حشد الشعبی عراق کی سلامتی کی ضامن ہیں، عراقی سیاستدان
اشاعت کی تاریخ: 16th, September 2025 GMT
پارلیمنٹ میں کوآرڈینیشن فریم ورک اتحاد کے نمائندے مختار الموسوی نے کہا ہے کہ حشد الشعبی ملک کے استحکام کے تحفظ کے لیے ایک اہم سیکورٹی ستون ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ عراقی پارلیمنٹ کے ایک نمائندے نے ملک میں حشد الشعبی کے اہم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فورسز ملک کی سلامتی کا ستون ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ میں کوآرڈینیشن فریم ورک اتحاد کے نمائندے مختار الموسوی نے کہا ہے کہ حشد الشعبی ملک کے استحکام کے تحفظ کے لیے ایک اہم سیکورٹی ستون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فورسز عراق کے اندر پائیدار سلامتی کی ضامن ہیں، وزارت داخلہ اور دفاع ان کے تعاون کے بغیر کام نہیں کر سکتے، حشد الشعبی نے خطے میں فوجی مساوات کو کامیابی سے تبدیل کیا اور داعش کے منصوبوں کو ناکام بنایا، ان قربانیوں کی روشنی میں تنظیم کے قانون کو پارلیمنٹ میں منظور کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ حشد الشعبی ملک کی مسلح افواج کا حصہ ہیں، جو 2014 میں آیت اللہ سیستانی کے فتوے کے ساتھ داعش کیخلاف لڑنے کے لیے منظم کی گئی تھیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حشد الشعبی
پڑھیں:
حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت پر پابندی، کشمیری سیاستدان برہم
محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی کئی سیاسی لیڈروں نے انہیں خانہ نظربند کر کے آزادی پسند لیڈر اور حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت سے روکنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انتظامیہ کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ "جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت" کو عیاں کرتا ہے۔ انہوں نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ صرف اس لئے گھروں میں نظر بند کیا گیا کہ ہم سوپور جا کر پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر تعزیت نہ کر سکیں۔ محبوبہ مفتی نے بی جے پی پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ دکھ اور بے چینی کو سیاسی مفاد کے لئے ہتھیار بنا رہی ہے۔
پروفیسر بٹ کے قدیم ساتھی اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے بھی الزام عائد کیا کہ انہیں سوپور جانے سے روکنے کے لیے گھر میں نظر بند کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا اس کی کوئی ضرورت تھی، پروفیسر صاحب ایک پُرامن شخصیت کے مالک تھے اور برسوں سے عملی سیاست سے الگ ہو چکے تھے، ان کو آخری الوداع کہنا سب کا حق تھا۔ ادھر میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق، جو ان کے دیرینہ ساتھی رہے ہیں، نے الزام عائد کیا کہ حکام نے جنازہ جلد بازی میں کرایا اور انہیں بٹ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ناقابلِ بیان دکھ ہے کہ حکام نے پروفیسر صاحب کے جنازے کو عجلت میں نمٹا دیا۔ انہون نے کہا "مجھے گھر میں بند رکھا گیا اور آخری سفر میں شریک ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا، ان کے ساتھ میری رفاقت اور رہنمائی کا رشتہ 35 سال پر محیط تھا، اتنے لوگوں نے ان کا آخری دیدار کرنے کی خواہش کی تھی، مگر ہمیں اس حق سے بھی محروم رکھنا ظلم ہے"۔