Express News:
2025-06-09@12:42:11 GMT

صدر مملکت کی صائب باتیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں حکومتی پالیسیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ گئی جب کہ دیگر معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو آیندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے، تنخواہ دار طبقے پرانکم ٹیکس کم کرنے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

 صدرآصف علی زرداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے آٹھویں بار خطاب کے ساتھ ہی ملک میں نئے پارلیمانی سال کا آغاز ہوگیا ہے، صدر مملکت نے حکومت کی معاشی کامیابیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

گو صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن اراکین نے شور شرابا کیا، یہ شور وہنگامہ ہماری پارلیمانی روایت کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے سیاسی استحکام اولین ضرورت ہے بلکہ ناگزیر ہے۔ اپوزیشن اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کرسکتی ہے اور یہ اس کا جمہوری حق ہے البتہ جمہوری نظام میں ہر حق کے ساتھ کچھ فرائض بھی ہوتے ہیں جن کی پاسداری تمام پارلیمنٹرینز کو کرنی چاہیے۔

پاکستان میں اشرافیہ کو جو سہولیات اور مراعات حاصل ہیں، اس کا حجم بہت زیادہ ہوچکا ہے ۔ سرکاری افسروں اور آئینی عہدیداروں اور ان کے اسٹاف افسران کی تنخواہوں سے زیادہ ان کی مراعات اور دیگر سہولتیں ہیں ، جن کا بجٹ کروڑوں روپے ماہانہ ہے۔

حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہ میں بھاری بھر کم اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے نتیجے میں تنخواہوں میں تقریباً 140 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس سے تو لگتا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف کوئی معاشی مسائل نہیں ہے بلکہ خزانہ لبا لب بھر چکا ہے۔ اس سے قبل پنجاب اسمبلی کے ارکان وزراء اور دیگر حکام کی مراعات بھی بڑھائی گئی ہیں۔ سندھ اور خیبر پختون خوا کے عوامی نمایندے بھی مراعات میں اضافے کے لیے دیگر صوبوں سے پیچھے نہیں ہیں۔

آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہوئے ہر مرتبہ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ ’’ یہ آخری پروگرام ہے‘‘ ایسے دعوؤں کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہوتی کہ ایک نیا پروگرام مانگ لیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے اس کی سخت شرائط بھی تسلیم کر لی جاتی ہیں۔ جن کا خمیازہ ملک کے عوام بھگتے ہیں۔ ایسی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں جن کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

 سرکاری اداروں اور پارلیمان کے بجٹ میں اس قدر بڑا اضافہ کفایت شعاری کے بلند و بانگ دعوؤں کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ معیشت مضبوطی کی طرف جا رہی ہے لیکن ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ اخراجات میں بے محابہ اضافہ کردیا جائے، اگر حکومت سمجھتی ہے کہ عوامی نمایندے واقعی ایسی مراعات کے حقدار ہیں تو عام آدمی کا کیا قصور ہے۔ اس کو بھی اسی طرح ریلیف دیا جائے، خاص طور پر سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات بھی اسی تناسب سے بڑھائی جائیں۔

کہنے کو توحکومت یہ دعوے کرتی ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح بہت کم ہو گئی ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح میں کمی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مہنگائی کم ہوگئی ہے ۔ زمینی حقائق کو دیکھیں تو مہنگائی بدستور موجودہے اور بہت زیادہ ہے۔ بجلی،گیس، پٹرول ہو یا ادویات، ان کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی ہے ۔ نجی تعلیمی اداروں کی فیسیوں اور دیگر اخراجات میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

ملک کی کثیر آبادی اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تنخواہ دار و دیہاڑی دار طبقہ اس ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔

اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکل سفید پوش طبقے کی ہے۔ مہنگائی کی شرح کے تناسب سے دیکھا جائے تو اگرکسی گھرانے کی آمدن 40 ہزار روپے تھی تو موجودہ مہنگائی کی وجہ سے اب اس کی آمدن کی قدر 20 ہزار رہ گئی ہے۔ حکومت اس مہنگائی کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اعلیٰ سطح پر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا درست پالیسی نہیںہے۔ مارکیٹ اور بازار میں نرخوں کے حوالے سے حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے،کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔

اسی طرح ٹیکس دہندگان کے ساتھ زیادتی یا سوتیلے پن کا سلوک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت ان لوگوں کی کم پرواہ رکھتی ہے جنھیں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور مہنگائی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔

نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو تنخواہیں بڑھنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی جب کہ انھیں اپنی تنخواہ سے معقول رقم ٹیکس کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑے گی جب کہ سرکاری ملازمین کو حاصل دیگر مراعات اس کے علاوہ شمار ہوتی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف آیندہ مالی سال 26-2025کے بجٹ کے لیے تجاویز دے گا۔ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف آئی ایم ایف کی رضا مندی سے مشروط ہوگا۔

 حکومت کی طرف سے بار بار معیشت کی مضبوطی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ مہنگائی کم ہوچکی ہے، مگرزمینی حقائق اس کے بالکل ہی برعکس ہیں۔ عام آدمی مہنگائی کی چکی میں بدستور پس رہا ہے۔2024کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات کم کرنے اور قومی بچت کے لیے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ جون 2024 میں آگئی تھی۔

کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں قلیل مدتی اور وسط مدتی سفارشات پیش کیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری اداروں میں سروسز کی فراہمی کے لیے نجی شعبے کی خدمات لی جائیں، حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے سرکاری اہلکاروں کے غیر ضروری سفر پر پابندی عائد کی جائے اور ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دیا جائے۔

رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ایسے سرکاری افسران جو مونوٹائیزنگ کی سہولت حاصل کررہے ہیں، ان سے سرکاری گاڑیاں فوری واپس لی جائیں۔ ان کمیٹیوں کی سفارشات پر عمل کر لیا جائے تو یہ معیشت کی مضبوطی کی طرف ایک اور قدم ہوگا، اور ہم خود انحصاری کی طرف آئیں گے تو پاکستان کو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا۔ مسلم لیگ نون پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے کرتی رہی ہے، حکومت ایک بار کڑوا گھونٹ پی لے۔ آئی ایم ایف کے رواں پروگرام کو واقعتاً آخری سمجھ لے۔

 پاکستان میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں مہنگی ترین بتائی جاتی ہے، ملک میں گزشتہ تین، چار برس سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مہنگی بجلی کی بدولت نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعت بھی پریشانی کا اظہا کر رہی ہے۔

حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ، بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسزکی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کیا جا رہا ہے۔

حکومت بجلی کی قیمت میں کمی لانے کے لیے ایک طرف تو آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کررہی ہے تو دوسری جانب بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز میں کمی لانے کے دعوے کر رہی ہے۔ وزارتِ توانائی کے مطابق آئی پی پیزکے ساتھ مشاورت کے بعد ملکی خزانے میں 1100 ارب روپے کی بچت کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات سے کچھ وقتی سہولت تو مل سکتی ہے تاہم یہ توانائی کے شعبے کے مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی زون پر تیزی سے کام مکمل کر کے بجلی کی اضافی ضرورت پیدا کرے تاکہ پیدا ہونے والی بجلی کو استعمال میں لایا جا سکے۔ جب تک حکومت توانائی کی قیمت کو کم نہیں کرتی ،اس کے معاشی اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔ بہرحال موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا اور خاصی محنت کے بعد حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں عوام کو اچھا ریلیف دیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کہ مہنگائی ا ئی ایم ایف صدر مملکت نہیں ہوئی دیا جائے بجلی کی کے ساتھ کی طرف رہی ہے گئی ہے کے لیے

پڑھیں:

مہنگائی تھمی نہیں؛ اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام سال بھر پریشان رہے

اسلام آباد:

ملک میں مہنگائی تھمنے کا نام نہیں لے رہی جب کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کو سال بھر ذہنی کرب سے دوچار رکھا۔

وفاقی ادارہ شماریات نے ایک سال کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں رد و بدل پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق روزمرہ استعمال کی کئی اشیا مہنگی ہوئی ہیں جب کہ چند اشیا کی قیمتوں میں کمی بھی دیکھی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جہاں آٹا، پیاز اور ٹماٹر کی قیمتیں نیچے آئی ہیں، وہیں چکن، گوشت، چینی، انڈے اور گھی سمیت کئی ضروری اشیا مہنگی ہو گئی ہیں، جس سے عام شہریوں پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔

اعدادوشمار میں بتایا گیاہ ے کہ گزشتہ ایک سال میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 1907 روپے سے کم ہو کر 1509 روپے کا ہو گیا، یعنی 400 روپے کی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔

اسی طرح پیاز کی قیمت 113.91 روپے سے گھٹ کر 45.51 روپے فی کلو، ٹماٹر 67.68 سے کم ہو کر 49 روپے اور آلو 87.85 سے کم ہو کر 62.85 روپے فی کلو ہو گئے ہیں۔ علاوہ ازیں دال ماش بھی 548 روپے سے کم ہو کر 457.78 روپے فی کلو ہو گئی۔

دوسری جانب بنیادی غذائی اشیا کی بڑی فہرست مسلسل مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔

چینی کی قیمت 143.78 روپے سے بڑھ کر 174.19 روپے فی کلو ہو گئی۔ اسی طرح چکن 347 روپے سے بڑھ کر 456.48 روپے، بڑا گوشت 933.39 سے 1105 روپے جب کہ چھوٹا گوشت 1877 سے بڑھ کر 2026 روپے فی کلو ہو گیا۔

علاوہ ازیں دودھ 187.15 سے بڑھ کر 198.39 روپے، دہی 219.26 سے بڑھ کر 231.51 روپے اور فارمی انڈے 252.43 سے بڑھ کر 295.78 روپے فی درجن ہو گئے۔

سرسوں کا تیل بھی 495.45 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 527.64 روپے اور گھی 503.29 روپے سے بڑھ کر 568.40 روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے۔

اس کے علاوہ دالوں کی قیمتوں میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا، جہاں دال مونگ 308.75 سے بڑھ کر 400.82 روپے اور دال چنا 260 سے بڑھ کر 314.58 روپے فی کلو ہو گئی۔ اسی طرح دال مسور 320.94 سے کم ہو کر 293.52 روپے اور دال ماش میں بھی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔

قیمتوں میں اضافے کو مزید دیکھا جائے تو کیلے کی فی درجن قیمت بھی 146.63 روپے سے بڑھ کر 176.55 روپے ہو چکی ہے، جس سے پھلوں کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔

عوام کا کہنا ہے کہ اگرچہ آٹے اور سبزیوں کی قیمتوں میں کمی خوش آئند ہے، مگر دیگر ضروری اشیا کی مہنگائی نے ان کے بجٹ کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت کو موثر اور پائیدار معاشی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مہنگائی پر قابو پا لیا، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کردیا
  • حکومت نے اقتصادی سروے 2025-26 جاری کردیا، جی ڈی پی میں اضافہ ریکارڈ
  • ایک گھر میں بجلی کے 2 میٹرز پر پابندی کی خبر دیکھ سعد رفیق بھی پریشان، حکومت کو اہم مشورے دے دیئے
  • ایک گھر میں بجلی کے 2 میٹرز پر پابندی کی خبر دیکھ سعد رفیق بھی پریشان، حکومت کو اہم مشورے دے دیے
  • مہنگائی تھمی نہیں؛ اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام سال بھر پریشان رہے
  • نوجوان کی چیٹ جی پی ٹی سے دن رات پیار و محبت کی باتیں؛ ویڈیو وائرل
  • معیشت کی بہتری، مہنگائی پرقابو پانے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی
  • وفاقی حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کردیا
  • کراچی، عیدالاضحیٰ پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ
  • کراچی؛ عید پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، متعدد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ