Express News:
2025-11-05@01:24:57 GMT

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

پاکستان کا ایک بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا ہے۔دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ نئی نہیں ہے بلکہ پچھلی کئی دہائیوں سے ہمیں مختلف نوعیت کی دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔دہشت گردی سے جڑے مسائل کا تعلق ایک طرف ہماری داخلی سیاست سے ہے تو دوسری طرف ہمیں علاقائی اور عالمی سطح سے جڑے معاملات میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔

حالیہ کچھ برسوں میں پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردوں کی در اندازی کے خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان بار بار افغانستان کو یہ باور کرا چکا ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن نہ تو عالمی دنیا نے اور نہ ہی افغانستان نے اس معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت کی ہے۔ افغانستان سے ہمارے معاملات میں کافی بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ افغانستان وہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو پاکستان چاہتا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت زیادہ شدت بھی آئی ہے اور تیزی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025 میں پاکستان دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ میں گزشتہ 17 سال کے دوران دہشت گردی کے رجحانات اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 

2023 میں 517 حملے رپورٹ ہوئے جو 2024 میں بڑھ کر 1099 ہو گئے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی میں سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے جو 2024 میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمے دار تھی۔گزشتہ برس ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے جو 2023 کی 293 ہلاکتوں کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد دہشت گردوں کو وہاں محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں اور اسی وجہ سے خیبر پختون خواہ دہشت گردی کا بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔

 پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد تواتر کے ساتھ متحرک ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف یہ جنگ جیتنے کے لیے پاکستان کو عالمی اور علاقائی تعاون درکار ہے۔ علاقائی سطح پر اس جنگ سے نمٹنے کے لیے جو عملی اقدامات درکار ہیں، ان کا فقدان تمام سطح پر غالب نظر آتا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اگر امریکا اپنے چھوڑے ہتھیار افغانستان سے واپس لے تو خطے میں امن بحال ہو سکتا ہے۔ادھر افغانستان الٹا پاکستان کے خلاف الزام تراشی کررہی ہے ۔

اصولی طور پر تو اہل مستحکم اور پرامن افغانستان ہی اس خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہو اور وہ افغانستان میں موجود مسلح گروہوں کا خاتمہ کرے

۔پاکستان نے کئی بار افغان طالبان حکومت کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ان کی مدد اور تعاون کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔لیکن افغان طالبان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو ہمارے تحفظات ہیں ان پر کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ یقینی طور پر ہمیں افغان طالبان پر دوحہ معاہدے کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے اور یہ کام بڑی طاقتوں کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔

 ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم داخلی معاملات میں بہت برے طریقے سے پھنسے ہوئے ہیں اور سیاسی کھینچا تانی بھی واضح ہے۔خیبر پختون خوا میں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ مگر سیاسی کھینچا تانی بھی اس صوبے میں واضح طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمارے داخلی حقائق کافی تلخ ہیں۔

سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرتے نظر نہیں آتی۔یہ معاملات ہم نے مکمل طور پر سیکیورٹی اداروں تک محدود کر دیے ہیں۔اس عمل میں سیاسی قیادت ،سیاسی جماعتیں، ارکان پارلیمنٹ اور خود پارلیمنٹ کا کوئی کردار واضح اور شفاف نظر نہیں آتا۔اس لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ محض سیکیورٹی ادارے نہیں جیت سکتے۔ اس کے لیے سیاسی قیادت سمیت دیگر فریقین کو فرنٹ فٹ پر اس جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔

سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پہ ہمیں ایک بڑی جنگ لڑنی ہے۔کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جو پاکستانی ریاست کا بیانیہ ہے اس کی قبولیت عالمی اور علاقائی ممالک اور فورم تک قبول کروانا ہے۔اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان داخلی سطح پر مضبوط ہو اور یہ ہی مضبوطی ہمیں سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر کھڑا کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔اگر ہم نے محض سیاسی اسکورنگ کی بنیاد پر اس جنگ کی ناکامی خیبر پختون خواہ کی پی ٹی ٹی آئی حکومت پر ڈالنی ہے تو اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔خیبر پختون خواہ حکومت اور وفاقی حکومت کا آپس میں بیٹھنا اور مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا دہشت گردی کے خاتمے میں مدد دے سکتا ہے۔

ہمیں ایسی کوششوں کو آگے بڑھانا ہوگا کہ ہم علاقائی ممالک کی حکومتوں کی مدد کے ساتھ ساتھ داخلی عزم اور اتحاد سے افغانستان کو یہ باور کروائیں کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملے میں پاکستان کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح جو ہم نے وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ایپکس کمیٹیاں بنائی ہیں ان کو زیادہ فعال بنانا ہوگا اور ان کمیٹیوں میں سیاسی قیادت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت میں خود کو پیش کرنا ہوگا۔اسی طرح دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہم نے جو بھی ادارے جن میں نیکٹا بھی شامل ہے بنائے ہیں ان کی فعالیت کو یقینی بنانا ہوگا۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پر آنا ہوگا۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں دہشت گردی کے واقعات میں داعش کا بھی ہاتھ ہے۔ہم نے مجموعی طور پر انتہا پسندی یا دہشت گردی کے معاملات میں بہت سے امور پر کمزوری دکھائی ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس جنگ میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو ہماری پالیسیاں تھیں اس میں بھی کافی تضاد تھا اور انھی تضادات کی وجہ سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے تھے ۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر ہم عوامی اتفاق رائے دہشت گردی کے خلاف دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پہلے سیاسی اتفاق کی رائے درکار ہے۔

2014 میں جو نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اور جس کے 20 نکات تھے اس پر بھی ہم مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کر سکے۔آج بھی اگر ہم دیانتداری سے نیشنل ایکشن پلان کا تجزیہ کریں تو اس میں ہماری داخلی کمزوریوں کے پہلو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔اس لیے جہاں ہمیں افغانستان سے شکایات ہیں اور جو بجا ہے لیکن ضروری ہے کہ ہم اپنا داخلی احتساب بھی کریں اور اپنے داخلی معاملات کو بھی درست کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ اس کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ممکن نہیں ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے خلاف جنگ دہشت گردی کے واقعات میں دہشت گردی کے افغانستان سے معاملات میں پاکستان میں سیاسی قیادت میں پاکستان خیبر پختون ٹی ٹی پی ہیں اور کی کوشش کے لیے

پڑھیں:

فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر

دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی،طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والے افغانستان چلے جائیں تو بہتر ہے، غزہ فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریں گے، جنرل احمد شریف چوہدری
افغانستان میں ڈرون حملے پاکستان سے نہیں ہوتے نہ امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ ہے،،بھارت کو زمین، سمندر اور فضا میں جو کچھ کرنا ہے کرلے اس بار جواب زیادہ شدید ہوگا،سینئر صحافیوں کو بریفنگ

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی۔پاکستان اپنی سرحدوں، عوام کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے ۔27 ویں آ ئینی ترمیم کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے۔27 ویں آ ئینی ترمیم پر تجاویز مانگیں تو اپنی سفارشات دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں امن فوج کا حصہ بننے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہے، 2014 میں 38 ہزار مدارس تھے اب ایک لاکھ کے قریب مدارس بن چکے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔مدارس کی رجسٹریشن اب بھی ایک سوال ہے۔سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں۔منتخب سیاستدان ریاست بناتے ہیں اور اداروں کا کام ریاست کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی، جبکہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہم نے نہیں حکومت نے کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیراہ میں پوست کی فصل کو تلف کر رہے ہیں۔تیراہ اور کے پی میں خفیہ آپریشنز کامیابی سے جاری ہیں۔دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اس سال6200 انٹیلی جنس آپریشنز کئے گئے ۔آپریشنز کے دوران1667 دہشتگرد مارے گئے۔ جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکیورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206افغان طالبان اور 100 سے دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشنز زیادہ ہورہے ہیں اور کے پی میں دہشت گرد زیادہ مارے جارہے ہیں، یہ لوگ فوج کے خلاف کام کرتے ہیں اور عشر کے نام پر ٹیکس لیتے ہیں، یہ لوگ جسے عشر کہتے ہیں یہ بھتہ ہے، یہ بارڈر اوپن چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے حشیش لائی جاسکے، اس کا حصہ طالبان کو بھی جاتا ہے اور وارلارڈز کو بھی ملتا ہے، یہ آئس ہماری یونیورسٹیوں تک جارہی ہے ہماری نوجوان نسل کو خراب کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی عمائدین، دہشت گرد، جرائم پیشہ لوگ مل کر قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں، کئی بار فوج نے علاقہ کلیٔر کیا مگر سول انتظامیہ اور پولیس سیاسی دبا وکے سبب کام نہیں کرپا رہی، اسمگلرز دہشت گردوں سے مل کر کام کر رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں، افغانستان سے جڑے معاملات کا حل صرف وہ حکومت ہے جو عوام کی نمائندہ ہو، افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتی، دہشتگردی کا خاتمہ اہم ہے۔انہوں نے کہاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکیورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔دوحہ، استنبول مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان سے سرحد پار دہشتگردی کا خاتمہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پالیسی بنانے میں خودمختار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں منشیات اسمگلرز کی افغان سیاست میں مداخلت ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات پاکستان اسمگل کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو پاکستان کا رسپانس فوری اور موثر تھا، پاکستان کے رسپانس کے وہی نتائج نکلے جو ہم چاہتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمارے ہاں علما، میڈیا اور سیاست دانوں کو یک زبان ہونا ہوگا تب فیصلے کرسکیں گے۔افغان طالبان رجیم تبدیل کرنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت سمندر میں اور فالز فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، تاہم ہم نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت نے جو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا،میزائل تجربے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں ڈویلپمنٹ ہوتی رہتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • بیرونی مداخلت اور سازشوں کے خلاف ٹھوس موقف
  • وال چاکنگ پر اب دہشت گردی کے مقدمات درج ہوں گے
  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
  • افغانستان سے دراندازی ناکام، سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 3 خوارج ہلاک، افغان بارڈر فورس کا اہلکار بھی شامل
  • سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے، وزیر دفاع
  • سرحد پار دہشت گردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  •  بدقسمتی سے اسمبلی فورمز کو احتجاج کا گڑھ بنا دیا گیا : ملک محمد احمد خان