پاکستان اور افغانستان کا جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان نے ترکیہ میں ہونے والے امن مذاکرات کے بعد جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
ترکیہ کی وزارتِ خارجہ کے مطابق دونوں ممالک 6 نومبر کو استنبول میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جنگ بندی کے نفاذ کے طریقہ کار کو حتمی شکل دیں گے۔
جنگ بندی کی نگرانی کا نظام قائم کیا جائے گاترکیہ، قطر، پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام فریقین ایک نگرانی اور ویری فکیشن نظام قائم کرنے پر متفق ہو گئے ہیں، جو جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے گا۔
یہ بھی پڑھیے افغانستان سے جو بات ہوگی تحریری ہوگی اور ترکیہ اور سعودی عرب کی گواہی میں ہوگی، وزیر دفاع خواجہ آصف
یہ مذاکرات ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں اس وقت دوبارہ شروع ہوئے جب رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں فوجی اور عام شہری جاں بحق ہوئے تھے۔
سرحدی جھڑپوں کے باوجود امن کی کوششیں جاریپچھلے ہفتے مذاکرات کے تعطل کے باوجود جنگ بندی بڑی حد تک برقرار رہی اور اس دوران کوئی نیا تصادم رپورٹ نہیں ہوا۔ تاہم، دونوں ممالک نے تاحال سرحدی گزرگاہیں بند رکھی ہیں، جس کے باعث سینکڑوں ٹرک اور پناہ گزین دونوں اطراف پھنسے ہوئے ہیں۔
قطر اور ترکیہ کی درخواست پر پاکستان نے مذاکرات بڑھائےپاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں بتایا کہ قطر اور ترکیہ کی درخواست پر پاکستان نے مذاکرات کا دور بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی۔ پاکستانی وفد جسے بدھ کی رات واپس آنا تھا، اسے استنبول ہی میں رکنے کو کہا گیا۔
پاکستانی سرکاری ٹی وی کے مطابق، مذاکرات میں پاکستان کا مرکزی مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے اور اس سلسلے میں قابلِ تصدیق اقدامات کرے۔
افغان سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو، پاکستان کا مؤقفاسلام آباد میں 2 سینیئر سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ پاکستان نے افغان حکام پر زور دیا ہے کہ ان کی زمین پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ثالث ممالک کے تعمیری کردار کو سراہتا ہے اور امن کے قیام کے لیے نیک نیتی سے کوشاں ہے۔
حالیہ جھڑپوں کا پس منظراکتوبر کے اوائل میں کابل میں دھماکوں کے بعد افغانستان نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے افغان دارالحکومت اور مشرقی علاقوں پر فضائی حملے کیے۔
افغان حکام کے مطابق، 12 اکتوبر کو انہوں نے جوابی کارروائی میں پاکستانی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنایا، جس میں 58 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے۔ تاہم، پاکستان کی فوج نے ان اعداد و شمار کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 23 فوجی جاں بحق ہوئے اور کارروائی افغان سرزمین پر موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کی گئی تھی۔
قطر کی ہنگامی سفارت کاری سے جنگ بندی ممکن ہوئیان جھڑپوں کے بعد قطر نے ہنگامی مذاکرات کی میزبانی کی، جس کے نتیجے میں 19 اکتوبر کو جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ اس کے بعد استنبول میں 4 روزہ مذاکرات ہوئے جو ابتدا میں ناکام رہے، تاہم ترکیہ اور قطر کی کوششوں سے فریقین دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئے۔
امن چاہتے ہیں مگر دہشتگردی برداشت نہیں ہوگی، پاکستانی آرمی چیف کا بیانپاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پشاور میں قبائلی عمائدین سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایوں سے امن چاہتا ہے، تاہم افغان سرزمین سے دہشتگردی برداشت نہیں کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کی اندرونی دھڑے بندیوں نے استنبول مذاکرات کو کیسے سبوتاژ کیا؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں صبر و تحمل اور خیرسگالی کے مظاہرے کیے، مگر افغان طالبان حکومت نے اس کے بجائے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کی حمایت کی۔
پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہپاکستان میں حالیہ مہینوں میں دہشتگرد حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جن کی زیادہ تر ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) نے قبول کی ہے۔ ان کے متعدد رہنما اور جنگجو 2021 میں طالبان کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
فوج کے مطابق، جمعرات کے روز بلوچستان میں 2 کارروائیوں میں 18 دہشتگرد مارے گئے، جبکہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں 4 ٹی ٹی پی جنگجو، جن میں ایک اہم کمانڈر شامل تھا، ہلاک کیے گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان نے کہ پاکستان کے مطابق کہا کہ کے بعد کے لیے
پڑھیں:
پاکستان: افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی تسلیم کر لی
پاکستان نے بتایا ہے کہ افغان طالبان حکومت نے حالیہ مذاکرات کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی تسلیم کی ہے، تاہم افغان حکام نے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ مذاکرات حساس نوعیت کے حامل ہیں اور ہر لمحے پر تفصیلی تبصرہ ممکن نہیں، وزارت خارجہ نے احتیاط برتنے کا حق استعمال کیا۔
 ترجمان کے مطابق استنبول مذاکرات میں تمام متعلقہ اداروں کے نمائندے شامل تھے اور تمام اہم امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اگلے دورِ مذاکرات، جو 6 نومبر کو ہوگا، میں اس عمل کی جامع تفصیلات سامنے آئیں گی۔ مذاکرات نہایت حساس اور پیچیدہ ہیں جن میں صبر اور بردباری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سفارت کاری میں امید برقرار رکھنا ضروری ہے اور میزبان ملک کا بیان محض مذاکرات کا تعارفی نوٹ تھا، جبکہ تحریری یقین دہانیاں مذاکرات کے مستقل عمل کا حصہ ہیں۔
 ترجمان نے واضح کیا کہ وزارت خارجہ کے قواعد کے مطابق جنگ یا امن کا اعلان وزیراعظم کی صوابدید پر ہوتا ہے، وزیراعظم کو فیصلوں کے لیے وزارت خارجہ سے مشاورت اور سفارشات فراہم کی جاتی ہیں، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور سیکرٹری خارجہ بھی مذاکرات میں فعال کردار ادا کرتے رہے، لہٰذا حکومت میں کسی قسم کے اختلاف یا تقسیم کا تاثر درست نہیں ہے۔
 سرحد کی بندش کے فیصلے کے بارے میں ترجمان نے کہا کہ یہ سکیورٹی صورتحال کے جائزے پر مبنی ہے اور مزید اطلاع تک یہ فیصلہ برقرار رہے گا۔ افغان طالبان حکومت کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد عناصر کی موجودگی پاکستان کے سکیورٹی خدشات کو تقویت دیتی ہے۔
 ترجمان نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات میں اعلیٰ سطح کی نمائندگی متوقع ہے اور فی الحال وفد کی قیادت کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ سیزفائر برقرار ہے اور افغانستان کی جانب سے دی گئی یقین دہانیوں کا نوٹس لیا گیا ہے، امید ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد ہوگا۔
 گزشتہ روز پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا، جبکہ اس کے نفاذ کے طریقہ کار پر چھ نومبر کو استنبول میں اعلیٰ سطح ملاقات ہوگی۔ استنبول میں مذاکرات کے بعد ترکی کی وزارت خارجہ نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں فریقین نے نگرانی اور تصدیقی نظام قائم کرنے اور امن کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر سزا لاگو کرنے پر اتفاق کیا۔ مذاکرات 25 تا 30 اکتوبر تک ترکی اور قطر کی ثالثی میں ہوئے، اور دونوں ممالک نے دیرپا امن و استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
 ظہران ممدانی: نیویارک کے متوقع میئر
ظہران ممدانی: نیویارک کے متوقع میئر