data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251026-03-6
باباالف
گرنے کی آواز نے اُسے چو نکا دیا۔ وہ ایک چٹان سے نیچے اُتر رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک تاریک غار اور کالا پانی تھا۔ اس سیاہی میں چمکتے سرخ پتھر تھے اور چاروں طرف گونجتی ہوئی چیخیں اور سسکیوں کی آوازیں۔ انسانیت کی چیخوں اور سسکیوں کی آوازیں۔ کٹے ہوئے انسانی سر کالے پانی کی سطح پر تیررہے تھے۔ ایک کالا بھنورا ان کے اوپر بھن بھن کررہا تھا۔ ہزاروں سانپوں نے غار کے منہ کو ڈھانپا ہوا تھا جن سے سرخ روشنی گزر کر غار کے اندر داخل ہورہی تھی اور اُبلتے ہوئے خون کے چشموں پر پڑرہی تھی جو غار کے اندر جابجا اُبل رہے تھے۔ شک کے زخم اور سسٹم کا پاگل پن خون کے ان چشموں کو کبھی سوکھنے نہیں دیتا تھا۔ لوہا، ہتھیار، آگ، خون، موت اور جنگیں یہی اس نظام کی ’’بصیرت‘‘ اور ’’علا متیں‘‘ تھیں۔ وہ جلیل بہرام کو اس غار میں قید کرنا چاہتے تھے۔
زہریلے خیالات اور بد ارادے اس غار میں بے سمت پھیلے ہوئے تھے۔ بد ہیئت بت گری کی طرح مگر خود کو کارفرما اور کار آفرین، موثر اور خالق وبانی سمجھتے ہوئے۔ سرمائے کے پاگل پن، جمہوریت کے بیمار وہم، امراض کی سڑاند، ہر سطح پر تقسیم در تقسیم، گناہ کے دوران خون اور جنسی اعضا کے تحرک اور لمس کی لذتوں کی قیامت صغریٰ اس مہیب غار میں لمبی لمبی تھکی تھکی سانسیں لے رہی تھیں۔ قیامت اور تباہی اس غار کے باہر نہیں اندر بھی ہورہی تھی۔ غار پر حکمران جھوٹے خدائوں کے بجائے وہ اپنے آپ کو مار رہے تھے، اپنے آپ کو قتل کررہے تھے، پکڑ رہے تھے، گھروں سے اٹھا رہے تھے اور نئے نظام اور جدید زندگی کے اس منبع میں، اس غار میں قید کررہے تھے۔
یہاں روح کی غربت اپنے دھیان میں خاموش پڑی تھی۔ غارنما ریاست میں ہر طرف جسموں کی، مادے کی، سرمائے کی، شیطانی بھڑک کے پاگل پن کی حکومت تھی۔ نیا سورج، نیا شعور، نئے جذبات، نئی طاقت، نئے زہریلے خیالات، روشنی اور تاریکی کی کشمکش۔ جہاں واقعات کا خود کوئی مطلب نہیں تھا بلکہ مطلب دیا جاتا تھا، سیاست کے ذریعے، طاقت کے ذریعے، جھوٹ کے ذریعے، میڈیا کے ذریعے، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے۔ کوئی اس غار میں رہنا نہیں چاہتا۔ سب اس غار کو مسمار کرنا چاہتے ہیں۔ اس غار کے خدائوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں جو ہر سمت ان کا خون بہا رہے ہیں مگر تا حال ہر دخل اندازی سے دور تھے۔ جلیل بہرام کے پاس حکمت اور آئیڈیالوجی کے وہ تیر تھے جو ان خدائوں کو مار سکتے تھے۔ اس لیے تازہ خدائوں نے اسے گھر سے اٹھا لیا تھا اور قید کرنے کے لیے اس غار میں لارہے تھے۔
جلیل بہرام کا جرم یہ تھا کہ وہ غار کے خوف اور شک کے مقابل آگیا تھا اور اب ریاست کا سامنا کررہا تھا۔ نیکی اور عقل کی بات اس کی زندگی کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روک رہی تھی بلکہ اب منجمد کرنے کے درپے تھی۔ وہ غار کے سسٹم کی ناگواریت کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھا۔ وہ اسے مسترد کرتے ہوئے اپنی روح اور عقائد کے مطابق جینا چاہتا تھا۔ جو کچھ ریاست اور حکام کو ناگوارتھا وہ اس کا دین تھا۔ اس کی روح اور اس کا نفس اسے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نہ عبادات تک محدود رکھتا تھا اور نہ ویران اور بنجر صحرائوں اور وادیوں اور جنگلوں میں گوشہ نشین بناتا تھا۔ بصیرت حاصل کرنے کے لیے اسے ان جگہوں پر جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کلام الٰہی ہی اس کی بصیرت کا ماخذ تھا۔ جس کے الفاظ اور پیغام اور ان پر عمل ہی اسے طاقت دیتا تھا۔ وہ تھکی ہاری، خالی روح کے ساتھ لوگوں سے بات نہیں کرتا تھا اس کی سیاہ ڈاڑھی، موٹی موٹی آنکھوں اور دھیمے لہجے اور جوان خدوخال میں دلیل کی طاقت اور عزم ہوتا تھا۔
وہ خود سے بھاگتا نہیں تھا۔ سچی تنہائی کے لیے اسے کہیں جانا نہیں پڑتا۔ ایک تکلیف دہ تنہائی اور اذیت اس نظام میں رہتے ہوئے قدم قدم پر اسے محسوس ہوتی تھی۔ جب وہ سڑکوں، بازاروں، مساجد کے باہر اور چائے خانوں اور ہوٹلوں کے آگے نارنجی بینر لہراتا، لوگوں کو مخاطب کرتا، انہیں سچائی سے آگاہ کرتا۔ تب بھی وہ تنہا ہوتا۔ نہ کوئی ہجوم، جلسہ اور نہ جلوس۔ وہ جہاں دوچار لوگوں کو دیکھتا ان سے سچائی کی، حقیقت کی، مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ کی باتیں کرنا لگتا۔ اس کے ارادوں نے، امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے خوابوں نے اسے باندھ دیا تھا، محدود کردیا تھا۔ ضروریات کی تکمیل، نوکری، اہل خانہ کی خدمت اور ضرورت کی حدتک روپے پیسے تک رسائی اور حصول، اس سے آگے وہ نہ سوچتا اور نہ تگ ودو کرتا۔ یہ سب کبھی کبھی اس سے پوچھتے ’’کیا تم ہمیں کمتر سمجھتے ہو، یا پھر تم بہت مغرور ہو‘‘ لیکن وہ دنیا کو کمتر سمجھتا اور نہ وہ مغرور تھا۔ وہ تو اس دنیا کو سنوارنا چاہتا تھا، اس دنیا میں شریعت مطہرہ کو نافذ کرنا چاہتا تھا۔ حکمرانوں کو سمجھانا چاہتا تھا شریعت مطہرہ کے نفاذ میں ہی ریاست کی اور خود ان کی زندگی ہے۔ زمانے اور غار کی چالاک روح کا مقابلہ وہ اسلام کی حکمت اور سادہ لوحی مگر طاقت ور روح کے ساتھ کرتا تھا۔ ایک سچے داعی کی طرح اس نے اپنے طنز پر قابو پا لیا تھا۔
وہ جلیل بہرام کا ساتھی تھا۔ گرنے کی آواز نے اسے چونکا دیا تھا۔ اسے اطلاع ملی تھی کہ جلیل بہرام کو قید کرنے کے لیے اس غار کی طرف لایا جارہا ہے۔ ایک چھکڑے پر، لوہے کی سلاخوں کے پنجرے میں تازہ خدا خود اپنی نگرانی میں، گھوڑوں پر سوار، گاڑی کو گھیرے ہوئے اس غار کی طرف آرہے ہیں۔ وہ غار کے قریب نشانہ باندھ کر بیٹھ گیا۔ گن اس کے ہاتھوں میں تھی۔ غصہ اس کے حواسوں پر چھایا ہوا تھا لیکن روح اسے پرسکون رہنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ روح کہہ رہی تھی، سانس اندر کھینچو، سر سے پائوں تک کان بن جائو، غور سے دیکھو اور انتظار کرو۔ موجودہ نظام کے پاس، اس غار میں موجود سانپوں، خون کے چشموں اور تازہ خدائوں کے پاس زیادہ مہلت نہیں ہے اور ایسا ہی ہوا۔ تھوڑی ہی دیر میں نئے دور کے جھوٹے معبود، جنہوں نے آدمی کو اللہ سے کاٹ کر مخلوق، مادے اور اس کے نفس کے آگے سربسجود کردیا اور اس کی روح، ایمان اور آزادی کو غلام بنالیا، اس کے نشانے پر تھے۔
اس نے تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے خدائوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس رفتار کے ساتھ کہ انہیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ انہوں نے چھپنے اور بھاگنے کی کوشش کی لیکن سب مارے گئے۔ چٹان سے نیچے اُتر کر اس نے اوندھی پڑی ہوئی سب سے بڑے خدا کی لاش کو سیدھا کیا تو وہ وطن پرستی کا خدا تھا۔ لاالہ الا اللہ اور اسلام کے تصور امت کی گولی جس کے سینے کے پار ہوگئی تھی۔ اگلے خدا کی لاش کو سیدھا کیا تو اس کے سینے پر لکھا تھا In God We Trust وہ یہ لکھا دیکھ کر مسکرایا۔ یہ سرامایہ دارانہ نظام اور سرمائے کا خدا تھا، ڈالر کا خدا۔ اس کے سینے میں اسلام کے معاشی عدل کی گولی پیوست تھی۔ اگلا الحاد اور مادیت کا خدا تھا جس کی لاش سے ابھی سے سڑاند پھوٹنا شروع ہوگئی تھی۔ گولی اس کے سر میں لگی تھی۔ یہ کلام الٰہی، وحی اور حق کی گولی تھی۔ اگلی لاش بہت بد ہیئت اور سیاہ تھی جس کا اندروں چنگیز سے تاریک تر تھا یہ جمہوریت کی لاش تھی۔ گولی اس کے دل میں پیوست تھی یہ خلافت راشدہ کی گولی تھی۔ اگلی لاش نسل زبان اور ثقافتوں کی عصبیتوں کی لاش تھی۔ اس کے اندر گولی بہت اندر تک چلی گئی تھی۔ اس نے گولی نکال کر دیکھی اس پر کنندہ تھا ’’ان اکرمکم عنداللہ اتقکم‘‘۔ آخری لاش سیکولرازم کی لاش تھی جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔ رات کے اس آخری پہر میں جب وقت اپنی سانسیں روک کر ایک فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام سے اسلامی نظام خلافت میں تبدیل ہورہا تھا جلیل بہرام اس کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا وہ کہہ رہا تھا ’’یہ وہ خدا تھے جنہیں انسانوں نے خود تراشا اور پھر خود اپنی نسلیں ان کے قدموں میں قتل کردیں‘‘ ابھی وہ اپنا جملہ پورا بھی نہیں کرپا یا تھا کہ آسمان پر ایک روشنی چمکی۔ جو نہ سورج کی روشنی تھی اور نہ چاند کی۔ آسمان پر لکھے لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی روشنی تھی۔ دور سے اذان کی آواز گواہی دے رہی تھی۔ حی علی الفلاح۔ حی علی الفلاح
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جلیل بہرام چاہتا تھا کے لیے اس کے ذریعے رہے تھے کی گولی کرنے کے کے ساتھ رہی تھی کی لاش کا خدا غار کے اور اس اور نہ
پڑھیں:
اسرائیل کی من مانیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن معاہدے کے باوجود غزہ میں حالات خاصے خراب ہیں اور اسرائیل وہاں اپنی کارروائیاں کر رہا ہے۔ ان کارروائیوں میں مسلسل ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔
یوں غزہ میں قیام امن کی جو امید قائم ہوئی تھی وہ تاحال تعبیر کی صورت میں سامنے نہیں آسکی۔امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ دنوں اسرائیل بھی گئے تھے اور انھوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے ساتھ خطاب بھی کیا تھا لیکن اب وہ بھی حماس کے حوالے سے مسلسل خاصے سخت بیانات دے رہے ہیں۔ادھر امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے یروشلم میں اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے ملاقات کی ہے۔
اس ملاقات میں انھوں نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ چیلنجوں کے باوجود آگے بڑھے گا۔ صدر ٹرمپ کے غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے کے منصوبے کے تحت ایک بین الاقوامی سیکیورٹی فورس قائم کی جائے گی، تاکہ غزہ میں امن برقرار رہے جب کہ اسرائیل اس سے دستبردار ہو جائے۔قبل ازیں امریکی نائب صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ نیوز کانفرنس میں کہا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ کی تعمیر نو مشکل ہے مگر ہم اس کے لیے بہت پر امید ہیں۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکا غزہ میں بغیر فوج بھیجے صرف ہم آہنگی فراہم کرے گا۔انھوں نے واضح کیا کہ حماس کو غیر مسلح ہونے کی کوئی واضح ڈیڈ لائن نہیں دینا چاہتے۔امریکا کی درخواست پر برطانوی فوجیوں کو غزہ امن منصوبے کی نگرانی کے لیے اسرائیل میں تعینات کردیا گیا۔
غزہ میں جب تک حتمی امن نہیں ہوتا تب تک تنازعہ فلسطین کا حل بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ اس وقت ضروری بات یہ ہے کہ غزہ امن منصوبے میں جو جو نکات شامل ہیں‘ان پرفوری عمل درآمد کرایا جائے ‘جہاں تک حماس کو غیر مسلح کرنے کی شرط کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بہتر تو یہ تھا کہ حماس کے ساتھ معاملات طے کیے جاتے کیونکہ حماس بھی حالیہ مذاکراتی عمل میں شریک تھی اور وہ بھی غزہ میں امن کے عمل پر راضی ہے۔
اس کے باوجود غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ کہیں نہ کہیں معاملات حل نہیں ہوئے اور کچھ نکات ابھی ادھورے اور مبہم ہیں۔ حماس کا یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ حماس کے لیڈروں اور کارکنوں کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔اصولی طور پر تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس قسم کی ضمانت امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ با آسانی دے سکتے ہیں۔
اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ حماس غیر مسلح ہونے پر آمادہ ہو جائے گی جس کی وجہ سے غزہ میں مستقل امن کی ضمانت بھی مل جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ میں بین الاقوامی فورس کی تعیناتی بھی انتہائی ضروری ہے۔ فقط برطانیہ کی فوج کی تعیناتی سے معاملہ حل نہیں ہو گا اس کے لیے مسلم ممالک خصوصاً عربوں پر مشتمل فورس کی تعیناتی بھی ایک اہم نقطہ ہے جس پر جتنا جلد ہو سکے عمل کیا جانا چاہیے۔
غزہ میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے ‘حالیہ امن منصوبے کے اعلان کے بعد بڑی تعداد میں فلسطینی اپنے گھروں میں آئے ہیں‘لیکن اسرائیل کی کارروائیاں تاحال جاری ہیں ‘علاقے میں ادویات اور کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت ہے۔ اسرائیلی فورسز غزہ میں امدادی قافلوں کو ابھی بھی جانے نہیں دے رہی جو سراسر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے ۔
عالمی ادارے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں قحط کی صورت حال ہے اور اس کی ساری ذمے داری اسرائیل کی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسرائیلی حکومت نے غزہ میں امدادی سامان کی بندش کو جاری رکھا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ فوجی کارروائیاں بھی کر رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے اپنے ایک فیصلے میں مشاورتی رائے دی ہے کہ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (UNRWA) اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مقبوضہ غزہ کے فلسطینیوں میں امداد کی فراہمی اسرائیل کی ذمے داری ہے۔
اسرائیل غزہ میں بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرے، غزہ جانے والے امدادی سامان میں رکاوٹ نہ ڈالے۔اسرائیل کو UNRWA اور دیگر اقوام متحدہ کے اداروں کو امداد کی فراہمی میں تعاون کرنا چاہیے۔عالمی عدالت انصاف (ICJ) کے ججوں نے قرار دیا کہ اسرائیل اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی انروا کے ملازمین کی بڑی تعداد حماس کے ارکان ہیں۔واضح رہے اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا پر اسرائیلی پابندی پر جنرل اسمبلی نے عدالت سے اسرائیل کی قانونی ذمے داریوں کے بارے میں مشاورتی رائے دینے کی درخواست کی تھی۔
اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت نے غزہ کے حوالے سے جس قسم کی من مانی کی ہے اور ایک چھوٹے سے خطے کے لوگوں پر جس طرح مسلسل بمباری جاری رکھی ہوئی ہے‘ جنگوں کی تاریخ میں اس قسم کی بے رحمی کی مثال کم ہی دیکھنے میں ملے گی۔ اقوام متحدہ کے مختلف ادارے متعدد بار غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کے بارے میں اقوام عالم کو آگاہ کر چکے ہیں لیکن اقوام عالم کی طاقتور اقوام نے بھی اسرائیل کی اس من مانی کو روکنے کے لیے عملی اقدامات سے گریز کی پالیسی اختیار کی ہے۔
روس خود یوکرین کی جنگ میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ روس سے امید کی جا سکتی تھی کہ وہ فلسطین کی حمایت کو آئے گا لیکن یوکرین کی جنگ نے روسی قیادت کو بری طرح الجھا دیا ہے اور ان کی سب سے پہلی ترجیح یوکرین کے مسئلے سے نمٹنا بن چکی ہے جس کی وجہ سے وہ فلسطین پر عملی قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں جب کہ چین کی پالیسی بھی بیانات سے آگے نہیں ہے جب کہ بھارت کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔عرب ممالک کی طرف دیکھا جائے تو انھوں نے جس قدر ہو سکا کوشش کی ہے مگر عالمی سیاست میں ان کا وزن اتنا زیادہ نہیں کہ وہ امریکا اور مغربی ممالک کی مشترکہ پالیسی کا توڑ کر سکیں۔ یوں اسرائیل کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا ہے۔
اسرائیل فلسطین کے حوالے سے مسلسل اپنے منصوبے پر عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔میڈیا کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطین کے علاقے مغربی کنارے کے انضمام کا ابتدائی مرحلے کا بل منظور کرلیا گیا۔الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کی مخالفت کے باوجود بل کو آگے بڑھانے کے حق میں 25 اور مخالفت میں 24 ووٹ آئے۔نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے بیشتر ممبران یا تو غیر حاضر رہے یا بل کے حق میں ووٹ نہ دیا۔ واضح رہے امریکی صدر ٹرمپ نے کہہ رکھا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
اردن نے اسرائیلی حکومت کے مغربی کنارہ ہتھیانے کے دو ڈرافٹس کی ابتدائی منظوری کی شدید مذمت کی ہے ۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی افواج کے غزہ پر تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں شرم الشیخ،مصر میں مسلم اور عرب دنیا، امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کی قیادت کی موجودگی میں طے پانے والے امن معاہدے کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔عالمی برادری اسرائیل کی خلاف ورزیاں روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے ۔ الجزیرہ کے مطابق شمالی غزہ کے علاقے طوفہ میں بھی اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دی ہیں جن میں ایک اسرائیلی فوجی اور ایک شہری کی لاش شامل ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس غزہ امن معاہدے کی طے کردہ شرائط پر عمل کر رہی ہے ‘اس امن معاہدے میں یہ بھی شق شامل تھی کہ حماس کے پاس جو یرغمالی موجود ہیں ‘انھیں زندہ یا مردہ اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی تکمیل تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل کو اس پر عملدرآمد کے لیے مجبور کیا جائے گا کیونکہ اسرائیل کی حکومت تاحال اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر بھی عمل کر رہی ہے اور غزہ میں جنگ بندی کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے۔مغربی کنارے کو ہتھیانے کے لیے اسرائیلی پارلیمنٹ نے جو قرار دادیں یا مسودے منظور کیے ہیں وہ سراسر زیادتی ہے۔
موجودہ حالات میں تو اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔ اسرائیل نے شام کے علاقے گولان ہائیٹس پر بھی ناجائز قبضہ کر رکھا ‘اسرائیل کے انتہا پسند مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس علاقے کو اسرائیل میں ضم کر لیں۔ اگر اس قسم کی من مانی جاری رہتی ہے تو تنازعہ فلسطین حل نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکے گا۔ اس حوالے سے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی پڑے گی کیونکہ اسرائیل کے انتہا پسند اس وقت تک باز نہیں آئیں گے جب تک کہ انھیں امریکی انتظامیہ سختی سے منع نہیں کرتی۔