان کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح جو ہم نے وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ایپکس کمیٹیاں بنائی ہیں ان کو زیادہ فعال بنانا ہوگا اور ان کمیٹیوں میں سیاسی قیادت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت میں خود کو پیش کرنا ہوگا۔اسی طرح دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہم نے جو بھی ادارے جن میں نیکٹا بھی شامل ہے بنائے ہیں ان کی فعالیت کو یقینی بنانا ہوگا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پر آنا ہوگا۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں دہشت گردی کے واقعات میں داعش کا بھی ہاتھ ہے۔ہم نے مجموعی طور پر انتہا پسندی یا دہشت گردی کے معاملات میں بہت سے امور پر کمزوری دکھائی ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس جنگ میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو ہماری پالیسیاں تھیں اس میں بھی کافی تضاد تھا اور انھی تضادات کی وجہ سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے تھے ۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر ہم عوامی اتفاق رائے دہشت گردی کے خلاف دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پہلے سیاسی اتفاق کی رائے درکار ہے۔
2014 میں جو نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اور جس کے 20 نکات تھے اس پر بھی ہم مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کر سکے۔آج بھی اگر ہم دیانتداری سے نیشنل ایکشن پلان کا تجزیہ کریں تو اس میں ہماری داخلی کمزوریوں کے پہلو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔اس لیے جہاں ہمیں افغانستان سے شکایات ہیں اور جو بجا ہے لیکن ضروری ہے کہ ہم اپنا داخلی احتساب بھی کریں اور اپنے داخلی معاملات کو بھی درست کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ اس کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ممکن نہیں ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دہشت گردی کے خلاف جنگ دہشت گردی کے واقعات میں دہشت گردی کے افغانستان سے معاملات میں پاکستان میں سیاسی قیادت میں پاکستان خیبر پختون ٹی ٹی پی ہیں اور کی کوشش کے لیے
پڑھیں:
انوارالحق سرکار کو جھٹکا،وزیرٹرانسپورٹ آزاد کشمیر جاوید بٹ کےسرپر نااہلی کی تلوار لٹکنے لگی، سٹیٹ سبجیکٹ چیلنج
مظفرآباد (سٹاف رپورٹر)وزیرٹرانسپورٹ آزاد کشمیر جاوید بٹ کے سرپر نااہلی کی تلوار لٹکنے لگی.وزیر ٹرانسپورٹ جاوید بٹ کا ا سٹیٹ سبجیکٹ عدالت العالیہ میں چیلنج کر دیا گیا.
مقدمہ عنوانی حمزہ مجید بزمی بنام ڈی سی بحالیات میرپور وغیرہ میں پٹیشنز حمزہ مجید بزمی نے رٹ پٹیشن میں موقف اختیار کیا ہے کہ جب جاوید بٹ نے جعلی سٹیٹ سبجیکٹ ڈی سی بحالیات کی ملی بھگت سے جعل سازی سے سٹیٹ سبجیکٹ بنوایا تھا مقبوضہ کشمیر میں پراپرٹی ظاہر کی گئی ہے جو فرضی ہے۔
جاوید بٹ نے خود اعتراف کر رکھا ہے کہ اس کے پاس مہاجر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں کچھ عرصہ پہلے سابق ڈپٹی کمشنر بحالیات میرپور نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس میں جاوید بٹ کے خلاف سابق ڈی سی بحالیات کی رپورٹ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ۔۔
اس میں سابق ڈی سی بحالیات میرپور نے خود یہ تسلیم کیا ہے کہ جب سٹیٹ سبجیکٹ بنایا گیا تھا تو اس وقت مطلوبہ ڈاکومنٹس مکمل نہیں تھے لیکن بعد میں سابق ڈی سی نے بدنیتی کی بنیاد پر فرضی ڈاکومنٹس لے کر اس کو کلیئر کروا دیاجس کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس دائر کر دیا گیا
حمزہ مجید بزمی نے جاوید بٹ کیخلاف جعلی سٹیٹ سبجیکٹ کی رپورٹ جو سابق ڈی سی بحالیات نے جاری کی تھی وہ چیلنج کر دی ۔ عدالت العالیہ آزاد جموں و کشمیر نے جملہ فریقین کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔
واضح رہے کہ سابق ڈی سی بحالیات میرپور نے اپنی رپورٹ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ جب جاوید بٹ کا سٹیٹ سبجیکٹ 2016 میں بنا یا گیا جو کہ غلط طریقے سے بنایاگیا تھا۔ اسی غلط طریقے سے بننے والے سٹیٹ سبجیکٹ پر انہوں نے 2021 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور تا حال ممبر اسمبلی ہیں۔۔
2023 میں جب وہ وزیر تھے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرضی ڈاکومنٹس پیش کر کے اور سابق ڈی سی بحالیات میرپور کی ملی بھگت سے درستگی کروا لی گئی ،2016 میں جاوید بٹ کی طرف سے جو سٹیٹ سبجیکٹ بنایا گیا جن لوگوں کی تصدیق لگی وہ خود حویلی کے لوگ تھے مہاجر نہیں تھے۔
انہوں نے جو 2016 میں سٹیٹ سبجیکٹ بنایا رپورٹ میں یہ ثابت ہو چکا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نہیں تھا یاد رہیے سابق ڈی سی بحالیات نے جو انکوائری کی تھی وہ بھی حمزہ مجید بزمی کی طرف سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئ تھی جس پر کورٹ نے ڈی سی بحالیات کو حکم دیا تھا کہ سپریم کورٹ نے جو گائیڈ لائن دی ہوئی ہے
اس کے مطابق اگر سٹیٹ سبجیکٹ ہے تو اس کی انکوائری کر کے رپورٹ جمع کروای جائے تب بھی ڈی سی بحالیات سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف جا کر سٹیٹ سبجیکٹ کو کنسل کرنے کے بجاے نئے فرضی ڈاکومنٹس لے کر اسی کو برقرار رکھا ۔
حمزہ مجید بزمی بنام ڈی سی بحالیات میں جاوید بٹ کو بھی فریق بنایا گیا ،عدالت سے سٹیٹ سبجیکٹ کینسل کرنے کی استدعا کی گئی ہے اور اس کو ڈی سیٹ کرنے کی بھی استدعا کی گئی
ٹرمپ بمقابلہ مسک: ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلئے تیار رہو،امریکی صدر