Express News:
2025-11-04@02:28:30 GMT

صدر مملکت کی صائب باتیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں حکومتی پالیسیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ گئی جب کہ دیگر معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو آیندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے، تنخواہ دار طبقے پرانکم ٹیکس کم کرنے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

 صدرآصف علی زرداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے آٹھویں بار خطاب کے ساتھ ہی ملک میں نئے پارلیمانی سال کا آغاز ہوگیا ہے، صدر مملکت نے حکومت کی معاشی کامیابیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

گو صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن اراکین نے شور شرابا کیا، یہ شور وہنگامہ ہماری پارلیمانی روایت کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے سیاسی استحکام اولین ضرورت ہے بلکہ ناگزیر ہے۔ اپوزیشن اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کرسکتی ہے اور یہ اس کا جمہوری حق ہے البتہ جمہوری نظام میں ہر حق کے ساتھ کچھ فرائض بھی ہوتے ہیں جن کی پاسداری تمام پارلیمنٹرینز کو کرنی چاہیے۔

پاکستان میں اشرافیہ کو جو سہولیات اور مراعات حاصل ہیں، اس کا حجم بہت زیادہ ہوچکا ہے ۔ سرکاری افسروں اور آئینی عہدیداروں اور ان کے اسٹاف افسران کی تنخواہوں سے زیادہ ان کی مراعات اور دیگر سہولتیں ہیں ، جن کا بجٹ کروڑوں روپے ماہانہ ہے۔

حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہ میں بھاری بھر کم اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے نتیجے میں تنخواہوں میں تقریباً 140 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس سے تو لگتا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف کوئی معاشی مسائل نہیں ہے بلکہ خزانہ لبا لب بھر چکا ہے۔ اس سے قبل پنجاب اسمبلی کے ارکان وزراء اور دیگر حکام کی مراعات بھی بڑھائی گئی ہیں۔ سندھ اور خیبر پختون خوا کے عوامی نمایندے بھی مراعات میں اضافے کے لیے دیگر صوبوں سے پیچھے نہیں ہیں۔

آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہوئے ہر مرتبہ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ ’’ یہ آخری پروگرام ہے‘‘ ایسے دعوؤں کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہوتی کہ ایک نیا پروگرام مانگ لیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے اس کی سخت شرائط بھی تسلیم کر لی جاتی ہیں۔ جن کا خمیازہ ملک کے عوام بھگتے ہیں۔ ایسی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں جن کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

 سرکاری اداروں اور پارلیمان کے بجٹ میں اس قدر بڑا اضافہ کفایت شعاری کے بلند و بانگ دعوؤں کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ معیشت مضبوطی کی طرف جا رہی ہے لیکن ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ اخراجات میں بے محابہ اضافہ کردیا جائے، اگر حکومت سمجھتی ہے کہ عوامی نمایندے واقعی ایسی مراعات کے حقدار ہیں تو عام آدمی کا کیا قصور ہے۔ اس کو بھی اسی طرح ریلیف دیا جائے، خاص طور پر سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات بھی اسی تناسب سے بڑھائی جائیں۔

کہنے کو توحکومت یہ دعوے کرتی ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح بہت کم ہو گئی ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح میں کمی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مہنگائی کم ہوگئی ہے ۔ زمینی حقائق کو دیکھیں تو مہنگائی بدستور موجودہے اور بہت زیادہ ہے۔ بجلی،گیس، پٹرول ہو یا ادویات، ان کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی ہے ۔ نجی تعلیمی اداروں کی فیسیوں اور دیگر اخراجات میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

ملک کی کثیر آبادی اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تنخواہ دار و دیہاڑی دار طبقہ اس ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔

اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکل سفید پوش طبقے کی ہے۔ مہنگائی کی شرح کے تناسب سے دیکھا جائے تو اگرکسی گھرانے کی آمدن 40 ہزار روپے تھی تو موجودہ مہنگائی کی وجہ سے اب اس کی آمدن کی قدر 20 ہزار رہ گئی ہے۔ حکومت اس مہنگائی کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اعلیٰ سطح پر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا درست پالیسی نہیںہے۔ مارکیٹ اور بازار میں نرخوں کے حوالے سے حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے،کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔

اسی طرح ٹیکس دہندگان کے ساتھ زیادتی یا سوتیلے پن کا سلوک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت ان لوگوں کی کم پرواہ رکھتی ہے جنھیں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور مہنگائی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔

نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو تنخواہیں بڑھنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی جب کہ انھیں اپنی تنخواہ سے معقول رقم ٹیکس کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑے گی جب کہ سرکاری ملازمین کو حاصل دیگر مراعات اس کے علاوہ شمار ہوتی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف آیندہ مالی سال 26-2025کے بجٹ کے لیے تجاویز دے گا۔ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف آئی ایم ایف کی رضا مندی سے مشروط ہوگا۔

 حکومت کی طرف سے بار بار معیشت کی مضبوطی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ مہنگائی کم ہوچکی ہے، مگرزمینی حقائق اس کے بالکل ہی برعکس ہیں۔ عام آدمی مہنگائی کی چکی میں بدستور پس رہا ہے۔2024کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات کم کرنے اور قومی بچت کے لیے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ جون 2024 میں آگئی تھی۔

کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں قلیل مدتی اور وسط مدتی سفارشات پیش کیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری اداروں میں سروسز کی فراہمی کے لیے نجی شعبے کی خدمات لی جائیں، حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے سرکاری اہلکاروں کے غیر ضروری سفر پر پابندی عائد کی جائے اور ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دیا جائے۔

رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ایسے سرکاری افسران جو مونوٹائیزنگ کی سہولت حاصل کررہے ہیں، ان سے سرکاری گاڑیاں فوری واپس لی جائیں۔ ان کمیٹیوں کی سفارشات پر عمل کر لیا جائے تو یہ معیشت کی مضبوطی کی طرف ایک اور قدم ہوگا، اور ہم خود انحصاری کی طرف آئیں گے تو پاکستان کو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا۔ مسلم لیگ نون پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے کرتی رہی ہے، حکومت ایک بار کڑوا گھونٹ پی لے۔ آئی ایم ایف کے رواں پروگرام کو واقعتاً آخری سمجھ لے۔

 پاکستان میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں مہنگی ترین بتائی جاتی ہے، ملک میں گزشتہ تین، چار برس سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مہنگی بجلی کی بدولت نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعت بھی پریشانی کا اظہا کر رہی ہے۔

حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ، بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسزکی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کیا جا رہا ہے۔

حکومت بجلی کی قیمت میں کمی لانے کے لیے ایک طرف تو آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کررہی ہے تو دوسری جانب بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز میں کمی لانے کے دعوے کر رہی ہے۔ وزارتِ توانائی کے مطابق آئی پی پیزکے ساتھ مشاورت کے بعد ملکی خزانے میں 1100 ارب روپے کی بچت کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات سے کچھ وقتی سہولت تو مل سکتی ہے تاہم یہ توانائی کے شعبے کے مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی زون پر تیزی سے کام مکمل کر کے بجلی کی اضافی ضرورت پیدا کرے تاکہ پیدا ہونے والی بجلی کو استعمال میں لایا جا سکے۔ جب تک حکومت توانائی کی قیمت کو کم نہیں کرتی ،اس کے معاشی اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔ بہرحال موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا اور خاصی محنت کے بعد حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں عوام کو اچھا ریلیف دیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کہ مہنگائی ا ئی ایم ایف صدر مملکت نہیں ہوئی دیا جائے بجلی کی کے ساتھ کی طرف رہی ہے گئی ہے کے لیے

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم کے باضابطہ ڈرافٹ پر اب تک کوئی کام شروع نہیں ہوا: وزیر مملکت برائے قانون

—فائل فوٹو

وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے باضابطہ ڈرافٹ پر اب تک کوئی کام شروع نہیں ہوا لیکن وقتاً فوقتاً اس پر بات چیت ضرور ہوتی رہتی ہے۔

جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر عقیل نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں ترمیم کا مقصد معرکہ حق اور آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی کے بعد آرمی چیف کو دیے گئے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئین میں شامل کرنا اور اسے تحفظ دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سمیت دیگر اہم مسائل سے متعلق آگہی کے لیے مرکزی تعلیمی نصاب ہونا ضروری ہے۔

وزیرِاعظم نے پیپلز پارٹی سے 27ویں ترمیم کی حمایت کی درخواست کی ہے: بلاول بھٹو زرداری

بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مسلم لیگ کے وفد نے وزیرِاعظم شہباز شریف کی سربراہی میں صدر آصف علی زرداری اور اِن سے ملاقات کی ہے۔

بیرسٹر عقیل کا کہنا ہے کہ آئینی عدالتوں کا قیام 26ویں ترمیم کا بھی حصہ تھا اب بھی اس پر بات ہوئی ہے، آبادی پر کنٹرول کے لیے بھی مرکزی سوچ کا ہونا بہت اہم ہے۔

واضح رہے کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی سے 27ویں ترمیم کی حمایت کی درخواست کی ہے، ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس اور ججز کے تبادلے شامل ہیں۔

سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے وفد نے وزیرِاعظم شہباز شریف کی سربراہی میں صدر آصف علی زرداری اور اِن سے ملاقات کی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ این ایف سی میں صوبائی حصے کا تحفظ ختم کرنا بھی ترمیم میں شامل ہے۔ تجاویز میں آرٹیکل 243 میں ترمیم، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی وفاق میں واپسی بھی ترمیم میں شامل ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • حکومت اب بجلی نہیں خریدے گی ،وزیر توانائی اویس لغاری
  • آئی ایم ایف بھی مان گیا کہ پاکستان میں معاشی استحکام آ گیا ہے، وزیرخزانہ
  • 27ویں آئینی ترمیم کے باضابطہ ڈرافٹ پر اب تک کوئی کام شروع نہیں ہوا: وزیر مملکت برائے قانون
  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • حکومت بجلی، گیس و توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال
  • بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے کوشاں، ہمیں مل کر ٹیکس چوری کے خلاف لڑنا ہوگا، احسن اقبال
  • ٹماٹر کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں 
  • پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا