الھول کیمپ صیہونیوں اور داعشیوں کی آماجگاہ ہے، عراقی پارلیمنٹ
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں حسین علی مردان کا کہنا تھا کہ اس کیمپ کا مزید قیام مجموعی طور پر خطے اور عراق کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عراقی پارلیمنٹ میں ہیومن رائٹس کمیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر "حسین علی مردان" نے کہا کہ شام میں الھول کیمپ کی حیثیت داعش دہشت گردوں کی پیدائش کی سی ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار المعلومہ ویب نیوز کے ساتھ گفتگو میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ الھول کیمپ صیہونیوں اور داعشیوں کی پناہ گاہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بعض ممالک اس خطرے کو پڑوسیوں کے لئے غلط استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ حسن علی مردان نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق اس کیمپ میں 60 سے زائد اقوام کے 3 لاکھ افراد زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سبھی داعش سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کیمپ کا مزید قیام مجموعی طور پر خطے اور عراق کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔
حسین علی مردان نے کہا کہ الھول کیمپ میں رہنے والے تمام افراد نظریاتی لحاظ سے داعش کے پرچم تلے ہیں۔ انتہاء پسندانہ نظریات کی موجودگی اور اس کے کچھ حصوں پر دہشت گرد گروہوں کے تسلط کی وجہ سے الھول کیمپ کو ایک ٹائم بم کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ یہ کیمپ امریکہ کے زیر اثر کُرد ملیشیاء "قسد" کی نگرانی میں ہے۔ قسد یا سیرین ڈیموکریٹک فورس کو بلا فاصلہ واشنگٹن کی حمایت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ عراقی حکام متعدد بار مختلف ممالک سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو الھول کیمپ سے نکالیں اور انہیں واپس اپنے اپنے وطن لے جائیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علی مردان نے کہا کہ
پڑھیں:
آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔
حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔
انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔
عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔