نیشنل ٹی20 کپ؛ ایک اور قومی کرکٹر دستبردار! پھر کھیلے گا کون؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)قومی ٹیم کے فاسٹ بولر نسیم شاہ کا بھی 14 مارچ سے شروع ہونیوالے نیشنل ٹی20 کپ سے دستبردار ہونے کا امکان ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کپتان محمد رضوان اور مڈل آرڈر بیٹر بابراعظم کے ٹورنامنٹ سے دستبردار ہونے کے بعد فاسٹ بولر نسیم شاہ کی بھی ایونٹ میں شرکت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
قبل ازیں اسکواڈز کے اعلان میں فاسٹ بولر کا نام بھی شامل تھا تاہم انہوں نے اچانک ٹورنامنٹ کھیلنے سے انکار کردیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بابراعظم اور نسیم شاہ دونوں ہی نیوزی لیںڈ کیخلاف اعلان کردہ ٹی20 اسکواڈ میں شامل نہیں ہیں تاہم دونوں کرکٹر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں حصہ لیں گے۔
بابر نے گزشتہ سال ٹی20 میں پاکستان کیلئے سب سے زیادہ رنز اسکور کیے تھے تاہم انکا اسٹرائیک ریٹ شدید تشویش کا باعث رہا تھا، جس کے باعث انہیں ٹی20 اسکواڈ سے ڈراپ کیا گیا۔دوسری جانب کپتان محمد رضوان کا بھی نیشنل ٹی20 کپ میں کھیلنے کا امکان نہیں ہے، وہ بھی ٹورنامنٹ سے دستبردار ہوچکے ہیں۔
ملک میں سیمنٹ کی ریٹیل قیمت میں کمی کا رجحان برقرار
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
اے جی پی کا یو ٹرن، 3.75؍ ٹریلین کی بےضابطگیوں کی رپورٹ سے دستبردار
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) بالآخر اپنی اُس رپورٹ سے دستبردار ہوگیا ہے جس میں وفاقی کھاتوں میں 375؍ ٹریلین روپے کی بے ضابطگیوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ یہ رقم پاکستان کے سالانہ بجٹ سے 27؍ گنا زیادہ تھی۔ اب اے جی پی نے ایک ترمیم شدہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ پہلے ایڈیشن میں ’’ٹائپنگ کی غلطیاں‘‘ تھیں جن کی وجہ سے اعدادوشمار غیر معمولی طور پر بڑھ گئے تھے۔ نئی رپورٹ ’’Consolidated Audit Report of Federal Government for the Audit Year 2024-25‘‘ چند روز قبل محکمہ آڈیٹر جنرل کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی ہے۔ ترمیم شدہ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اصل ورژن کی ایگزیکٹو سمری میں چند غلطیاں تھیں۔ دو مقامات پر بلین کی بجائے ٹریلین لکھ دیا گیا تھا۔ درستگی کے بعد اصل رقم 9.769؍ ٹریلین روپے ہے۔ اے جی پی آفس نے مزید تصدیق کی کہ وفاقی آڈٹ کے اس عمل پر 3.02؍ بلین روپے کے اخراجات ہوئے۔ ترمیم شدہ رپورٹ میں واضح طور پر نشاندہی کی گئی بے ضابطگیاں کئی برسوں پر محیط ہیں اور اس میں بجٹ سے باہر کی مدات جیسے گردشی قرضے، زمین کے تنازعات، اور کارپوریشنز و کمپنیوں کے اکائونٹس کے معاملات بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بے ضابطگیوں کی یہ نوعیت گزشتہ آڈٹ رپورٹس کے رجحانات کے مطابق ہے۔ یہ تصدیق روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ کی خبر کو درست ثابت کرتی ہے، جس میں اے جی پی تردید کے باوجود کئی ہفتے قبل خبر دی تھی کہ 375؍ ٹریلین روپے کا ہندسہ معاشی منطق اور مالی حقیقت کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ اصل رپورٹ، جو اگست میں اپ لوڈ کی گئی تھی، میں خریداری سے متعلق بے ضابطگیوں کو 284؍ ٹریلین، سول ورکس کی خراب یا تاخیر شدہ منصوبہ بندی کو 85.6؍ ٹریلین، واجبات کو 2.5؍ ٹریلین، جبکہ گردشی قرضہ کو 1.2؍ ٹریلین روپے دکھایا گیا تھا۔ اس ورژن کے مطابق پاکستان کی مالی بے ضابطگیاں ملک کی کل GDP (تقریباً ایک سو 10؍ ٹریلین روپے) سے تین گنا اور مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ (14.5؍ ٹریلین روپے) سے 27؍ گنا زیادہ تھیں۔ اعداد بالکل میل نہیں کھا رہے تھے اور حکومت کے اندرونی حلقے بھی حیران رہ گئے تھے کہ آیا اے جی پی آفس نے غلطی سے اعداد کو ضرب دے دیا، کئی برسوں کا ڈیٹا جمع کر دیا، یا پھر مصدقہ انداز سے نگرانی ہی نہیں کی گئی۔ ابتدا میں جب رابطہ کیا گیا تو اے جی پی آفس نے رپورٹ کا دفاع کیا اور کہا کہ بے ضابطگیاں بجٹ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں۔ اے جی پی آفس کے ایک ماہر کی جانب سے شیئر کیے گئے وائس نوٹ کو سننے سے پتہ چلتا ہے کہ اے جی پی آفس ان غیر معمولی اعداد سے بے پروا دکھائی دیا۔ بعد میں اے جی پی آفس نے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی جس میں کہا گیا کہ اصل رپورٹ کے اعداد درست ہیں۔ اب درستگی کے بعد اے جی پی آفس نے تسلیم کیا ہے سابقہ اعداد و شمار ٹائپنگ کی غلطیوں (Typos) کی وجہ سے بڑھ گئے تھے۔ ترمیم شدہ رقم 9.769؍ ٹریلین روپے اگرچہ کم ہے لیکن پھر بھی بہت زیادہ ہے؛ یہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ کا تقریباً دو تہائی بنتی ہے۔ رپورٹ اب صدر مملکت کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق اے جی پی آفس کی جانب سے 9.769؍ ٹریلین روپے کے ’’دھماکے‘‘ سے پیچھے ہٹنے کا عمل اگرچہ ایک بڑی غلطی کو سدھارنے کی کوشش ہے لیکن اس اقدام نے آڈٹ کے اعلیٰ ترین ادارے کی ساکھ اور پاکستان کے مالیاتی نظام کی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
انصار عباسی